کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ مسلم پرسنل لاز میں مداخلت ہے: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

لکھنؤ، مارچ 28: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے کہا ہے کہ حجاب کیس میں کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے مترادف ہے۔ دریں اثنا بورڈ کی دو خواتین ارکان نے ہائی کورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

بورڈ نے یہ بیان اتوار کو یہاں تنظیم کے ایک روزہ اجلاس کے اختتام پر دیا۔ بورڈ نے صحافیوں کو اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔

AIMPLB ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے، جس میں تمام اسلامی مکاتب فکر کی نمائندگی ہے۔

اس معاملے پر دن بھر کی بحث کے بعد بورڈ کے ارکان کا بیان آیا کہ اُڈوپی اسکول کی طالبات سے متعلق حجاب کے معاملے میں عدالت کا فیصلہ نہ صرف آئین کی دفعہ 15 سے متصادم ہے جس میں مذہب کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیاز کی ممانعت ہے، بلکہ دفعہ 14، 19، 21 اور 25 کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔

اس بات کی نشان دہی کرتے ہوئے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ صرف انفرادی آزادی کے خلاف ہے بلکہ مذہبی اور ثقافتی آزادی کے بھی خلاف ہے، بورڈ کے ارکان نے اس فیصلے کے مسلم لڑکیوں کی تعلیم پر پڑنے والے اثرات پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا۔

بورڈ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے ’’اس فیصلے نے مسلم طالبات کو حجاب اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے مخمصے میں ڈال دیا ہے۔۔۔۔جو کہ انتہائی قابل مذمت اور شرمناک ہے۔‘‘

ارکان نے نشان دہی کی کہ ہائی کورٹ نے انفرادی حقوق کے بارے میں بحث کرتے ہوئے یہ فیصلہ بھی سنایا تھا کہ اسلام میں حجاب لازمی عمل نہیں ہے۔

کسی مذہب میں کیا ضروری یا غیر ضروری عمل ہے اس پر فیصلہ کرنے کے لیے ملک میں عدالتوں کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے بورڈ کے اراکین نے کہا کہ ’’عدالت کے پاس اسلام میں ضروری مسئلہ پر فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا فیصلہ علمائے کرام اور اسلامی اسکالرز کو کرنا ہے۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین نے ہر شہری کو اپنے مذہب میں ضروری اور غیر ضروری چیزوں کا انتخاب کرنے کا حق دیا ہے۔

بورڈ نے ’’مقدس صحیفوں کی اپنی خواہشات اور سمجھ کے مطابق تشریح کرنے پر عدالت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، جب کہ وہ ایسا کرنے کے نہ تو مجاز ہیں اور نہ ہی اہل ہیں۔‘‘

کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے نے یہ خدشہ بھی پیدا کر دیا ہے کہ پگڑی، مصلوب اور بندی جیسی دیگر مذہبی علامتوں پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔

بورڈ نے کرناٹک کی ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ حجاب والی مسلم طالبات کو اس وقت تک کلاس میں جانے اور امتحانات میں شرکت کی اجازت دے جب تک سپریم کورٹ اس کیس میں اپنا فیصلہ نہیں دے دیتی۔

اتراکھنڈ اسمبلی کی جانب سے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کے لیے ایک گراؤنڈ بنانے کے لیے ایک کمیٹی کی تقرری کے بارے میں بورڈ کے اراکین نے کہا کہ اتراکھنڈ اسمبلی کی جانب سے یو سی سی پر ایک ماہر کمیٹی کی تقرری غیر آئینی ہے۔ بورڈ نے کہا ’’ہندوستان ایک کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی ملک ہے اور ایک یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرنے سے مذہبی آزادی کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔‘‘

بورڈ نے نشان دہی کی کہ ’’ہندوستان کے آئین نے ناگالینڈ اور میزورم کے ناگاوں اور کوکی قبائل کے حقوق محفوظ رکھے ہیں اور کہا ہے کہ ان پر کوئی ایسا قانون نہیں لگایا جائے گا جو دفعہ 371 اے اور 371 جی کے تحت ان کے قبائلی قوانین میں مداخلت کرے‘‘

بورڈ نے محسوس کیا کہ ’’اس کے پیچھے اصل مقصد ہندوتوا کو مسلط کرنا ہے جس کے ذریعے تمام چھوٹے مذہبی اور ثقافتی گروہوں کو زبردستی اکثریتی مذہب میں ضم کیا جا سکتا ہے۔‘‘

بورڈ کی ورکنگ کمیٹی اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ تنوع میں اتحاد ہی ہماری قوم کی اصل شناخت اور طاقت ہے اور اسے تباہ کرنے کی ہر کوشش ملک میں پولرائزیشن اور بدامنی کو جنم دے گی۔

یہ کہتے ہوئے کہ یہ ایک ’’خطرناک اقدام‘‘ ہے، بورڈ نے تمام ’’انصاف پسند اور مذہبی اداروں‘‘ سے کھل کر اس کی مخالفت کرنے کی اپیل کی۔