صحافی فہد شاہ کی جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندی کو ہائی کورٹ نے منسوخ کیا

نئی دہلی، اپریل 19: جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے صحافی فہد شاہ کی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکام نے طریقۂ کار کے تقاضوں پر عمل نہیں کیا ہے۔

تاہم فہد شاہ، نیوز پورٹل کشمیر والا کے چیف ایڈیٹر، ابھی جیل میں ہی رہیں گے کیوں کہ انہیں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت بھی الزامات کا سامنا ہے۔

پولیس نے گذشتہ سال فروری میں فہد شاہ کو گرفتار کیا تھا اور ان پر دہشت گردی کی تعریف کرنے، جعلی خبریں پھیلانے اور تشدد بھڑکانے کا الزام لگایا تھا۔ تاہم ان کے خلاف درج تین مقدمات میں سے دو میں انھیں ضمانت مل گئی۔ گذشتہ سال مارچ میں سرینگر کے ضلع مجسٹریٹ نے شاہ کو جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت احتیاطی حراست میں رکھنے کا حکم دیا تھا۔

یہ قانون حکام کو اجازت دیتا ہے کہ وہ افراد کو بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھ سکیں تاکہ وہ کسی کو بھی ایسے طریقے سے کام کرنے سے روکیں جو ’’ریاست کی سلامتی یا امن عامہ کی بحالی‘‘ کے لیے نقصان دہ ہو۔

گذشتہ ہفتے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جسٹس وسیم صادق نگرال نے احتیاطی نظر بندی کے حکم کو کالعدم کر دیا۔ 13 اپریل کو اپنے فیصلے میں نگرال نے کہا کہ شاہ کی حراست کے لیے جو بنیادیں پیش کی گئی ہیں وہ ’’کسی خاص تفصیلات کے بغیر مبہم اور بے بنیاد دعوے‘‘ ہیں۔ جج نے یہ بھی نوٹ کیا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے صحافی کے اس دعوے کی تردید نہیں کی کہ انھیں ان دستاویزات کی کاپی نہیں دی گئی جن کی بنیاد پر نظر بندی کا حکم دیا گیا ہے۔

ہائی کورٹ نے یہ بھی نشان دہی کی کہ چوں کہ فہد شاہ کو ان کے خلاف تیسرے مقدمے میں ضمانت نہیں دی گئی تھی، اس لیے انھیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لینے کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔

جسٹس نگرال نے نوٹ کیا کہ سرینگر کے ضلع مجسٹریٹ نے ان خدشات کا حوالہ دیا تھا کہ فہد شاہ کی سرگرمیاں امن عامہ کو بگاڑ سکتی ہیں اور یہ بھی کہ ان کی سرگرمیاں ’’ملک کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہیں۔‘‘ ہائی کورٹ نے کہا کہ ان دونوں بنیادوں کو ایک ساتھ استعمال نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ان کے مختلف مفہوم ہیں۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ ’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حراست میں لینے والی اتھارٹی نے شاہ کے خلاف حکم جاری کرتے وقت اپنا دماغ نہیں لگایا تھا۔‘‘

جسٹس نگران نے کہا کہ ’’عدالت کا فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائے کہ زندگی اور آزادی کا حق شہریوں کے سب سے زیادہ عزیز حقوق میں سے ایک ہے اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس قیمتی حق کی حفاظت کرے۔‘‘