سپریم کورٹ نے دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کو ماؤنوازوں سے تعلق کے کیس میں بری کرنے کے بمبئی ہائی کورٹ کے حکم کو مسترد کر دیا

نئی دہلی، اپریل 19: سپریم کورٹ نے بدھ کو بمبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا جس میں دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا کو بری کر دیا گیا تھا، جنھیں مارچ 2017 میں ماؤنوازوں سے تعلق رکھنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سائی بابا کو مئی 2014 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب پولیس نے الزام لگایا تھا کہ ان کے ’’ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا امکان ہے‘‘۔ سابق پروفیسر کو اپریل 2016 میں عبوری ضمانت دی گئی تھی۔ 2017 میں ان کی سزا کے بعد سائی بابا کو ناگپور سنٹرل جیل میں رکھا گیا تھا۔

14 اکتوبر کو ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ گڈچرولی کی ایک سیشن عدالت نے سائی بابا پر مرکزی حکومت کی منظوری کے بغیر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی تھی۔

55 سالہ سائی بابا وہیل چیئر پر ہیں کیوں کہ وہ ایسی بیماریوں میں مبتلا ہیں جن کی وجہ سے ان کا 90 فیصد جسم معذور ہے۔ انسانی حقوق کے متعدد اداروں اور سول سوسائٹی کے گروپوں نے صحت کی بنیاد پر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

بدھ کی سماعت میں جسٹس ایم آر شاہ اور سی ٹی روی کمار کی ڈویژن بنچ نے معاملے کو نئے سرے سے غور کے لیے ہائی کورٹ کے پاس بھیج دیا۔ عدالت نے یہ بھی تجویز کیا کہ کیس کی سماعت بامبے ہائی کورٹ کی کسی اور بنچ کے ذریعہ کی جائے کیونکہ پچھلی بنچ نے پہلے ہی اس معاملے پر رائے قائم کر لی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ’’یہ ریاست کے لیے یہ بحث کرنے کے لیے کھلا رہے گا کہ ایسے معاملے میں ملزم کو سزا سنائے جانے کے بعد [مرکز سے] منظوری پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ہائی کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ اپیلوں کو تیزی سے نمٹایا جائے، ترجیحاً چار ماہ کے اندر۔‘‘