جموں و کشمیر: پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کے الزام میں مزید تین سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا
نئی دہلی، جولائی 17: جموں و کشمیر انتظامیہ نے اتوار کو ایک پولیس اہلکار اور کشمیر یونیورسٹی کے ترجمان سمیت تین سرکاری ملازمین کو مبینہ طور پر پاکستان میں مقیم عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کے الزام میں برطرف کر دیا۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے آئین کے آرٹیکل 311(2)(C) کا حوالہ دیتے ہوئے یہ احکامات جاری کیے۔ یہ شق کسی سرکاری ملازم کو اس صورت میں بغیر انکوائری کے ہٹائے جانے کی اجازت دیتی ہے، اگر صدر یا گورنر مطمئن ہوں کہ ریاستی سلامتی کے مفاد میں تفتیش یا ملزم کو سننے کا موقع درکار نہیں ہے۔
اپریل 2021 میں سنہا نے اس پروویژن کے تحت کارروائی کرنے کے لیے ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی تھی۔ تب سے جموں و کشمیر انتظامیہ نے آرٹیکل 311(2)(C) کے تحت 52 سرکاری ملازمین کو ہٹا دیا ہے۔
اتوار کو جاری کردہ تین احکامات میں سنہا نے کشمیر یونیورسٹی کے پبلک ریلیشن آفیسر فہیم اسلم، محکمہ ریونیو آفیسر مروت حسین میر اور پولیس کانسٹیبل ارشد احمد ٹھوکر کو ہٹا دیا۔
ایک نامعلوم اہلکار نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ان تینوں پر ’’پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ کام کرنے، عسکریت پسندوں کو رسد فراہم کرنے، عسکریت پسندوں کے نظریے کا پرچار کرنے، عسکریت پسندوں کی مالی اعانت بڑھانے اور علاحدگی پسند ایجنڈے کو آگے بڑھانے‘‘ کا الزام لگایا گیا ہے۔
اسلم 2008 سے یونیورسٹی میں پبلک ریلیشن آفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ انھوں نے انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر کے نامہ نگار کے طور پر بھی کام کیا ہے۔
نامعلوم اہلکاروں نے دعویٰ کیا کہ اسلم نے ’’علاحدگی پسند نظریہ کی حمایت کی ہے‘‘ اور ’’وادی کشمیر میں دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے ایک اہم پروپیگنڈا کرنے والا‘‘ رہا ہے۔ حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسلم کی سوشل میڈیا پوسٹس نے ملک کے لیے ’’اس کی نفرت کا مظاہرہ‘‘ کیا ہے اور سیکیورٹی فورسز کو ’’ہندوستانی پیشہ ورانہ فورسز‘‘ قرار دیا ہے۔
میر کو 1985 میں محکمہ ریونیو میں جونیئر اسسٹنٹ کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔ ٹھوکر کو 2006 میں جموں و کشمیر پولیس کے مسلح ونگ میں کانسٹیبل کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور بعد میں اسے 2009 میں اس کے ایگزیکٹو ونگ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
فروری کے شروع میں بھی جموں و کشمیر انتظامیہ نے تین سرکاری ملازمین کی خدمات کو یہ الزام لگا کر ختم کر دیا تھا کہ وہ ’’ملک دشمن‘‘ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ وہ تین ملازمین باندی پورہ کے ایک جونیئر انجینئر منظور احمد ایتو، کپواڑہ میں محکمہ سماجی بہبود کے ملازم سید سلیم اندرابی اور ریاسی کے گورنمنٹ مڈل اسکول کے استاد محمد عارف شیخ تھے۔