جھارکھنڈ: دو مسلمان افراد نے پولیس افسران پر جنسی زیادتی اور حراست میں تشدد کا الزام لگایا

نئی دہلی، یکم ستمبر: نیوز پورٹل ٹو سرکلز ڈاٹ نیٹ نے منگل کے روز رپورٹ کیا کہ دو مسلمان افراد نے جھارکھنڈ کے جمشید پور شہر میں پولیس افسران پر الزام لگایا ہے کہ انھیں پچھلے ہفتے پوچھ گچھ کے لیے بلایا جانے کے بعد تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

مبینہ واقعہ 26 اگست کو پیش آیا۔ متاثرین نے بتایا کہ کم از کم سات پولیس افسران بشمول کدما تھانے کے انچارج افسر منوج کمار ٹھاکر ان کے ساتھ زیادتیوں میں ملوث تھے۔

دونوں افراد نے اپنی شکایت کے ساتھ ایک خط سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ایسٹ سنگھ بھوم، ایم تامل وانن کو پیش کیا ہے۔ افسر نے ٹو سرکلز ڈاٹ نیٹ کو تصدیق کی کہ انھیں کارروائی کا مطالبہ موصول ہوا ہے۔

وہیں پولیس افسر ٹھاکر نے ان الزامات کی تردید کی ہے ، لیکن اس نے اعتراف کیا کہ دونوں کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

ان لوگوں نے بتایا کہ تھانے میں ان کی پٹائی کے بعد ایک کو کہا گیا کہ وہ زمین پر لیٹ جائے۔ پولیس افسران نے مبینہ طور پر دوسرے شخص سے کہا کہ وہ فرش پر موجود شخص کی پتلون اتار دے۔

متاثرین میں سے ایک نے ٹو سرکلز ڈاٹ نیٹ کو بتایا ’’میں نے سوچا کہ وہ مجھ سے اپنی چوٹیں دکھانے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ لیکن پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر اس شخص سے جنسی تعلق قائم کرنے کو کہا جسے فرش پر لیٹنے کے لیے کہا گیا تھا۔‘‘

اس نے مزید کہا ’’میں نے رونا شروع کر دیا اور ان سے کہا کہ مجھے مار ڈالو لیکن مجھے ایسا کرنے پر مجبور نہ کرو۔ مجھے کہا گیا تھا کہ ’اگر تم ایسا نہیں کرتے، تو وہ (دوسرا آدمی) تمھارے ساتھ ایسا کرے گا۔‘ جب میں نے مکمل طور پر انکار کیا تو مجھے چہرے پر جوتے مارے گئے۔‘‘

مکتوب میڈیا کے مطابق پولیس اہلکاروں نے تب فرقہ وارانہ گالیاں بھی استعمال کیں جب ان میں سے ایک نے انھیں اپنا پورا نام بتایا۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھیں حراست میں لاٹھیوں اور کرکٹ وکٹ سے پیٹا گیا۔

ایک پولیس افسر نے مبینہ طور پر ان افراد سے کہا ’’تم اس (ملک) کو طالبان کی طرح بناؤ گے۔ کیا تم نے افغانستان کی حالت دیکھی ہے؟ تم کو وہاں بھیجا جائے گا۔‘‘

26 اگست کو بعد ازاں پولیس کے ذریعے ان دونوں کو رہا کیے جانے کے بعد ان کے زخموں کا علاج کرایا گیا تھا۔

وانن نے کہا کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ہیڈ کوارٹر) سے کہا گیا ہے کہ وہ اس کیس کی تحقیقات کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب انکوائری رپورٹ مل جائے گی تو کارروائی کی جائے گی۔

کدما پولیس اسٹیشن کے ہاؤس آفیسر نے ٹو سرکلز ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ دونوں افراد کو ایک مسلمان مرد اور ایک ہندو لڑکی کے فرار ہونے کے معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان میں سے ایک شخص جو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا ہے وہ اس شخص کو جانتا ہے جو عورت کے ساتھ بھاگ گیا تھا۔

تاہم اس شخص نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ اس نے مزید کہا ’’یہاں تک کہ اگر میں اس کا دوست تھا بھی، تو مجھے اس کے بھاگنے پر کیوں اذیت دی جائے؟ میں اس جگہ کے بارے میں کیسے جان سکتا ہوں جب مجھے اس کے بھاگنے کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے۔‘‘

ان میں سے ایک آدمی نے بتایا کہ پولیس نے انھیں ایک دستاویز پر دستخط کروانے کے بعد ہی جانے کی اجازت دی اور کہا کہ انھیں کوئی شکایت نہیں ہے۔

جھارکھنڈ کے ایم جی ایم ہسپتال کی تیار کردہ ایک میڈیکل رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ ایک ’’مبینہ بدسلوکی‘‘ کا معاملہ تھا۔

دریں اثنا سیاست دانوں نے پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیوں کہ پانچ روز قبل واقعہ پیش آنے کے بعد سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے رہنما بابر خان نے کہا کہ یہ لوگ بے قصور تھے، لیکن انھیں ’’بیان سے زیادہ تکلیف‘‘ پہنچی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کے سامنے اٹھایا جائے گا۔

خان نے ٹو سرکلز ڈاٹ نیٹ کو بتایا ’’اگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہ کی گئی تو ہم سول عدالت میں غلط پولیس اہلکاروں کے خلاف شکایت کا مقدمہ چلانے پر غور کر رہے ہیں۔‘‘

سول سوسائٹی آرگنائزیشن جھارکھنڈ لوک تانترک منچ کے کنوینر اشوک ورما نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے کدما روانہ ہوگی۔