’’جارحانہ ہندوقوم پرستی‘‘

پوری دنیا میںبھارت کے مفادات کیلئے بڑا خطرہ

نور اللہ جاوید، کولکاتا

ہندودائیں بازو کی جماعتوں کی بیرونی ممالک میں سرگرمیوں سے بھارتی تارکین وطن کی پیشہ ورانہ اور پرامن شبیہ متاثر
نفرت انگیز مہم کی وجہ سے بیرونی یونیورسٹیوں اورتعلیمی اداروں میں بھارتی طلبہ شک کے دائرے میں
عالمی دلت تنظیموں کی کوششوں کو ملا پھل، متعدد امریکی شہروں میں ذات پات مخالف قانون سازی سے نئی راہیں ہموار
امریکہ کی امیر ترین ریاست کیلیفورنیا بھارتی تارکین وطن کی پسندیدہ منزل ہے۔ اس ریاست کی سینیٹ میں افغان نژاد ڈیموکریٹ ممبر عائشہ وہاب کے ذریعہ گزشتہ ہفتے 11 مئی کو ’’ذات پات امتیاز مخالف بل‘‘ متعارف کرایا گیا جو 35/1 سے منظور کرلیا گیا۔ دنیا میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ریاست نے ذات مخالف قانون کو پاس کیا ہے۔ آزادی کے بعد بھارت میں چھوت چھات کے خلاف قانون سازی کی گئی مگر ذات پات کے نام پر امتیازات کے خلاف براہ راست قانون اب تک نہیں بنایا گیا ہے جب کہ بھارت کے بنیادی مسائل میں سے ایک ذات پات کی بنیاد پر تعصب اور امتیازات ہیں۔ آزادی کے 70 سال گزر جانے کے باوجود بھارت سماجی لعنت پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے۔ عائشہ وہاب نے یہ بل پہلی مرتبہ 22 مارچ 2023 کو ریاستی سینیٹ میں پیش کیا تھا، اس وقت سے ہی امریکہ میں آر ایس ایس کے حامیوں نے طوفان برپا کر رکھا ہے۔اس بل کو ہندو مخالف اور ہندو فوبیا سے تعبیر کرتے ہوئے احتجاج کیے جا رہے ہیں۔ دائیں بازوں کے ٹرولز سرگرم ہوگئے اور ٹوئیٹر پر عائشہ وہاب کو بھی ٹرول کیا جا رہا ہے مگر گزشتہ دو مہینوں کے درمیان عائشہ وہاب تمام منفی پروپیگنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سینٹ کے ممبران کو قائل کروانے میں کامیاب رہیں نتیجے میں یہ بل سینٹ سے پاس ہوگیا اور اب اسمبلی سے پاس ہونا باقی ہے۔
آر ایس ایس کے بھارت نژاد امریکی حامیوں کے احتجاج نے واضح کر دیا ہے کہ امریکی معاشرے میں بھی نفرت انگیز مہم اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق اور امتیازات جیسی معاشرتی اور سماجی تعفن زدہ بیماریوں کی جڑیں گہری ہوتی جارہی ہیں۔ صورت حال اس قدر بھیانک ہے کہ آج ذات پات مخالف قانون کو ہندو مخالف قانون قرار دے کر دائیں بازوں کی تنظیمیں امریکہ میں احتجاج کر رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر امریکہ اور دیگر یورپی و امریکی ممالک میں ذات پات امتیاز مخالف قانون کی ضرورت کیوں آن پڑی ہے؟ کیا بھارت کی طرح امریکی اور یورپی معاشروں میں بھی ذات پات کی بنیاد پر دلت، قبائلی اور دیگر پسماندہ افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات رونما ہوتے ہیں؟ حالیہ برسوں میں دائیں بازوں کی تنظیمیں امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں سرگرم ہوئی ہیں اور بھارت کی طرح وہاں بھی مسلم مخالف بیانیہ کو ہوا دے رہی ہیں، چنانچہ گزشتہ سال ستمبر میں برطانوی شہر لیسٹر میں فرقہ وارنہ فسادات کو ہندو دائیں بازوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ آج ہندو دائیں بازو کی تنظیمیں ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن گئی ہیں۔ان کی منفی اور نفرت انگیز مہم پر قابو پانا مشکل ترین ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے منفی اور شدت پسندی پر مبنی مہم کی وجہ سے دنیا سے بھارت کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے؟ کیا بیرون ممالک میں مقیم بھارت کے تارکین وطن کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا امریکہ اور برطانیہ جہاں بڑی تعداد میں بھارتی تارکین وطن آباد ہیں وہاں کی سیاسی جماعتوں نے ووٹوں کی خاطر دائیں بازو کی جماعتوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ نہیں دے رکھی تھی؟ اب جبکہ خود ان کے یہاں امن و امان کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے تو چیخیں نکل رہی ہیں۔ کیا ٹکنالوجی اور آڈیوفیشل انٹلیجنس میں ترقی کی منزلیں طے کرنے والے ممالک کو یہ نہیں معلوم تھا کہ دائیں بازو کی یہ تنظیمیں کس طریقے سے بھارت میں سرگرم انتہا پسند تنظیموں کی مدد کر رہی ہیں؟ آج بھارت میں نفرت انگیز جرائم ایک بڑا مسئلہ بن گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود انتہا پسند تنظیموں پر قابو پانے میں حکومتیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق نفرت انگیز مہم کا حصہ بننے والی 75 فیصد ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاونٹس بیرون ممالک سے چلائے جاتے ہیں۔ کیا ان ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری نہیں ہے کہ نفرت انگیز مہم چلانے والے سوشل میڈیا اکاونٹس اور ویب سائٹس پر پابند لگائیں اور ان کی فنڈنگ کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں؟
روسکلڈ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سومدیپ سین نے برطانوی شہر لیسٹر میں فرقہ وارانہ فسادت کے بعد مشہور بین الاقوامی نیوز چینل الجزیرہ کی ویب سائٹ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہندو قوم پرستی کے عروج اور دائیں بازو کی جارحانہ مہم کے لیے عالمی رہنما کچھ کم قصور وار نہیں ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے لے کر برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن تک اور اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے لے کر برازیل کے صدر جیر بولسونارو تک اور دائیں بازو کے متعدد سیاست دانوں نے خود کو مودی کے دوست کے طور پر پیش کیا ہے۔وہ مغربی رہنما جو اپنے ممالک میں دائیں بازو کے ایجنڈے کے مخالفین شمار ہوتے ہیں انہوں نے بھی مودی حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، جارحانہ قوم پرستی، مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیلوں اور مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے قانون سازی کو نظر انداز کر دیا ہے۔ مگر لیسٹر میں فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات کو ویک اپ کال کے طور پر لینا چاہیے۔ ہندو قوم پرستی کی جارحابہ مہم کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تحریک بین الاقوامی سطح پر چلائی جارہی ہے اور دوسرے ممالک میں بھی تیزی سے پر تشدد شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ ہر جگہ جمہوری اصولوں، مساوات اور انسانی حقوق کے لیے خطرہ ہے۔ مودی کی قیادت والی بھارتی حکومت سے اس پر توجہ دینے کی امید نہیں کی جا سکتی مگر دنیا اور عالمی رہنماوں سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں گے۔
امریکہ میں ذات پات کی بنیاد پر سماجی تفریق
پروفیسر سومدیپ سین نے جارحانہ ہندو قوم پرستی کو صرف بھارت کے لیے ہی نہیں بین الاقوامی برادری کے لیے بھی سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ اس پر اگے بات کریں گے۔ جہاں تک سوال امریکہ اور دیگر یورپی اور ترقی یافتہ ممالک میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے واقعات رونما ہونے سے متعلق ہے تو ’’تنظیم مساوات لیبز‘‘ اور Equality Labs جیسی تنظیموں کی رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ بھارت کے کچھ لوگ اپنی سماجی لعنت کو وراثت کے طور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی لے گئے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ اور دیگر مغربی خطوں میں تارکین کے درمیان ذات پات کی تفریق عام ہے۔ اسکول اور کالج جانے والے بچوں اور نوجوانوں کو روزانہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیلیفورنیا کے شہری حقوق کے محکمے کی طرف سے ’’سسکو‘‘ کے خلاف دائر کردہ مقدمہ قابل ذکر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ’’سسکو‘‘ کی مینیجر برینڈا ڈیوس کے کیس کے تفتیشی نوٹس میں ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے شواہد جانچ کے دوران ملے تاہم امریکہ اور اس ریاست میں ذات پات کی تفریق کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا اسی بنیاد پر اس کیس کو بند کر دیا گیا۔ ’’تنظیم مساوات لیبز‘‘ کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاستہائے متحدہ امریکہ میں سروے کیے گئے 25 فیصد دلتوں کو ان کی ذات کی بنیاد پر زبانی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، تین میں سے ایک دلت طالب علم کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ اپنی تعلیم کے دوران، تین میں سے دو دلتوں نے کام کی جگہ پر غیر منصفانہ سلوک کا سامنا کرنے کی بات کہی ہے۔ 60 فیصد دلتوں کو ذات پات پر مبنی توہین آمیز مذاق کا سامنا کرنا پڑا، 40 فیصد دلتوں اور 14 فیصد شودروں کو عبادت گاہوں میں آنے پر ناراضگی اور ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 20 فیصد دلتوں نے کاروبار کی جگہ پر امتیازی سلوک کو محسوس کیا۔
دائیں بازو کی تنظیمیں ایک طرف جہاں مذکورہ اداروں کی معتربیت پر سوال کھڑا کرتی ہیں تو وہیں دوسری طرف ذات پات کو ہندو مت کا حصہ بھی نہیں مانتیں، مگر ذات پات کے امتیازات کے خلاف قانون سازی کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہندو قوم پرست جماعتیں تضادات کا شکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہندو مت ذات پات کی بنیاد پر تفریق کی اجازت نہیں دیتا ہے تو اس کے شکار ہونے والے افراد چاہے وہ بھارت کے باشندے ہوں یا پھر بیرون ممالک میں آباد بھارتی تارکین وطن ان کی حمایت میں آواز کو کیوں نہیں بلند کیا جاتا؟ دو مہینے قبل مارچ 2023 میں آر ایس ایس کے ہندی اخبار ’’پنچ جنیہ‘‘ نے امبیڈکروادیوں کے ذریعہ امریکہ کے مختلف اداروں اور ریاستوں میں ذات پات مخالف قوانین سازی کی کوششوں کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ادارہ جاتی راستے کے ذریعہ امریکہ میں ہندو فوبیا کو فروغ دیا جا رہا ہے اور امریکہ میں باصلاحیت بھارتیوں کی ترقی کو روکنے کی سازش کی جارہی ہے‘‘ آر ایس ایس کے سابق جنرل سکریٹری اور بی جے پی لیڈر رام مادھو جو ہندوتوا کی حمایت میں کھل کر مضامین لکھتے ہیں، انہوں نے مارچ میں امریکہ میں ذات پات مخالف قانون سازی کی مخالفت کرتے ہوئے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون میں لکھا کہ ’’وہ گروہ جو ذات پات کے امتیاز کے اس جھوٹے جھنڈے کی حمایت کرتے ہیں، وہ عام طور پر ہندوفوبک ہوتے ہیں۔ وہ اس امتیازی کارڈ کا استعمال ہندو مذہب کو بدنام کرنے کے لیے کر رہے ہیں‘‘۔ ایسے میں سوال ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر جب بھارت میں امتیازات اور بدسلوکی کے واقعات عام ہیں (تعلیمی اداروں میں امتیازات سے متعلق تفصیلی رپورٹ ہفت روزہ دعوت میں شائع ہوچکی ہے) تو پھر آر ایس ایس اور دیگر دائیں بازوں کی تنظیمیں کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ ذات مخالف قوانین سازی ہندو فوبک ہیں؟ کیا ذات پات کے نظام اور اس کے غیر انسانی رویے کے خلاف آوازبلند کرنا انسانی مساوات کے لیے ناگزیر نہیں ہے؟ اس پورے معاملے میں حکومت کے قریبی تنظیموں کا منفی کردار تشویش کا باعث اس لیے ہے کہ پوری دنیا میں یہ پیغام جارہا ہے کہ ہندو مذہب اور بھارتی معاشرہ انسانی مساوات، صنفی، نسلی اور ذات پات کے امتیازات کے خلاف کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس سے یقینا بھارت کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور امریکی سینٹ کے باہر دائیں بازو کی تنظیموں کے ذات پات امتیازات کے خلاف قانون سازی پر مظاہرے یہ ثابت کرتے ہیں کہ سوچ وفکر کے اعتبار سے بھارت اور اس کے عوام صدیوں پیچھے ہیں۔ یہ ایک طرف وشو گرو ہونے کا زعم ہے تو دوسری طرف آج بھی ماضی کے دقیانوسی خیالات اور فکر کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ امبیڈکر ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ، بوسٹن اسٹڈی گروپ، پیریار امبیڈکر اسٹڈی سرکل، امبیڈکر بدھسٹ ایسوسی ایشن، امبیڈکرائٹ بدھسٹ ایسوسی ایشن آف ٹیکساس، امبیڈکر کنگ اسٹڈی سرکل اور امبیڈکر انٹرنیشنل مشن جیسے گروپ اگر آج یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہندوازم انسانی مساوات کے لیے کھڑا کیوں نہیں ہو رہا ہے تو اس جانب بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی جو ہندو ازم کی سربلندی کے لیے خود کو وقف کر دینے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کو اس پر ضرور سوچنا چاہیے۔
ہندو جارحانہ قوم پرستی کا عروج اور بھارتی تارکین وطن کی مشکلات
الیکشن کے قوانین میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت اور لیڈر کو مذہب کے نام پر انتخابی مہم چلانے کی سخت ممانعت ہے۔ حالیہ کرناٹک اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران وزیرا عظم مودی نے جس طریقے سے جے بجرنگ بلی کے نعرے بلند کر کے انتخابی مہم کو پولرائز کرنے کی کوشش کی وہ نہ صرف قوانین کا کھلا مذاق تھا بلکہ الیکشن کمیشن اور قانون کی حکمرانی پر بھی سوالات قائم کرنے والا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ وزیرا عظم مودی اور بی جے پی نے یہ کوئی پہلی مرتبہ کیا ہے بلکہ رام مندر کی تحریک کے دور سے ہی اس کی شروعات ہوگئی تھی اور آج یہ انتخابات جیتنے کا سب سے آسان اور شارکٹ طریقہ بن گیا ہے۔ آج بھارت میں کھلے عام نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے۔مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی دینے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لیے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنی پڑتی ہے، اس کے باوجود دھمکی دینے والوں کی گرفتاری نہیں ہوتی۔ نفرت انگیز تقاریر کے خلاف سپریم کورٹ کے سخت تبصروں اور ہدایات کو ریاستی حکومتوں نے مذاق بنا لیا ہے۔ نفرت اور خوف کی سیاست مودی اور بی جے پی کو قومی اور ریاستی انتخابات جیتنے میں مدد دے رہی ہے، مگر اس سے بھارت کی روایتی شبیہ کو شدید دھکا لگا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی شہریوں کی زندگی کو بھی غیر محفوظ ہو گئی ہے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں ہندو دائیں بازو کی جماعتوں کی سرگرمیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں تاہم 2014 کے بعد بھارت کی طرح مغربی ممالک میں بھی ہندو جارحانہ قوم پرستی کھل کر اس طریقے سے سامنے آئی ہے کہ مغربی ممالک میں سرگرم انسانی حقوق کے ماہرین بھی ہندو قوم پرستی سے لاحق عالمی خطرات سے دنیا کو آگاہ کرنے لگے ہیں۔ مغربی میڈیا میں ہندو قوم پرستی سے متعلق تشویش پر مبنی خبریں اور مضامین بھرے پڑے ہیں۔گزشتہ سال برطانوی شہر لیسٹر میں جس طریقے سے فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات رونما ہوئے اور اس کے بعد جس طرح بھارت کے سفارت خانہ نے ہندو جارحانہ مہم کا دفاع کیا اس نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کینیڈا میں بھی ہندو قوم پرست مہم شباب پر ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں سکھوں کے ایک اسکول کے باہر سکھ مخالف نعرے اور ہندو سواستیکا کے ساتھ مظاہرہ کیا گیا۔ کینیڈین ماہرین تعلیم کو بھارت میں مودی حکومت پر تنقید کرنے کی وجہ سے ہندوتوا کے حامیوں کی جانب سے ہراساں کیا گیا اور انہیں موت اور عصمت دری کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ سال جون میں کینیڈین ہندو قوم پرست رون بنرجی نے کھلے عام مسلمانوں اور سکھوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا۔ بنرجی نے ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مودی جو کچھ کر رہے ہیں وہ بہت اچھا ہے۔ ’’میں جمہوریہ ہند میں مسلمانوں اور سکھوں کے قتل کی حمایت کرتا ہوں کیونکہ وہ مرنے ہی کے مستحق ہیں‘‘ آسٹریلیا نے بھی ہندوؤں کی طرف سے سکھوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کی ایک لہر کا تجربہ کیا۔ اس کی وجہ سے انتظامیہ کو ایک حملہ آور وشال سود کو ملک بدر کرنا پڑا۔ ملک بدری کے بعد وشال سود کا بھارت پہنچنے پر ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔ ہندو قوم پرستوں نے جس طرح کا فرقہ وارانہ تشدد بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر کیا تھا اب وہ یورپی، امریکی اور آسٹریلیائی شہروں میں بھی کھل کر اس کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں ۔
جارح ہندو قوم پرستوں کی مدد سے امریکہ، مغربی اور آسٹریلیائی شہروں میں وزیر اعظم مودی بڑی بڑی ریلیاں کرکے خود کو دنیا کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر پیش کرنے میں بظاہر کامیاب ہیں مگر ان جارح قوم پرستوں نے بھارت کی شبیہ کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ خود مودی حکومت کو ہے۔ وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ سے قبل حقوق انسانی کے امریکی اداروں نے جس طریقے سے بھارت میں مذہبی آزادی کے متعلق رپورٹ شائع کی ہے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ وشو گرو کا خواب چکنا چور ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کے آسٹریلیا کے دورے سے عین قبل سڈنی آسٹریلیائی ممبران پارلیمنٹ، سول سوسائٹی اور دیگر اداروں نے جس طرح بی بی سی کی خصوصی ڈاکیومنٹری فلم کی نمائش کا اہتمام کیا گیا وہ بھارتی انتظامیہ کو بہت کچھ سوچنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں بین الاقوامی میڈیا نے اس معاملے میں کھل کر رپورٹنگ کی ہے۔
سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں امن اور تنازعات کی تحقیق کے پروفیسر اشوک سوین بیرون ممالک میں جارح قوم پرستی کی سرگرمیوں میں اضافہ اور اس کے اثرات سے متعلق بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 32 ملین سے زائد بھارتی یا بھارتی نژاد افراد بیرون ممالک میں مقیم ہیں، بھارتی تارکین وطن کو مجموعی طور پر ’’ماڈل کمیونیٹی‘‘ کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔بھارتی تارکین وطن نے کئی ممالک میں مالی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے اعتبار سے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ آج بھارت نژاد شہری گوگل سمیت دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای او کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ مگر حالیہ برسوں میں جس طرح بھارت میں ہندو جارح قوم پرستی اچانک اٹھ بیٹھی ہے اور بیرون ممالک میں بھی ہندوتوا کے حامیوں نے بے خوف ہو کر انتہا پسندانہ بیانات اور سرگرمیاں انجام دی ہیں اس کی وجہ سے بھارتی تارکین وطن سے متعلق روایتی تصور کو ٹھیس پہنچی ہے۔ گزشتہ 30 سالوں سے آر ایس ایس اور دیگر ہندو قوم پرست تنظیمیں بیرون ممالک سرگرم ہیں۔ آر ایس ایس کی بین الاقوامی تنظیم شاخ ’’ہندو سیوک سنگھ‘‘ ہندوؤں کو متحرک کرنے کے لیے ثقافت کا استعمال کر رہی ہے۔بی جے پی کے اوورسیز فرینڈز ملک کی اندرونی سیاست میں تارکین وطن کو شامل کر رہے ہیں۔ ان اداروں نے تارکین وطن کے درمیان یہ افسانہ تیار کیا ہے کہ بھارت میں ہندو مت کو سیکولر قوتوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ متحرک ہندو تارکین وطن نے مودی کو مقبول بنانے کے لیے کئی سطحوں پر کام کیا ہے، مودی کے لیے ان ممالک میں دائیں بازو کے نظریات کے حامل سیاست دانوں کی حمایت حاصل کی لیکن اس کی وجہ سے بھارتی تارکین وطن تقسیم کا شکار ہوگئے۔
بھارت کی طرح بھارتی تارکین وطن بھی مختلف ذاتوں، قبائل، برادریوں، مذاہب اور زبانوں کے لوگوں پر مشتمل ہیں۔ ہندو تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی نقل و حرکت کے جواب میں، سکھ، کشمیری، دلت اور دیگر پسماندہ طبقات کی تنظیمیں بھی اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے سرگرم ہوگئی ہیں، اس کے لیے یہ گروپس بھی جارحانہ انداز میں لابنگ کر رہے ہیں۔
یہ صورت حال حکومت ہند کے لیے بہت سے سفارتی چیلنجز لے کر آئی ہے۔کشمیر، حقوق انسانی اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق اور اقلیتوں پر حملے اور مذہبی آزادی کے متعلق ان ممالک کی پارلیمنٹ میں آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔اس صورت حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ بھارتی تارکین وطن کی پیشہ ور، قانون کی پاسداری کرنے والے اور غیر سیاسی گروپ کے طور پر جو تصویر تھی وہ بگڑ رہی ہے ۔ میزبان ممالک کے ہندو تارکین وطن کی طرف سے اسلامو فوبک سوشل میڈیا ایکٹیوزم کے خلاف نوٹس لینے اور کارروائی کرنے کے نئے رجحان نے اس تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
خلیجی ممالک پاکستان سے قربت کے باوجود کشمیر کے متعلق غیر جانبدار رہے ہیں مگر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ہندو قوم پرستوں کی جارحانہ مہم اور حکومت ہند کی خاموشی کی وجہ سے خلیجی ممالک بھارت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ خلیجی ممالک کے عوام کے غم و غصہ کو زیادہ دنوں تک وہاں کی حکومتیں نظر انداز نہںی کرسکتیں۔اس صورت حال میں بھارت کے ساتھ دوستانہ باہمی تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے جواب میں مشرق وسطی میں مقیم ہندو تارکین وطن کو بے دخل کرنے کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورت حال ایک بڑے سیاسی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔خلیجی ممالک میں مقیم بھارتی تارکین وطن ترسیلات کے ذریعہ بھارت کی معیشت کو تقریباً 50 بلین ڈالر کا فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مہم سے بھارت کے برآمدات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ گزشتہ سال بی جے پی لیڈر نوپور شرما کے ذریعہ توہین رسالت کے واقعے کے بعد پورے خطے کی سپر مارکیٹوں نے ہندوستان کے خلاف اقتصادی بائیکاٹ کے طور پر بھارت کی تیار کردہ تمام مصنوعات کو اپنی شیلف سے ہٹا دیا تھا۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے بحرین میں مقیم فیلو حسن الاحسن نے اپنے حالیہ انٹرویومیں کہا کہ وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت نے بی جے پی اور ہندوتوا حامی شدت پسند تنظیموں کے سیاسی ایجنڈے کو خلیجی ریاستوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو زہر آلود ہونے سے روکنے کی بہت کوشش کی مگر نفرت اور تقسیم کی سیاست پر پردہ ڈالنے میں مودی حکومت بری طرح ناکام رہی ہے۔
***

 

***

 روسکلڈ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سومدیپ سین نے برطانوی شہر لیسٹر میں فرقہ وارانہ فسادت کے بعد مشہور بین الاقوامی نیوز چینل الجزیرہ کی ویب سائٹ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’ہندو قوم پرستی کے عروج اور دائیں بازو کی جارحانہ مہم کے لیے عالمی رہنما کچھ کم قصور وار نہیں ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے لے کر برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن تک اور اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے لے کر برازیل کے صدرجیر بولسونارو تک اور دائیں بازو کے متعدد سیاست دانوں نے خود کو مودی کے دوست کے طور پر پیش کیا ہے
سوم دیپ سین


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 مئی تا 03 جون 2023