جنتر منتر پر اشتعال انگیز نعرے بازی: دہلی کی ایک عدالت نے ریلی کے منتظم کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی

نئی دہلی، اگست 29: دہلی کی ایک عدالت نے جمعہ کے روز دارالحکومت میں اس ریلی کے منتظمین میں سے ایک پریت سنگھ کی ضمانت کی درخواست خارج کردی جس میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے تھے۔

عدالت نے کہا کہ پریت سنگھ دہلی کے جنتر منتر پر منعقدہ ریلی میں تقریروں میں ’’اشتعال انگیز مواد‘‘ کی تمام ذمہ داری سے خود کو آزاد نہیں کر سکتا۔

معلوم ہو کہ 8 اگست کو پارلیمنٹ سے 2 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر مسلم مخالف اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے تھے۔ تقریب کی وائرل ویڈیوز میں لوگوں کے ایک گروہ کو’’جب مُلّے مارے جائیں گے، رام رام چلائیں گے‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔

سنگھ پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے اور لوگوں کو ایک خاص مذہب کے خلاف اکسانے کا الزام ہے۔

جج انیل انتل نے ریمارکس دیے کہ اگرچہ آئین لوگوں کو اسمبلی کی آزادی اور تقریر کی آزادی دیتا ہے، لیکن انھیں مناسب پابندیوں کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ مبینہ جرائم میں سنگھ کی شراکت پہلی نظر سے ظاہر ہے۔

عدالت نے کہا کہ ملزم کو اس کے قد کے پیش نظر اپنا اختیار استعمال کرنا چاہیے تھا اور ریلی میں لوگوں کو اشتعال انگیز نعرے لگانے سے روکنا چاہیے تھا۔

پی ٹی آئی کے مطابق جج نے یہ بھی کہا کہ ریلی جنتر منتر پر منعقد کی گئی تھی حالاں کہ دہلی پولیس نے اس کی اجازت سے انکار کر دیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کووڈ 19 پروٹوکول کو بھی تقریب میں مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔

مزید یہ کہ عدالت نے نوٹ کیا کہ ایک اور ملزم بھوپندر تومر عرف پنکی چودھری کی پیشگی ضمانت کی درخواست بھی خارج کر دی گئی ہے۔

21 اگست کو دہلی کی ایک عدالت نے چودھری کی پیشگی ضمانت مسترد کر دی تھی، جس پر تقریب میں اشتعال انگیز نعرے لگانے کا الزام ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ ہندوستان کوئی ’’طالبانی ریاست‘‘ نہیں ہے اور قانون کی حکمرانی ملک کے کثیر الثقافتی معاشرے میں ’’حکمرانی کا مقدس اصول‘‘ ہے۔

جمعہ کو دہلی ہائی کورٹ نے چودھری کو گرفتاری سے عبوری تحفظ دینے سے بھی انکار کر دیا۔