ارشد شیخ
قرآنی فلسفہ
جنگ امن اور تشدد کے بارے میں قرآنی فلسفہ کو سمجھنے کے لیے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 30 کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘ انہوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں‘‘ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔
اس آیت میں ہمیں زمین پر انسان کی حیثیت اور مقام سے متعارف کرایا گیا ہے۔
قرآن کہتا ہے انسان کو اللہ کا خلیفہ مقرر کیا گیا ہے۔ نائب کے معنی ہیں وہ شخص جو کسی حاکم یا حاکم کی طرف سے تفویض کردہ طاقت کا استعمال کرتا ہے یا کسی شخص کو خدا کا زمینی نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ خلافت دراصل اسلامی حکومت کی ایک شکل ہے اور یہ اصطلاح لفظ ’خلیفہ‘ سے ماخوذ ہے۔ آیت الہیٰ کا متعلقہ حصہ وہ سوال ہے جو فرشتوں کی طرف سے، انسان کی شکل میں زمین کے لیے نائب مقرر ہونے کا اعلان سن کر کیا گیا تھا، فرشتوں نے پوچھا کہ کیا اللہ زمین پر کوئی ایسی مخلوق کو بھیجے گا جو فساد کرے گی۔ اور خون بہائے گی۔ دوسرے لفظوں میں وہ جنگ اور تشدد کا ارتکاب کرے گی۔
جیسا کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تفہیم القرآن میں ذکر کیا ہے کہ فرشتوں نے خلیفہ کی تقرری پر سوال نہیں اٹھایا: ’’یہ بات تفتیش کے طریقے سے نہیں بلکہ ان کے تجسس کی تسکین کے لیے کہی گئی تھی۔ یہ ناقابل فہم ہے کہ فرشتے خدا کے کسی بھی فیصلے پر اعتراض کرسکتے ہیں۔ لفظ نائب سے انہیں الجھن ہوئی کہ مخلوق کی ایک نوع کو کچھ اختیارکے ساتھ زمین پر آباد کیا جائے گا ۔ ان کے لیے یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ کس طرح ایک مخلوق جسے احتیار اور اتھارٹی حاصل ہو کائنات کے مجموعی نظم سے ہم آہنگ ہوسکتی ہے جبکہ کائنات کا نظم مطلقاً خدا کی مرضی اور رضا کارانہ تابعداری کی بنیاد پر قائم ہے۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات کے کسی بھی حصہ میں اختیار رکھنے والے کو مشغول کرنا فساد و خونریزی کا باعث بنے گا۔ یہ وہ پہلو ہے جس کے بارے میں فرشتے متجسس تھے۔ تمہارے پاس میری ہدایت آئے گی۔ پھر جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا اسے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مختلف رسولوں کی طرف سے لائی گئی الٰہی رہنمائی (قرآن آخری اور حتمی ہدایت ہے جو نبی محمدﷺ کی طرف سے لائی گئی ہے) کی پیروی کرتے ہیں انہیں جنگ اور تشدد سے دور کردیا جائے گا۔ وہ اپنوں اور دوسروں کے ساتھ امن میں رہیں گے۔ فطری طور پر اسی حالت میں نہ انہیں مستقبل کا کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ ماضی کے بارے میں کسی حزن (افسوس ، غم ) کا تجربہ کریں گے۔
جنگ کے لیے اجازت
قرآن جنگ کو ایک جامع انداز میں دیکھتا ہے۔ یہ ملکہ صبا کے الفاظ کے ذریعہ جنگ کے برے اثرات کو بیان کرتا ہے۔ جو کہتی ہے۔ ’’بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو اسے برباد کردیتے ہیں۔ اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کرتے ہیں۔یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں‘‘۔
تاہم قرآن جنگ کو ناقابل اجازت تصور نہیں کرتا۔ یہ اس وقت تک جرم نہیں ہے جب تک کہ یہ ایک جائز مقصد کے لیے ہو اور ایک جائز اسلامی حکومت کے ذریعہ کی جائے۔
درحقیقت منصفانہ جنگ (جہاد) کرنا اسلام کے اعلیٰ ترین فضائل میں سے ایک ہے۔ تاہم فقہا اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ بدمعاش گروہوں کے ذریعہ جہاد کا اعلان اور انعقاد نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن سورہ نمبر 22 سورہ الحج آیت 39 میں کہتا ہے
’’اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے‘‘
تفہیم القرآن میں اس اجازت کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے: مومنوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے خدا کے راہ میں ان کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی، اور ان کے ساتھ دشمنی کا برتاو محض اس لیے کیا کہ وہ وحی کے مطابق انسانی زندگی کو ڈھالنا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے وہ جب کمزور اور بکھرے ہوئے تھے تو مسلمانوں کو محض تبلیغ کرنے اور مخالفین کے ظلم و جبر پر صبر کرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔ تاہم اب جب کہ مدینہ میں ایک چھوٹی سی شہری ریاست قائم ہوچکی تھی انہیں پہلی بار ان کے لوگوں کے خلاف اپنی تلواریں کھولنے کا حکم دیا گیا جنہوں نے اپنی اصلاح کی تحریک کے خلاف مسلح دشمنی کا سہارا لیا تھا۔ امن کو ترجیح جہاں مسلمانوں کو جائز مقصد کے لیے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، وہیں انہیں امن کو ترجیح دینے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔ قرآن سورہ نمبر سورہ الانفال آیت نمبر 61 میں ہے :اور اے نبیؐ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سننے اور جاننے والا ہے۔مسلمانوں کو جنگ سے باز رہنے کا درس دیا گیا ہے۔ انہیں امن کے کسی بھی اشارے کی طرف مائل ہونا چاہیے اسے قبول کرنا چاہیے اور امن قائم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے یہاں تک کہ انہیں اس بات کا یقین نہ ہو کہ دشمن امن کے بارے میں مخلص ہے یا نہیں اور آیا وہ تصفیہ کو بعد میں خیانت کرنے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔ چونکہ دوسروں کی اصلی نیت جاننا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ان کی باتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ اگر دشمن اپنی صلح کی پیشکش میں مخلص ہے تو مسلمانوں کو صرف اس لیے خونریزی جاری نہیں رکھنی چاہیے کہ ان کی نظر میں ان کا اخلاص مشکوک ہے۔ اس کے برعکس اگر دشمن کینہ پرور ہوتو مسلمانوں کو خدا پر اعتماد کی بدولت ہمت رکھنی چاہیے اور صلح کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ انہیں دشمن کے بڑھے ہوئے ہاتھ کے جواب میں امن کا ہاتھ بڑھانا چاہیے کیونکہ یہ ایک اشاریہ ہے ان کی اخلاقی برتری کا ۔ جہاں تک دوستی کے ہاتھ کا تعلق ہے جو منافقانہ طور پر دشمن میں بڑھایا گیا ہہے تو مسلمانوں میں دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کی اہلیت ہونی چاہیے۔
قرآنی اور پیغمبرانہ رہنمائی
اہم اسلاموفوبیا کے دور میں ہیں کچھ لوگ جان بوجھ کر اسلام کے بارے میں جھوٹ اور فریب پھیلاتے ہیں اوراس کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں۔ ان کا اک اہم الزام یہ ہے کہ اسلام ایک متشدد مذہب ہے اور یہ تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔ سچائی سے آگے کچھ نہیں ہوتا۔ اسلام کا مطلب امن ہے اور اسلام امن کا مذہب ہے۔ نبی کریم محمدﷺ نے اپنے صحابہ سے پوچھا ’’کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاوں جو روزے، نماز اور صدقے سے افضل ہے؟ صحابہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپﷺ نے فرمایا
لوگوں کے درمیان صلح کرنا اور صلح کروانا، کیونکہ تعلقات کو خراب کرنا مونڈھانے والا ہے (دین اور بھلائی کو تباہ کرتا ہے)(سنن ابو داود، حدیث 4883)
قرآن کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا یا مسلمانوں کا فرض ہے جن لوگوں نے ابھی تک قرآن کا مطالعہ نہیں کیا ہے اگر وہ جنگ سے چھٹکارا پانے اور امن کو فروغ دینے کے لیے سنجیدہ ہیں تو انہیں وہ کرنا چاہیے۔
(انگریزی سے ترجمہ :نورالدین نور)
***
***
جنگ اور امن نے ہمیشہ انسانی تاریخ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے اور قرآن اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتا ہے۔ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں تشدد، میڈیا اور خبروں کی رپورٹنگ میں بہت زیادہ جگہ لے لیتا ہے۔ اس موضوع سے کس طرح نمٹا جائے اور مکمل طور پر اسے کس طرح دیکھا جائے، اس بارے میں قرآن رہنمائی کرتا ہے۔ عالمگیریت کی حد اور اثرات کے تعلق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جنگ اور امن قوموں کی معیشت کو متاثر کرکے ہماری ذاتی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لڑی جانے والی جنگوں اور امن کے لیے بنائے جانے والے اتحادوں کی بنیاد پرمختلف ممالک یاتو آپس میں اکھٹے ہوجاتے ہیں یا ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جاتے ہیں ۔ ’آخری الٰہی ہدایت‘ ہونے کی حیثیت سے قرآن جنگ سے نمٹنے ،امن قائم رکھنے اور تشدد کو ختم کرنے کے لیے جامع رہنمائی پیش کرتا ہے۔ اگردنیا پائیدار امن اور خوشحالی کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے قرآنی رہنمائی پر توجہ دینی چاہیے ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022