جموں و کشمیر: حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے بیٹے سمیت چار افراد کو سرکاری ملازمتوں سے برطرف کیا گیا

نئی دہلی، اگست 13: جموں و کشمیر انتظامیہ نے ہفتہ کے روز چار سرکاری ملازمین کو دہشت گرد تنظیموں سے مبینہ تعلق کے الزام میں برطرف کر دیا۔

جن لوگوں کو ملازمت سے برطرف کیا گیا ہے ان میں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے بیٹے سید عبدالمعید اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسند فاروق احمد ڈار عرف بٹہ کراٹے کی اہلیہ اصباح آرزومند خان شامل ہیں۔

معید جموں و کشمیر انٹرپرینیورشپ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ میں مینیجر تھے، جب کہ خان یونین ٹیریٹری کے ڈائریکٹوریٹ آف رورل ڈیولپمنٹ کے پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے۔

برطرف کیے گئے دیگر دو افراد میں کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ کمپیوٹر سائنسز کے ایک سائنس دان محیط احمد بھٹ اور کشمیر یونیورسٹی کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ماجد حسین قادری شامل ہیں۔

ان چاروں کو آئین کی دفعہ 311(2)(c) کے تحت برطرف کیا گیا تھا جو اس صور میں کسی سرکاری ملازم کو بغیر انکوائری کے ملازمت سے برطرف کرنے کی اجازت دیتا ہے، اگر صدر یا گورنر کا خیال ہے کہ ایسی انکوائری ریاست کی سلامتی کے مفاد میں نہیں ہوگی۔

انڈیا ٹوڈے نے رپورٹ کیا کہ معید نے مبینہ طور پر ان عسکریت پسندوں کو اہداف اور رسد فراہم کی تھی جنھوں نے پامپور میں JKEDI کمپلیکس میں اور اس کے آس پاس حملے کیے تھے۔

گذشتہ ماہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے صلاح الدین کے دو دیگر بیٹوں سید احمد شکیل اور شاہد یوسف کی خدمات بھی ان الزامات کی بنیاد پر ختم کر دی تھیں کہ وہ دہشت گردی کی فنڈنگ ​​میں ملوث تھے۔ یہ دونوں اس وقت جیل میں ہیں اور مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔

امریکہ نے 2017 میں صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد کے طور پر نامزد کیا تھا۔ گذشتہ سال ہندوستان نے بھی ترمیم شدہ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، 2019 کے تحت 18 مزید افراد کے ساتھ اسے دہشت گرد نامزد کیا تھا۔

این ڈی ٹی وی کے ایک نامعلوم اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ خان مبینہ طور پر عسکریت پسند تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کا ایک کوریر تھی۔

اہلکار نے دعویٰ کیا کہ ’’اپنے زیادہ تر دوروں کے دوران، وہ مختلف ہوائی اڈوں کے ذریعے پروازیں لے کر روانہ ہوتی تھی لیکن وہ نیپال یا بنگلہ دیش سے سڑک کے راستوں سے واپس ہندوستان آتی تھی۔‘‘

اہلکار نے دعویٰ کیا کہ بھٹ نے کشمیر یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے فنڈز ان لوگوں میں تقسیم کیے جنھوں نے مبینہ طور پر احتجاج کے دوران پتھراؤ کیا تھا اور ساتھ ہی ساتھ عسکریت پسندوں کے کچھ خاندانوں میں بھی۔ اس نے مبینہ طور پر 2016 میں سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کو منظم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا، جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

انڈیا ٹوڈے کے مطابق ایک اور اہلکار نے دعویٰ کیا کہ قادری لشکر طیبہ کا رکن ہے۔ اس نے مبینہ طور پر 2002 اور 2004 کے درمیان چار حملے کرنے کے لیے عسکریت پسندوں کو لاجسٹک مدد فراہم کی۔