جماعت اسلامی ہند نے حکومت سے نفرت پھیلانے والی قوتوں پر لگام لگانے کا مطالبہ کیا، سیاسی جماعتوں کی غیر قانونی مالی اعانت روکنے کے لیے الیکٹورل بانڈز پر روک لگانے کی بھی اپیل کی

نئی دہلی، جولائی 3: ملک میں بڑھتے ہوئے نفرت انگیز جرائم پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ان واقعات کے لیے ذمہ دار فرقہ وارانہ قوتوں اور سماج دشمن عناصر پر لگام لگائے۔

آج جماعت کی ماہانہ پریس کانفرنس میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے نائب امیر جماعت پروفیسر محمد سلیم انجینئر کا کہنا تھ کہ پچھلے چند ہفتوں میں نفرت انگیز جرائم، گائے کے نام پر تشدد اور ہجومی تشدد جیسے جرائم میں اضافہ ہوا ہے، کیوں کہ ایسے جرائم میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

انجینئر محمد سلیم نے کہا کہ دلتوں اور اقلیتوں کے خلاف مظالم سے معاشرے کے پسماندہ طبقات میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا ہے۔ انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ معاشرے میں پولرائزیشن پیدا کرنے کے لیے نفرت اور تقسیم کی طاقتوں کے ذریعہ فوجداری معاملات اور استحصال کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ پانچ ریاستوں اترپردیش، پنجاب، ہماچل پردیش، گوا اور منی پور میں انتخابات کے ساتھ ہی فرقہ وارانہ منافرت سے متعلق جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’فرقہ وارانہ فساد پیدا کرنے کے لیے مذموم سرگرمیوں میں ملوث افراد کا حوصلہ مزید بڑھ جاتا ہے کیوں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے اور وہ یہ جانتے ہوئے مزید جرائم کرتے ہیں کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کسی سزا کے بغیر نفرت پھیلانے اور تشدد کی کارروائیوں کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔‘‘

انھوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ تعصب اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی قوتوں سے سختی سے نمٹیں۔ انھوں نے سیاسی جماعتوں، غیر سرکاری تنظیموں اور سماجی کارکنوں پر بھی زور دیا کہ وہ آگے آئیں اور ملک میں نفرتوں کو روکنے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔

شمال مشرقی دہلی میں سی اے اے کی حمایت میں ریلی نکالنے والے بی جے پی رہنما کپل مشرا کے ساتھ ایک ویڈیو میں نظر آنے والے پولیس آفیسر وید پرکاش سوریہ کو اعزاز کے بارے میں سوال کے جواب میں جے آئی ایچ کے سکریٹری محمد احمد نے کہا ’’یہ بہت پریشان کن ہے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی پی اے سی کے اہلکار فرقہ وارانہ فسادات میں شریک پائے گئے تھے، لیکن انھوں نے اس کے لیے کبھی میڈلز کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ’’لیکن یہ انتہائی مایوسی کی بات ہے کہ پولیس اہلکار جو فسادات پر قابو پانے میں ناکام رہے وہ میڈلز کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ شمال مشرقی دہلی تین دن تک جل رہا تھا، جس کے نتیجے میں 53 بے گناہ افراد ہلاک، سیکڑوں دیگر زخمی اور کروڑوں روپے کی املاک کو تباہ کردیا گیا۔ پولیس اہلکاروں کو اپنی ڈیوٹی نبھانے میں ناکام رہنے پر سزا دی جانی چاہیے۔‘‘

انھوں نے کہا کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں اعتراف کیا ہے کہ شمال مشرقی دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور باہر کے لوگوں نے اس پر عمل درآمد کیا تھا۔ حکومت کو تشدد کے اصل مجرموں کی شناخت کرنی ہوگی اور ان کو سزا دینی ہوگی۔ لیکن مجھے امید نہیں ہے کہ حکومت ہمارے مطالبے کو قبول کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ مذہب کی تبدیلی اور نام نہاد ’’لو جہاد‘‘ کے ’’غیر ضروری مسئلے‘‘ جو معاشرے کو فرقہ وارانہ اور مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس وقت اٹھائے جارہے تھے جب پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں چند ماہ ہی باقی تھے۔ اقتدار میں شامل کچھ سیاسی جماعتیں یہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ لوگوں کے پاس دوبارہ ووٹ مانگنے نہیں جاسکتی ہیں کیونکہ وہ تمام محاذوں پر ناکام ہوچکی ہیں اور اسی وجہ سے وہ سیاسی فوائد کے لیے جذباتی معاملات اٹھا رہی ہیں۔ وہ محض قوم کو درپیش اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

قیمتوں میں عیاں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ اجناس کی طلب میں کوئی اضافہ نہ ہونے کے باوجود ان کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بڑھتی قیمتوں نے ہندوستانی آبادی کے 94 فیصد افراد کو متاثر کیا ہے جب کہ اس سے فائدہ اٹھانے والے صرف کارپوریٹ اور کاروباری لوگ ہیں۔

پروفیسر سلیم نے متعدد عوامل کی وجہ سے ملک میں معاشی نمو کم ہونے کا بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو معیشت کی بحالی کے لیے بلا سود قرضوں کی فراہمی کرنی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے ذریعے الیکٹورل بانڈز کو روکنے سے انکار کرنے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر سلیم نے کہا کہ عدالت کو انتخابی فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے الیکٹورل بانڈز کو روکنا چاہیے کیوں کہ اس میں سیاسی جماعتوں اور کارپوریٹس کے مابین غیرصحت مند تعلقات کے فروغ کے امکانات موجود ہیں جو اسے اپنے فائدوں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس سے سیاسی جماعتوں کی غیرقانونی فنڈنگ میں اضافہ ہوگا۔