جیلوں میں بند زیر سماعت اور بے گناہ قیدیوں پر صدر جمہوریہ ہند کی تشویش،قابلِ ستائش

قبائلیوں، اقلیتوں اور کمزوروں کو جیل کا نہیں انصاف کا ہے انتظار

نور اللہ جاوید، کولکاتا

مودی دور میں یو اے پی اے کے تحت گرفتاریوں میں 72فیصداضافہ۔محض 3فیصد کو سزا
مسلم آبادی 14.2 فیصد، مگر جیلوں میں 19.4 فیصد مسلمان
’’ان دنوں میں سن رہی ہوں کہ ہمیں مزید جیلیں بنانے کی ضرورت ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان نئے جیلوں کی ضرورت کیوں ہے؟ اگر ہم بطور معاشرہ ترقی کررہے ہیں تو پھر ملک میں نئے جیلوں کی تعمیر کی بات کیوں کی جارہی ہے؟ جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ جیلوں کو بند کردیا جائے‘‘۔یہ الفاظ ملک کی پہلی قبائلی خاتون صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے زیر اہتمام ’’یوم آئین‘‘ کی تقریبات کے اختتامی اجلاس سے خطاب کے دوران صدر جمہوریہ نے جیلوں میں بند بے گناہ قیدیوں کے مسائل پر دل سوزی اور درد بھرے انداز میں قوم کے سامنے اپنا موقف رکھا۔ تقریب میں موجود چیف جسٹس آف انڈیا اور مرکزی وزیر قانون کے حیران کن چہروں سے صاف واضح ہو رہا تھا کہ صدر جمہوریہ کے سوالوں کے جوابات ان کے پاس نہیں ہیں۔ مرمو پوچھ رہی تھیں کہ اس ملک میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے قتل و غارت گری کی ہے مگر وہ آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں اور معمولی سے جرم کے مرتکبین کئی سالوں سے قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے مقدمے برسوں سے زیر التوا ہیں۔ ان کے گھر والوں کے پاس اتنے روپے نہیں ہیں کہ رہائی کے لیے مقدمات لڑ سکیں۔آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟ صدر جمہوریہ اپنی تقریر کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کرتی ہیں کہ میں کچھ باتیں ادھوری چھوڑ رہی ہوں جن کے بارے میں عدلیہ اور حکومت کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے۔
یہ سوال بہت ہی اہم ہے کہ کیا ملک کی پہلی قبائلی خاتون کو صدر جمہوریہ منتخب کرنے والی حکمراں جماعت مرمو کی دردمندی، دل سوزی اور ان کے احساسات کو کبھی سمجھے گی بھی، اور اس کے تدارک کے لیے کچھ کرے گی بھی؟ اس سوال کی اہمیت اپنی جگہ ہے مگر صدر جمہوریہ کی غیر روایتی تقریر میں کئی ایسے نکتے بھی ہیں جو پورے نظام پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں کہ قاتل، زانی اور گھناؤنے جرائم کے مرتکبین آزاد ہیں مگر چھوٹے چھوٹے جرم میں ہزاروں افراد سالوں سے جیلوں میں بند ہیں۔ کیا یہ سسٹم کی خرابی ہے یا پھر جان بوجھ کر سسٹم ہی اس طرح بنا دیا گیا ہے کہ مال دار افراد، اعلیٰ طبقات اور اشرافیہ قانون کی گرفت سے باہر رہیں اور نچلی ذات، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو قانون کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ انہیں عمدا پھنسا دیا جائے؟
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت کی جیلیں تو انہی طبقات کے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ان میں قیدیوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جن کے خلاف ٹرائل تک شروع نہیں ہوئے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں اضافہ اور عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ پر پہلی مرتبہ باتیں کی جا رہی ہوں، سپریم کورٹ نے کئی مرتبہ اس پر غور و فکر اور کارروائی کرنے کی بات کی ہے مگر کچھ نہیں ہوا بلکہ حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔صدر جمہوریہ نے قبائلیوں اور درج فہرست ذاتوں کے جیلوں میں بند ہونے پر جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ اگرچہ درست ہے لیکن اگر وہ اپنی تقریر میں ان مسلم نوجوانوں کا بھی ذکر کر دیتیں جنہیں دہشت گردی جیسے سنگین الزام میں بے گناہی کے باوجود گرفتار کیا گیا ہے تو ان کی تقریر پوری طرح حقیقت پر مبنی ہوتی۔
سپریم کورٹ کی ہدایت ہے کہ ایک جرم کے خلاف ایک ہی جگہ مقدمہ ہوسکتا ہے۔ اسی بنیاد پر نفرت انگیز ماحول ساز گار کرنے والے ٹی وی نیوز چینلوں کے اعلی ذات کے صحافیوں کو راتوں رات ضمانت مل جاتی ہے جب کہ صرف ایک تقریر کی وجہ سے شرجیل امام کے خلاف ملک کی مختلف ریاستوں میں مقدمات قائم کردیے جاتے ہیں۔ کئی سال پرانے ٹوئیٹ کی بنیاد پر صحافی محمد زبیر کے خلاف مختلف ریاستوں میں مقدمات قائم کردیے جاتے ہیں۔ محمد زبیر اس معاملے میں خوش قسمت تھے کہ ان کی حمایت میں عالمی پلیٹ فارم سے آوازیں بلند ہونے لگیں جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے ضمانت دے دی ۔مگر تمام قیدی محمد زبیر کی طرح خوش قسمت نہیں ہیں۔ کیرالا سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد صدیق کپن ضمانت ملنے کے بعد بھی جیل میں بند ہیں۔ شرجیل امام کے خلاف مقدمات کی قطار ہے۔ ضمانت لیتے لیتے انصاف پر یقین کی سانس اکھڑتی جا رہی ہے۔ خالد عمر اور دیگر مسلم قیدیوں کو 2020 کے دہلی فسادات میں ملوث ہونے اور سازش کرنے کے پاداش میں پابند سلاسل کر دیا گیا تھا، عدالت نے ثبوت کی عدم فراہمی کی وجہ سے بری قرار دے دیا تھا مگر اس کے باوجود یو اے پی اے ایکٹ کے تحت جیل میں بند ہیں۔ اس جانب بھی غور کرنے اور ان معصوموں اور بے گناہ نوجوانوں کے حق میں آواز اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔
صدر جمہوریہ کے خطاب کے تین اہم نکتے
صدر جمہوریہ کا تعلق اڈیشہ کے دیہی علاقے سے ہے۔ پہلے اسمبلی کی ممبر اور پھر گورنر کی حیثیت سے کام کرنے کا طویل تجربہ رکھتی ہیں۔ شاید اسی لیے ان کی تقریر میں بنیادی مسائل کی جھلک ملتی ہے۔انہوں نے تین بنیادی سوالات اٹھائے ہیں۔
جیلوں میں وسعت سے کہیں زیادہ قیدیوں کی تعداد ہے، جیل میں بند قیدیوں کی سماجی اور مذہبی شناخت اور طویل عرصے سے ٹرائل کے بغیر جیلوں میں بند لوگوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وزیر قانون اور چیف جسٹس آف انڈیا سے کہا کہ ان کی اَن کہی باتوں پر بھی غور کیا جائے اور ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹیو کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ صدر جمہوریہ کی تقریر کا ہی اثر تھا کہ 29 نومبر کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس ایس کے کول نے حکومتوں سے جیلوں میں ضمانت ملنے کے بعد بھی بند قیدیوں کی تفصیلات طلب کیں۔ ریاستی حکومتوں کو 15 دنوں کے اندر تفصیلات بھیجنی ہوں گی اور اس کے بعد ساری تفصیلات نیشنل لیگل سروس اتھارٹی کو بھیجی جائیں گی۔ دیکھنا ہو گا کہ جسٹس ایس کے کول کی اس ہدایت کا کیا اثر ہوتا ہے۔ 2016 میں بھی سپریم کورٹ نے جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت دی تھی۔ 2018 میں سپریم کورٹ کے سابق جسٹس امیتاوا رائے کی سربراہی میں جیل اصلاحات پر ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ اس کمیٹی کو 12 مہینے میں رپورٹ پیش کرنی تھی مگر 2019 سے لگاتار توسیع کی جا رہی ہے۔ اس سال مارچ میں اگلے 6 مہینوں کے لیے آخری مرتبہ توسیع دی گئی ۔اس کمیٹی کی رپورٹ کب آئے گی اور اس کی سفارشات پر عمل کیا جائے گا کسی کو نہیں معلوم، کیوں کہ عدالتیں متعدد مرتبہ مرکزی وزارت داخلہ سے جیلوں میں بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے کی سفارش کر چکی ہیں مگر اب تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ ملک بھر میں 1,378 جیلیں ہیں جن میں 4,25.6,09 قیدیوں کی گنجائش ہے مگر 6,05,600 افراد قید میں ہیں۔ 2020 میں عالمی وبا کی وجہ سے قیدیوں کی تعداد میں کمی کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے تھے مگر محض دو سال بعد ایک بار پھر قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ دہلی اور اتر پردیش کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں 200 فیصد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں 2019 میں مرکزی حکومت نے ہندوستان بھر میں 199 نئی جیلیں تعمیر کرنے کے لیے 1,800 کروڑ روپے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ منصوبہ موجودہ جیلوں میں بھیڑ کم کرنے کے کوئی واضح منصوبے کے بغیر بنایا گیا ہے۔ اسی لیے صدر جمہوریہ سوال پوچھ رہی ہیں کہ اگر ملک میں امن و امان اور لا اینڈ آرڈر کے حالات بہتر ہوئے ہیں اور ملک ترقی کی طرف گامزن ہو رہا ہے تو پھر جیلوں کی تعداد میں اضافے کے منصوبے کیوں بنائے جارہے ہیں، ملک میں نئے جیلوں کی تعمیر کی ضرورت کیوں محسوس کی جارہی ہے۔ کیا ملک کی ترقی کا تعلق جیلوں سے بھی ہے، کیا ترقی یافتہ ممالک میں بھی جیلوں کی تعداد زیادہ ہے؟ یہ سوالات علم سیاسیات کا موضوع ہے۔ ادھر صدر جمہوریہ کے خیالات کے برعکس دائیں بازو کے لیڈر جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو اپنی کامیابی سے جوڑتے ہیں۔ یو اے پی اے کے تحت اندھا دھند گرفتاریوں کو انتخابی مہم میں فخریہ انداز سے بیان کرتے ہیں۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی سالانہ رپورٹ نہ صرف جیلوں میں بند قیدیوں کی کل تعداد بتاتی ہے بلکہ ان کی ذات پات اور مذہبی پس منظر بھی بتاتی ہے۔ اگرچہ یہ رپورٹ حتمی نہیں ہے کیوں کہ کئی ریاستیں ریکارڈ فراہم کرنے میں تاخیر سے کام لیتی ہیں اور حقائق کو بھی چھپاتی ہیں۔ تاہم اندازے اور تخمینے پر مشتمل رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ جیلوں میں بند قیدیوں میں سے 70 فیصد کا تعلق درج فہرست ذاتوں درج فہرست قبائل دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) اور اقلیتوں سے ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ صدر جمہوریہ کی درد مندی اور دل سوزی کا پس منظر دراصل یہی اعداد و شمار ہیں۔ قبائلیوں کے درد سے وہ خود گزری ہیں اس لیے ممبر اسمبلی کی حیثیت سے اور اس کے بعد جھارکھنڈ کے گورنر کی حیثیت سے انہوں نے اس پر خصوصی کام کیا ہے، ججوں کو توجہ دلائی اور اب صدر جمہوریہ منتخب ہونے کے بعد بھی قبائلیوں کے درد کو دنیا کے سامنے لارہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر جیلوں میں 70فیصد دلت، قبائلی، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کی اکثریت کیوں ہے؟ کیا جرائم کی شرح ملک کے اعلیٰ طبقات کے مقابلے میں ان طبقات میں زیادہ ہے یا پھر پولیس، انتظامیہ اور ایجنسیوں کے لیے یہ طبقات آسان چارہ ہیں کہ جب چاہے جس کو چاہے بآسانی قید کر دیا جائے؟ قانونی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ملک کا عدالتی نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ جہاں انصاف کا حصول غربت اور پسماندہ طبقات کے لیے نہایت ہی مشکل ہے۔ خود صدر جمہوریہ کہتی ہیں کہ خاندان کے لوگ اپنوں کو جیلوں میں اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ کہیں مقدمات لڑنے کی وجہ سے جو کچھ زمین و جائیداد بچ گئی ہے وہ بھی نہ ختم ہو جائے۔ کمزور طبقات کے پاس قانونی جارہ جوئی کے لیے وسائل کی قلت کی وجہ سے وہ لوگ مقدمات نہیں لڑ پاتے ہیں اور سالہا سال تک جیلوں میں قید رہتے ہیں۔ تاہم ان طبقات کے جیلوں میں بند رہنے کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے، بالخصوص مسلمانوں کے برسہا برس تک جیلوں میں قید رہنے کے دیگر وجوہات بھی ہیں۔
پریزن اسٹیٹیسٹیکس انڈیا (PSI) کے عنوان سے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ جو گزشتہ سال 27 دسمبر 2021 کو جاری ہوئی تھی، اس کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 14.5 فیصد کے قریب ہے مگر جیلوں میں مسلمان 19.4 فیصد کے قریب بند ہیں۔ یعنی آبادی کے اعتبار سے 4 فیصد زائد ہیں۔ سب سے زیادہ آسام میں مسلمان جیلوں میں بند ہیں اس کے بعد مغربی بنگال کا نمبر آتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جیلوں میں 20.7 فیصد درج فہرست ذات کے قیدی ہیں اور 11.2 فیصد کا تعلق شیڈول کاسٹ قبائل سے ہے۔ جب کہ آبادی میں ان طبقوں کا حصہ بالترتیب 16.1 فیصد اور 8.2 فیصد ہے۔
نیشنل کرائم رپورٹ بیورو کی رپورٹ کے مطابق آسام کی جیلوں میں مسلم مجرموں اور زیر سماعت قیدیوں کی شرح بالترتیب 47 فیصد اور 52.3 فیصد ہے۔ قیدیوں کا فیصد آسام کی جیلوں میں مسلمانوں کی غیر متناسب موجودگی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیوں کہ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 34 فیصد ہے۔ این سی آر بی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی بنگال مسلم مجرموں اور زیر سماعت قیدیوں کے معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 27 فیصد ہے جب کہ قیدیوں کی شرح 43 فیصد ہے۔ ہریانہ میں بغیر مقدمہ کے سو فیصد، جموں و کشمیر میں 96.4 فیصد اور تلنگانہ میں 49.5 فیصد مسلمان جیلوں میں بند ہیں۔
جیلوں میں بند مسلم قیدیوں کے سماجی اور معاشی پس منظر کے متعلق مطالعات اور سروے نہیں کیے گئے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق 2011 میں مہاراشٹر اقلیتی کمیشن کے، جیلوں میں بند مسلم قیدیوں کے مطالعے کے علاوہ کوئی اور مبسوط مطالعہ نہیں کیا گیا ہے کہ جیلوں میں مختلف جرائم کے تحت بند مسلم قیدیوں کا اقتصادی و سماجی پس منظر کیا ہے؟ آیا وہ جن جرائم کے تحت بند ہیں اس کا انہوں نے واقعی ارتکاب کیا ہے یا نہیں؟ ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنس (TISS) میں سنٹر فار کریمینالوجی اینڈ جسٹس، اسکول آف سوشل ورک کے پروفیسر وجے راگھون نے مہاراشٹر اقلیتی کمیشن کے تعاون اور اپنے دوست روشنی نائر کے ساتھ مل کر مہاراشٹر کے جیلوں میں بند مسلم قیدیوں کا اقتصادی و سماجی پس منظر کا جو مطالعہ کیا ہے وہ بہت ہی اہم ہے۔ رپورٹ چشم کشا ہے۔ یہ رپورٹ جہاں مسلمانوں کے تئیں پولیس افسروں کے تعصب اور نفرت ظاہر کرتی ہے وہیں مسلم سماج اور بالخصوص مسلمانوں میں اصلاحات کی کوششیں کرنے والوں کی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ اس مطالعے کے مطابق 2011 تک مہاراشٹر کے جیلوں میں بند مسلم قیدیوں کی ایک بڑی تعداد قتل، اقدام قتل اور اس طرح جرائم کے تحت گرفتار ہوئی ہے جب کہ دوسرے نمبر پر جائیدادوں کے تنازعات کی وجہ سے جیلوں میں بند ہیں۔ مکوکا اور دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند مسلم قیدیوں کی تعداد 4 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ مسلم سماج میں معاشرتی برائیاں کافی حد تک پیوست ہو چکی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرانے کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ روزگار کے مواقع کی کمی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے کچھ طاقتیں مسلم نوجوانوں کا غلط استعمال بھی کرتی ہیں۔عام طور پر مسلمان ایسے کاروبار سے وابستہ ہوتے ہیں جو قانون کی نظر میں جرم نہیں ہوتے مگر اس کاروبار کی آڑ میں جرم کرنے کا امکان ہوتا ہے اور پولیس اس کا راست فائدہ اٹھا لیتی ہے۔ کچرے (بنگھار) کے کاروبار میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ اس کاروبار سے وابستہ افراد کو پولیس عموماً چوری کا سامان خریدنے کے الزام میں گرفتار کر لیتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق مسلم قیدیوں میں 65.5 فیصد 18 سال سے 30 سال کی عمر کے ہیں۔ 26.3 فیصد مسلم قیدی 31 سے 40 سال کے درمیان ہیں۔ یہ اعداد وشمار بہت ہی حیران کن ہیں۔ یہ رپورٹ مسلم نوجوانوں میں جرائم کے رجحان کا انکشاف کرتی ہے۔ مسلم تنظیموں اور اصلاحات کے لیے کوشش کرنے والوں کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ اصلاح معاشرہ کی کوششیں نچلی سطح تک نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔
مسلمانوں کے تئیں پولیس انتظامیہ کا تعصب اور پولیس ڈپارٹمنٹ میں مسلمانوں کی برائے نام نمائندگی
پروفیسر وجے راگھون اور روشنی نائر کی رپورٹ کے مطابق جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ پولیس انتظامیہ کی مسلمانوں کے تئیں سوچ اور نظریہ بھی ہے۔ سنٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (CSDS) اور سول سوسائٹی گروپ کامن کاز کی مشترکہ رپورٹ STATUS OF POLICING IN 2019 INDIA REPORT 2019 بتاتی ہے کہ پولیس انتظامیہ مجموعی طور پر مسلمانوں کے متعلق کیا سوچ اور نظریہ رکھتی ہے۔رپورٹ کے مطابق پولیس انتظامیہ کا مجموعی خیال ہے کہ مجرموں کی اکثریت کا تعلق مسلم طبقے سے ہوتا ہے۔ اتر پردیش کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس آر داراپوری اس رپورٹ کے تناظر میں کہتے ہیں کہ جب کوئی جرم سرزد ہوتا ہے تو پولیس والے معمول کے مطابق ایسے ہی جرائم میں ملوث افراد کو پکڑ لیتے ہیں۔کچھ ریاستی حکومتیں بھی جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں جیسا کہ اتر پردیش میں اس وقت ہو رہا ہے۔ پہلے گجرات اور مہاراشٹر میں یہ بات تھی اور اب مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کو جان بوجھ کر پولیس کے ذریعہ نشانہ بنانے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر دو میں سے ایک پولیس اہلکار کو لگتا ہے کہ مسلمان فطری طور پر مجرم ہیں۔ 14 فیصد پولیس اہلکاروں کا خیال ہے کہ مسلمان فطرتاً مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہیں جب کہ 36 فیصد پولیس اہلکاروں کا خیال ہے کہ مسلمان جزوی طور پر مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہیں۔این سی آر بی کے 2012 کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی پولیس کے صرف 6.7 فیصد اہلکار مسلمان ہیں۔کامن کاز کی ریسرچر رادھیکا جھا کہتی ہیں کہ 2013 کے بعد این سی آر بی نے پولیس میں مسلمانوں کی نمائندگی سے متعلق رپورٹ شائع کرنا بند کر دیا ہے۔ صرف بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (بی پی آر ڈی) انسانی وسائل سے متعلق ڈیٹا شائع کر رہی ہے۔ تاہم بی پی آر ڈی فارمیٹ میں پولیس فورسیس کے اندر مسلمانوں کی نمائندگی سے متعلق کوئی ڈیٹا شائع نہیں کرتی ہے۔ پولیس میں مسلمانوں کی نمائندگی سے متعلق این سی آر بی 2011-2013 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تین سال کی مدت میں صرف تین ریاستوں میں ہی مسلمانوں کی آبادی کے مطابق پولیس میں نمائندگی ہے۔ یہ تین ریاستیں آندھرا پردیش، منی پور اور جزائر انڈمان و نکوبار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 14.2 فیصد کی آبادی والے ملک میں مسلمانوں کی نمائندگی پولیس فورسیس میں محض 4.6 فیصد ہے۔ یہ اعدادو شمار 2013 سے قبل کے ہیں اس کے بعد سے مذہبی و سماجی پس منظر سے پولیس کا سروے کرنے کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔ پروفیسر وجے راگھون اور روشنی نائر کے سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ’’جیلوں میں بند قیدیوں کی بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ وہ پولیس کی تعصبانہ ذہنیت کا شکار ہوئے ہیں۔ جب بھی کوئی مجرمانہ واقعہ ہوتا ہے پولیس بغیر کسی ثبوت کے محض ماضی کے کسی جرم کو بنیاد بنا کر انہیں گرفتار کر لیتی ہے خواہ وہ اس کا ارتکاب کیے ہوں یا نہ کیے ہوں۔ اگرچہ رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ دہشت گردی کے الزامات میں بند مسلمانوں کی شرح کم ہے البتہ قتل، چوری، ڈکیتی اور دیگر جرائم کے تحت گرفتار ہونے والے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے مگر STATUS OF POLICING IN INDIA REPORT 2019 کے مطابق نہ صرف دہشت گردی بلکہ دیگر جرائم میں بھی مسلمانوں کو پولیس اندھا دھند گرفتار کرتی ہے۔ چوں کہ نفرت انگیز مہمات کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کے اذہان مسموم ہو چکے ہیں لہذا جب بھی کوئی مجرمانہ واقعہ ہوتا ہے تو پولیس کی جانچ پہلے سے طے شدہ نہج پر آگے بڑھنے لگتی ہے۔ کیس کو جلد سے جلد حل کرنے کے دباؤ کی وجہ سے مشکوک مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کر کے پولیس اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کر دیتی ہے۔ جب کہ ماضی میں ہونے والے سمجھوتہ ایکسپریس، اجمیر، مکہ مسجد اور مالیگاؤں دھماکوں کے پیچھے کون لوگ تھے ان کے نام آج تک سامنے نہیں آ سکے۔ پولیس میں مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی اور پولیس اہلکاروں کی کرونالوجی کے تناظر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پولیس کس نظریہ سے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو دیکھتی ہے۔
یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کو بنیاد بنا کر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں آتی ہے اور اس کے بعد کئی سالوں کے قید و بند اور عدالتوں کے چکر کاٹنے کے بعد ملک کی عدالتیں یہ کہتے ہوئے انہیں بری قرار دیتی ہیں کہ ان کے خلاف پولیس کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کر سکی۔ اس کی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ زندگی برباد ہونے کے بعد بے قصور ہونے کا تمغہ دیا جاتا ہے۔ عمرِ عزیز کے جو قیمتی ایام جیلوں کی نذر ہوگئے اس کی کسی کو پروا نہیں ہوتی ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں سورت کی عدالت نے 19 سال بعد 122 افراد کو یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کے متعلق تفتیشی ایجنسیاں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے الزامات کو ثابت نہیں کر سکیں۔ ان تمام لوگوں کو 2001 میں سیمی سے تعلق رکھنے، غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور دہشت گردی کی سازش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ دیگر پانچ افراد حراست کے دوران ہی فوت ہو گئے تھے۔ اسی طرح اکشر دھام مندر پر حملے کے معاملے میں گرفتار شدہ 6 ملزموں کو عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ پولیس نے اصل مجرموں کو گرفتار کرنے کے بجائے چند بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس طرح کی کہانیاں بے شمار ہیں۔
یو اے پی اے قانون کا غلط استعمال۔
یو اے پی اے قانون کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ اسے مرتبہ1967 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ متعدد مرتبہ اس میں ترمیمات بھی کی گئیں، بالخصوص 2008 میں کانگریس کی حکومت نے اس قانون کو متاثر کن بنانے کے لیے کئی اہم حذف و اضافے کیے تھے۔ اگرچہ اس وقت بھی اس پر سخت تنقید کی گئی تھی مگر اس وقت تک اس قانون کے دائرہ کار کو محدود رکھا گیا تھا۔ 2019 میں دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد مودی اور شاہ کی جوڑی نے اس قانون میں کئی تبدیلیاں کر کے اس کو پہلے سے کہیں زیادہ سخت کر دیا۔ نئی ترمیمات کے تحت یو اے پی اے ایکٹ کے تحت پولیس انتظامیہ کو مکمل اختیار دے دیا گیا کہ وہ کسی بھی شخص کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر سکتی ہے۔ نیز پولیس کو اس ایکٹ کے تحت بغیر کسی ثبوت کے حراست میں لینے کا بھی اختیار حاصل ہے اور اس ایکٹ کے تحت قید ہونے والوں کی ضمانت کے متعلق بھی سخت قوانین ہیں۔اس لیے ایک مرتبہ یو اے پی اے قانون کے تحت گرفتاری ہونے کے بعد رہائی کی راہیں بہت حد تک مسدود ہو جاتی ہیں۔ سالہا سال قید کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 اور 2020 کے درمیان یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار شدہ افراد میں سے محض تین فیصد سے بھی کم کو سزا ہو سکی ہے۔
پیپلز یونین آف سول لبرٹیز نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ بھارت میں یو اے پی اے کے تحت 8,371 افراد کی گرفتاریاں ہوئیں مگر گزشتہ پانچ سالوں میں 235 افراد کو ہی عدالت کے تحت سزا ہوئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار شدہ افراد کے بری ہونے کی شرح 97.2 فیصد ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2019 میں یو اے پی اے قانون میں ترمیم کے بعد 4,690 افراد کی گرفتاریاں ہوئیں مگر ان میں سے صرف تین فیصد کو مجرم پایا گیا ہے۔
یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار ہونے والوں کے سماجی، مذہبی اور اقتصادی پس منظر پر اب تک کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم این آر سی کے خلاف مہم، دہلی فرقہ وارانہ فسادات، کورونا وبا کی خلاف ورزی، تریپورہ فسادات اور یو پی، ایم پی اور بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں جس طریقے سے یو اے پی اے کے تحت مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں وہ یہ بتاتی ہیں کہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار ہونے والوں میں اکثریت کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ دو مہینے قبل پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی کے بعد این آئی اے نے ملک بھر اس سے تعلق رکھنے کے الزام میں کئی اندھا دھند گرفتاریاں کیں۔یہ ساری گرفتاریاں صرف شک کی بنیاد پر کی گئیں اور سبھوں کے خلاف ملک سے غداری اور یو اے پی اے ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ فروری 2020 میں مشرقی دہلی کے کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے، تین دنوں تک حالات بے قابو رہے ۔فسادات کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا اور کئی بڑے مشہور چہرے جنہوں نے این آر سی کے خلاف مہم کی قیادت کی تھی کو دہلی فسادات کے لیے سازش کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا ۔دہلی فسادات میں مرنے والوں میں اکثریت بھی مسلمانوں کی تھی اور املاک بھی مسلمانوں کے جلائے گئے اور المیہ یہ ہے کہ گرفتاریاں بھی مسلم نوجوانوں کی ہی ہوئیں۔ انگریزی ویب سائٹ دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی فسادات کے معاملے میں گرفتار شدہ 50 افراد کے خلاف یو اے پی اے لگایا گیا ۔ان میں 26 مسلمان، 21 سکھ، ایک درج فہرست قبائلی اور دو ہندو شامل تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس قانون کا زیادہ استعمال کس کے خلاف ہو رہا ہے۔
اس کالے قانون کا ایک بھیانک رخ یہ بھی ہے کہ اس کے تحت گرفتار ہونے والوں میں سے اکثریت کی عمر 30 سال سے بھی کم ہے۔ لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں وزارت داخلہ نے بتایا کہ گزشتہ تین سالوں میں یو اے پی اے کے تحت ملک بھر میں 4,690 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے 2,501 کی عمر 32 سال یا اس سے بھی کم ہے، یعنی 53 فیصد کی عمر 30 سال یا اس سے کم ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں یو پی میں سب سے زیادہ گرفتاریاں ہوئیں جن کی تعداد 1,833 ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں سے 931 یا 69.5 فیصد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ اتر پردیش کے بعد منی پور اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 943 گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ گرفتار ہونے والوں کی کل تعداد میں سے 499 کی عمریں 30 سال سے کم تھیں۔ جموں و کشمیر میں 2018 اور 2020 کے درمیان 750 افراد کو یو اے پی اے تحت گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے 366 افراد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنے سالانہ رپورٹ میں یو اے پی اے قانون کی سخت تنقید کرتے ہوئے بتایا کہ اس قانون کے تحت پولیس اور جانچ ایجنسیوں کو بے تحاشا اختیارات دیے گئے ہیں اس لیے بیشتر معالات میں گرفتاریاں ان نوجوانوں کی ہوتی ہیں جن کا اس جرم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہیومن رائٹس واچ نے حکومت ہند سے قانون کو فوری منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حقوق انسانی کی دیگر تنظیموں اور سول سوسائٹی کے ساتھ عدالتوں نے بھی اپنے متعدد فیصلوں میں یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ قانون سیاسی ٹولز کے طور پر اور مخالفین کی آواز خاموش کرنے اور انہیں خوف زدہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ فروری اور مارچ 2021 میں تین بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹ نے بھارت کو چراغ پا کر دیا تھا۔ ان تینوں کی رپورٹ میں یہ بات مشترک تھی کہ ’’بھارت میں جمہوریت پسپائی اختیار کر رہی ہے۔ شہری آزادی محدود ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
ان تینوں میں سویڈن میں قائم ورائٹیز آف ڈیموکریسی (V-Dem) انسٹی ٹیوٹ، امریکہ میں قائم غیر منافع بخش تنظیم فریڈم ہاؤس اور انٹلیجنس یونٹ اکنامسٹ میگزین شامل ہیں۔ V-Dem انسٹی ٹیوٹ کے مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ’’بھارت منتخب کردہ ڈکٹیٹرشپ‘‘ میں تبدیل ہو رہا ہے جب کہ فریڈم ہاؤس نے کہا تھا کہ بھارت ’’آزاد جمہوریت‘‘ سے ’’جزوی آزاد جمہوریت‘‘ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ دی اکانومسٹ انٹلیجنس یونٹ کے ذریعہ شائع کردہ ڈیموکریسی انڈیکس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بھارت جمہوریت کی غلط راہ پر گامزن ہو گیا ہے۔ ان تینوں رپورٹوں میں نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے کردار پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ان تینوں مطالعات میں نشان دہی کی گئی ہے کہ مودی حکومت نے حقوق انسانی کی تنظیموں اور کارکنون پر بڑے پیمانے پر حملے کیے ہیں، صحافیوں اور حقوق انسانی کے کارکنوں کو ڈرانے اور دھمکانے کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں اور اقلیتیوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اندھا دھند کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
وکلاء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ قانون ٹاڈا اور پوٹا جیسے قانون سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اول الذکر دونوں قوانین متعینہ مدت کے لیے نافذ کیے گئے تھے۔اس کے بعد حکومت ان کی ضرورت پر غور کرتی تھی پھر اس میں تبدیلی کے امکانات پر غور کیا جاتا تھا مگر یو اے پی اے قانون کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ نیز اس قانون کے تحت پولیس کو بے پناہ اختیارات دے کر ضمانت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ اگر ملزم کسی معاملے میں بری ہوجائے تو اسے دوبارہ یو اے پی اے کے تحت گرفتار کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی یا ملک مخالف سرگرمیوں کی بھی کوئی واضح تعریف بھی نہیں کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ جمہوریت پسپائی اختیار کرتی جا رہی ہے اور جمہوری ادارے کمزور ہوتے جارہے ہیں، کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ملک کو یو اے پی اے جیسے کالے قانون سے چھٹکارا مل پائے گا؟ سابق چیف جسٹس ایس وی رمنا اور موجودہ چیف جسٹس چندر چوڑ نے اپنی تقریروں میں قیدیوں کو ضمانت ملنے میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قانونی بندشیں ختم کرنے کی بات کہی تھی۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے جج ہونے کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری ہے کہ ایسے کالے قوانین جو شہری آزادی اور اظہار خیال کی آزادی پر قدغن لگاتے ہوں ان پر نظرثانی کی درخواستوں کو انسانی ہمدردی کے تحت سماعت کرکے جلد از جلد حل کریں۔ ایک طرف یو اے پی اے ایکٹ کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے تو دوسری طرف سزا کی شرح محض تین فیصد ہے۔ کیا ایسی صورت میں جانچ ایجنسیوں اور پولیس انتظامیہ کی جواب دہی نہیں ہونی چاہیے کہ انہوں نے بے قصور افراد کو کیوں گرفتار کیا؟ 30 سال کی عمر کے نوجوان کسی بھی ملک کے لیے اثاثہ ہوتے ہیں لیکن یہاں نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر ان کی زندگی کے قیمتی سال چھینے جارہے ہیں۔
پولرائزیشن کے اس ماحول میں جہاں ہر ایک معاملے کو ہندو-مسلمان کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، ایسے میں صدر جمہوریہ اور چیف جسٹس آف انڈیا سے ہی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس سنگین صورت حال پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔
***

 

***

 مختلف ریاستوں کی جیلوں میں سزا یافتہ قیدی
آسام : 2770سزا یافتہ مجرموں میں سے 47فیصد1313قیدی مسلمان ہیں ۔
مغربی بنگال : 5367سزا یافتہ قیدیوں میںسے 33 فیصد 1794 مسلمان ہیں۔
کیرالا : کل 2426 مجرموں میں سے 32فیصد 792 مسلمان ہیں۔
ہریانہ : کل 3338 میں سے16فیصد 558مجرم جیل میں مسلمان ہیں۔
تمل ناڈو: کل 4161 میں سے 13فیصد 559 مجرم جیل میں مسلمان ہیں۔
اتر پردیش : کل 26734 میں سے 20فیصد 5411 مجرم جیل میں مسلمان ہیں۔
گجرات : کل 3853 میں سے19.5فیصد755مجرم جیل میں مسلمان ہیں۔
تلنگانہ : 1910میں سے 23.5فیصد450 مجرم جیل میں مسلمان ہیں۔
دہلی :1470میں سے 21 فیصد 316 مجرم جیل میں مسلمان ہیں۔
زیر سماعت قیدی
آسام: 6495 میں سے 52.3فیصد3403 مسلمان ہیں۔
گجرات: 10195 میں سے18.2فیصد1860مسلمان ہیں۔
ہریانہ :14951 میں سے 14 فیصد 2096 مسلمان ہیں۔
جھارکھنڈ :17103میں سے 19فیصد 3267مسلمان ہیں۔
کرناٹک :10577میں سے23.42482 مسلمان ہیں۔
کیرالا :3569میں سے27.5فیصد984مسلمان ہیں۔
راجستھان :16930میں سے18.6فیصد (3161) مسلمان ہیں۔
تلنگانہ : 3946میں سے 26فیصد1041 مسلمان ہیں۔
تریپورہ :472 میں سے21.6فیصد103 مسلمان ہیں۔
اتر پردیش : 80557 میں سے28.3فیصد 22849 مسلمان ہیں۔
مغربی بنگال :20144یں سے43.5فیصد8774 مسلمان ہیں۔
دلی :14506 میں سے 26.8فیصد3902 مسلمان ہیں۔
مقدمہ چلائے بغیر جیلوں میں قید مسلمانوں کی شرح
گجرات :1169میں سے35.7فیصد 418 نظربند مسلمان ہیں۔
ہریانہ :20میں سے 100 (20) قیدی مسلمان ہیں۔
کرناٹک :42 میں سے 38 فیصد (16) قیدی مسلمان ہیں۔
کیرالا :46 میں سے41.3فیصد (19) نظربند مسلمان ہیں۔
مدھیہ پردیش :79میں سے 24 فیصد (19) قیدی مسلمان ہیں۔
تمل ناڈو :1430 میں سے 14.7فیصد (211) قیدی مسلمان ہیں۔
تلنگانہ :258میں سے42.6 فیصد(110) نظربند مسلمان ہیں۔
اتر پردیش :101میں سے 49.5فیصد (50) قیدی مسلمان ہیں۔
جموں و کشمیر :228 میں سے96.4فیصد (220) نظربند مسلمان ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 ڈسمبر تا 17 ڈسمبر 2022