’’یہ ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے‘‘: انجمن اوقاف نے جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے سرینگر جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کی اجازت نہ دینے پر غم و غصے کا اظہار کیا
سرینگر، ستمبر 11: سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعہ کے دن اجتماعی نماز کی اجازت سے ایک بار پھر انکار کیا گیا۔
کسی کو بھی مسجد میں داخل ہونے اور نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مسجد میں نماز پر پابندی عائد کی گئی ہو۔
انجمن اوقاف جامع مسجد سرینگر نے کہا کہ 6 اگست 2021 سے حکام تاریخی مسجد اور درگاہ حضرت بل، خانقاہ مولا، سلطان العارفین حضرت مخدوم صاحب، آستانہ عالیہ خانیار اور آستانہ عالیہ نقشبند صاحب سمیت دیگر اہم مقامات پر نماز جمعہ کی اجازت نہیں دے رہے۔
انجمن اوقاف نے کہا ’’اس سے عوامی غم و غصہ میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح کے آمرانہ اقدامات نے لوگوں کے مذہبی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے جنھیں اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روک دیا گیا ہے۔‘‘
انجمن نے کہا کہ ایک طرف تو حکام COVID-19 کی آڑ میں مذہبی مقامات کو بند کرنے کا حکم دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ عوامی مقامات، پارکس، بازاروں اور تعلیمی اداروں کو کھولنے کی اجازت دیتے ہیں۔ انجمن نے کہا ’’اس طرح کی پالیسیاں دوہرے معیار اور حکومت کے ناپاک عزائم کو ظاہر کرتی ہیں۔‘‘
معلوم ہو کہ حکام نے سخت سیکورٹی کے درمیان گزشتہ ماہ جنم اشٹمی جلوس کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر میں تمام سرکاری کاموں، کھیلوں کی سرگرمیوں، شادی کی تقریبات اور دیگر اجتماعات کی اجازت ہے۔
انجمن نے کہا ’’جمعہ کی نماز کے لیے آنے والے نمازی کووڈ 19 سے متعلق رہنما ہدایات کا مکمل خیال رکھتے ہیں۔ لوگوں کو ان کے مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روکنا مذہب میں واضح مداخلت ہے جو انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔‘‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جامع مسجد کو نماز کے لیے بند کیا گیا ہو۔ 5 اگست 2019 کے بعد مسجد کو مسلسل 17 ہفتوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ 2016 کی بدامنی کے دوران پرانے سرینگر شہر کے نوہٹہ علاقے کی تاریخی جامع مسجد میں 16 ہفتوں تک جمعہ کی نماز نہیں ہو سکی تھی۔
میر واعظ عمر فاروق، جو کشمیر کے چیف مولوی اور اعتدال پسند حریت کانفرنس کے چیئرمین ہیں، 5 اگست 2019 سے گھر میں نظر بند ہیں۔