اسلام کے بنیادی تصورات پرایک نظر

وحدت الہ، وحدت انسانیت، تکریم انسانیت اور مقصد وجود: دعوتِ دین کے چار اساسی نکات

ڈاکٹر ساجد عباسی

امت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بھاری ذمہ داری ڈالی گئی ہے، یہ ذمہ داری ہے شہادت علی الناس ،دعوت الی اللہ اور امربالعروف ونہی عن المنکر کی ۔ یہی امت مسلمہ کے وجود کا مقصد ہے۔اسی مقصدِ وجود کو فراموش کرنے سے امت آج مختلف مسائل کا شکا ر ہے۔امّ المسائل کی وجہ اسی مقصدِ وجود سے غفلت ہے ۔
سوال یہ ہے کہ غیرمسلموں کے سامنے اسلام کو کس طرح سے پیش کیا جائے؟ میڈیا کی طرف سے اسلام کو بدنام کرنے کی مہم عرصہ دراز سے جاری ہے جس کے نتیجے میں غیر مسلموں کے سامنے یہ سوال ہمیشہ رہتا ہے کہ آخر اسلام کی وہ کون سی تعلیمات ہیں جو انسانیت کے لیے نافع ہو سکتی ہیں جبکہ خود مسلم ممالک میں سیاسی عدم استحکام ہے ۔وہاں شورشیں برپا ہیں اور انتہا پسندی سے بات آگے بڑھ کر دہشت گردی تک پہنچ گئی ہے، جمہوریت کا فقدان ہے، جبر و اکراہ کا نظام برپا ہے، کئی ممالک طویل جنگوں کی لپیٹ میں ہیں اور تباہی کا مناظر پیش کررہی ہیں۔مسلمان خود جب اتنے پریشان حال ہیں تو ان کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کیا ہوسکتا ہے؟یہ سوالات ایک عام غیر مسلم کے ذہن میں پائے جاتے ہیں ۔چونکہ آج کتابیں پڑھنے کا رحجان نہیں ہے اور اکثریت سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اپنی رائے قائم کرتی ہےاس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ فرداً فرداً غیرمسلموں سے رابطے پیداکرکے ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں۔
1۔ وحدتِ الہ کا تصور: ساری کائنات کی ایک ایک چیز پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی خالق ہے جو زبردست قوت والا اور مدبر و منتظم ہے۔ جو شے بھی ہم دنیا میں دیکھتے ہیں اس کی ایک ابتدا ہوتی ہے اور اس کا سبب(cause) بھی ہوتا ہے۔ کوئی بھی چیز بنانے سے بنتی ہے اور خود بخود نہیں بنتی ۔نقطہ آغاز اور سبب لازم و ملزوم ہیں۔ہمارے مشاہدے میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جو بغیر بنانے والے کے پیدا ہو گئی ہو، جس کی بھی ابتداء ہوتی ہے اس کا سبب ضروری ہے۔چونکہ اس کائنات کی ابتداء ہوئی ہے اس لیے اس کا سبب لازمی ہے اور وہ سبب ہے خالقِ کائنات کا انسان کو تخلیق کرنے کا ارادہ۔ اسی کو علم الکلام cosmological argument کہا جاتا ہے جس کو امام غزالیؒ نے خداکے وجود کو ثابت کرنے کے لیے گیارہویں صدی عیسوی میں پیش کیا تھا۔اس اصول بحث کو ہر زمانے میں ملحدین کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
کیا اس کائنات کی ابتداء ہوئی ہے یا یہ ہمیشہ سے ہے؟ سائنس داں اس حقیقت پر متفق ہیں کہ اس کائنات کی ایک ابتدا ہے۔ اس لیے کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے۔ اگر وقت کا منفی سفر کریں تو کائنات کسی وقت (15بلین سال قبل ) ایک ایسا نقطہ تھا جس کا حجم صفر تھا لیکن اس کی کثافت لامحدود تھی۔ یہ جدید سائنس دانوں کے مشاہدات کی روشنی میں کائنات کے بارے میں متفقہ رائے ہے۔ جب اس کائنات کی ابتداء ہے تو اس کا مطلب ہے اس کی تخلیق کا سبب بھی ہونا چاہیے یعنی اس کا خالق ہونا لازمی ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ بار بار قرآن میں پیش کرتا ہے کہ اسی نے اس کائنات کی تخلیق کی ابتدا کی۔ قُلْ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ قُلِ اللهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ۔ اِن سے پوچھو، تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اس کا اعادہ بھی کرے؟۔۔۔۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے اور اس کا اعادہ بھی، پھر تم یہ کس الٹی راہ پر چلائے جا رہے ہو ؟(سورۃ یونس 34)
جو تخلیق کی ابتدا کرنے والا ہوگا وہ بے انتہا قوت والا اور نہایت ہی مدبر ہوگا۔جب انسان کے اندر اچھی صفات موجود ہوں تو خالق اس سے عظیم تر درجے میں صفات ِ عالیہ کا حامل ہوگا۔خالق کو مخلوق کی دنیائے زماں و مکاں سے ماوراء ہونا ہوگا۔وہ مافوق الطبیعات (transcendental) ہوگا یعنی جن طبعی قوانین کے ساتھ کائنات کی اس نے تخلیق کی ہے وہ ان قوانین کا پابند نہیں ہوگا۔ اگر وہ بھی ان قوانین کا پابند ہوگا تو اس کامطلب ہے وہ بھی اس کائنات کا حصہ ہے۔ اللہ تو اس کائنات کے ماورا ہستی ہے۔
اب اگلا سوال یہ ہے کہ کیا اس کائنات کا ایک خدا ہے یا کئی خداہیں۔ اگر اس کائنات کے دو خدا ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں میں بڑا کون ہے۔ جو چھوٹا ہوگا وہ بڑے پر منحصر ہوگا۔ اور جو دوسرے کا محتاج ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا ۔اگر دونوں یکساں قدرت رکھنے والے ہوں اور وہ ایک دوسرے پر منحصر نہ ہوں تو اس کائنات میں کشمکش برپا ہوتی اور اس کائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا ۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک ٹرک کے ڈرئیور کی سیٹ پر ایک کے بجائے دو ڈرائیور ہوں اور ایک اسٹیرنگ ہواور دونوں آزاد ہوں کہ وہ کسی بھی رخ میں اسٹیرنگ کو گھما سکتے ہوں تو کیا ہوگا؟ لازماً ٹرک حادثہ کا شکار ہوگی۔چونکہ یہ کائنات کئی بلین سالوں سے منظم طور پر چندمعین طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہے اس لیے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی خالق ہے ۔اس خالق کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور اس کا کوئی خالق نہیں ہے وہ زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔اسلام کا سب سے پہلا مقدمہ یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک ہی خالق ،مدبرو منتظم اور رب ہے اس لیے اسی کی بندگی ہونی چاہیے۔ لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ۔ اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو (زمین اور آسمان دونوں کا) نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ رب العرش ان باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔
اللہ خالقِ کائنات کا اسمِ ذات ہے ۔اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں جو اس کی صفاتِ عالیہ کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ تمام عیوب سے پاک ہے۔ایسی ہستی جس میں کسی بھی درجہ میں عیب ہوگا وہ خالقِ کائنات نہیں ہوسکتی ۔وہ ان تمام کمزوریوں سے پاک ہےجو مخلوقات میں پائی جاتی ہیں ۔وہ ان کمزوریوں سے بھی پاک ہے جو انسان کی محدود عقل کی بنا پرخالق کے بارے میں انسانی تصورات میں پائے جاتے ہیں ۔ انسانی عقل اس کی عظمت کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اس کی ذات و صفات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔وہ اس بات کا محتاج ہی نہیں ہے کہ اس کا کوئی شریک ہو۔
توحیدِ خالص کو قرآن میں اس طرح پیش کیا گیا ہے: ’’کہو، وہ اللہ ہے یَکتا۔ اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے‘‘۔(سورہ اخلاص)
اس چھوٹی سے سورت میں توحید کو جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے ۔اس جیسا کوئی نہیں ۔وہ کسی پر منحصر نہیں ہے اور سب اس کے محتاج ہیں۔وہ پیدانہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کو اولاد کی حاجت ہے۔
اس سورت کی روشنی میں صرف اللہ ہی خالقِ کائنات ہوسکتا ہے اوراسی کو معبود حقیقی ہونا چاہیے۔دنیا میں کوئی بھی ہستی اس معیار پر کبھی پوری نہیں اتر سکتی۔اس لیے وہی ایک ہستی خالق ہے اور اس کے سوا ہر شے اس کی مخلوق ہے۔
ایک اللہ کی بندگی انسان کو تمام جھوٹی عبادتوں سے چھٹکارا دلاتا ہے۔قادرِ مطلق کی پناہ میں آکر ایک انسان اطمینانِ قلب محسوس کرتا ہے۔اس پرایمان و توکل اور اس کا خوف ہر لالچ اور خوف سے بندے کے دل کو خالی کردیتا ہے۔اس کی محبت ہر دوسری محبت کے سحر سے اس کو آزاد کر دیتا ہے۔ اخروی زندگی میں ملنے والے انعامات کی تمنا دنیا کی مصیبتوں کو آسان کردیتی ہے۔ایک اللہ کی بندگی انسان کو فرشتوں سے بھی معزز بنادیتی ہے۔غیراللہ کی بندگی انسان کو حیوانات کے سطح سے بھی گرادیتی ہے۔
2۔ وحدتِ انسانیت کا تصور: اسلام کا دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی پیداکی ہوئی تمام مخلوقات میں اشرف مخلوق ہے جس کو عقل وشعور سے نوازا گیا ہے۔ جنس انسان میں جسمانی اور علمی طور پر ارتقائی عمل ہوتا رہا ہے لیکن انسان کی فطرت میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوا ہے۔ انسان کے اندرجو اخلاقی حس اور اس کے اندرجو شرم وحیا کا جذبہ پایا جاتا ہے کسی دوسرے حیوان میں اس کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ انسان کو عقل و شعور،بولنے لکھنے اور علم حاصل کرنے اور اس کو محفوظ کرنے کی جو منفرد صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ کسی دوسرے حیوان میں پائی نہیں جاتیں ۔ یہ مشاہدات ثابت کرتے ہیں کہ انسان دوسرے حیوانات سے ارتقائی عمل(evolution)کے ذریعے پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ وہ مکمل انسان ہی پیدا ہوا ہے۔ اسلام واضح طور پر اس حقیقت کو پیش کرتا ہے کہ جنسِ انسان کے پہلے فرد آدمؑ تھے جنہیں علم کی روشنی دے کر دنیا میں بھیجا گیا ۔ان ہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا گیا ۔اس طرح ایک جوڑے سے ساری انسانیت کا آغاز ہوا ہے۔ قرآن میں وحدتِ انسانیت کو اس طرح پیش کیا ہے: ’’ لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات 13) اس آیت میں نسل پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی ہے۔دنیا میں انسان پیدا ہوتے رہے اور مختلف مقامات کے اثرات سے ان کی مختلف نسلیں وجود میں آتی رہیں جن کے رنگ وروپ ،زبان اور عادات میں فرق واقع ہوتا رہا ہے۔قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ فطری فرق تعارف کے لیے ہے نہ کہ تفاخر کے لیے؟ وحدت الہ اور وحدتِ انسانیت کا اسلام ایسا آفاقی تصور پیش کرتا ہے کہ جس سے نسلی و قومی امتیازات کی بنیاد پر انسانی تاریخ میں جو ناانصافی، فتنہ وفساد اور خونریزی برپا رہی ہے اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔وحدتِ خداوندی اور وحدتِ انسانیت سے ہی پر عدل و انصاف کی بنیادوں پر ایک ہر امن معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔
3۔تکریم انسانیت : اسلام کا تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ جب اللہ رب العالمین ہے تو اس ربوبیت کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ الوہیت اسی کے لیے خالص کرلی جائے ۔جب انسان ساری مخلوق میں اشرف ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کسی دوسری مخلوق کا مشکور نہ ہوبلکہ اس خالق کا مشکور وممنون ہو جس نے تمام مخلوقات کو پیدافرمایا ہے۔سورج سے ہمیں روشنی و حرارت ملتی ہے جس پر زمین کی مخلوقات کی زندگی کا انحصار ہے تو ہمیں سورج کا شکر نہیں بلکہ اس خالق کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے سورج کو پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:’’اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں یہ رات اور دن اور سورج اور چاند۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔‘‘(سورۃ الفصلت ۳۷)۔
اگر گائے دودھ دیتی ہے تو گائے کا شکر ادا کرنے کے بجائے ہمیں اس خالق کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے گائے بنائی ۔گائے تو ایک حیوان ہے اور اگر انسان اس کی بندگی کرے اور اس کا شکر ادا کرے گا تو خود گائے اس شعور سے خالی ہے کہ اس کی بندگی کی جا رہی ہے۔ یہ انسانی عقل کی توہین ہے کہ انسان اس طرح کی گھٹیا سوچ رکھے اور مخلوق پرستی کی ذلت میں گرفتار ہوجائے۔کوئی خالق کو چھوڑ کر مخلوق پرستی اختیارکرتا ہے تو وہ اسفل السافلین کے درجے میں اپنے آپ کو گرا دیتا ہے جو تکریم انسانیت کے خلاف ہے۔ یہ انسان کی تذلیل ہے کہ وہ مخلوق کی پرستش کرے۔
ہمارے خالق نے انسانوں کے فائدہ کے لیے دنیا میں بے شمار مخلوقات کو پیدا کیا ہے ۔ ہمیں اس خالق کا شکر اور اس کی بندگی کرنی چاہیے جس نے ہم انسانوں کو فضیلت دے کر دوسری مخلوقات کو ہمارے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیااور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔(سورۃ الاسراء 70)۔
4۔انسان کا مقصدِ زندگی : دنیا میں ہر شے کسی نہ کسی مقصد کو پورا کررہی ہے۔خود انسان کے جسم کا ایک ایک خلیہ کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ پورا انسان کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور یہ مقصد کون بتلاسکتا ہے؟ دنیا میں کوئی بھی مشین بنائی جاتی ہے تو اس کا بنانے والا ہی اس کے مقصد کو بتلاسکتا ہے۔نہ صرف مقصد بلکہ اس مشین کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی اس کا صانع ہی صحیح طور پر بتلاسکتا ہے۔انسان کو پیداکرنے کا مقصد بھی خالق ہی بتلاسکتا ہے ۔وہ نہ صرف مقصدِ زندگی کو واضح طور پر بتلائے گا بلکہ طریقِ زندگی کو بھی تفصیل سے پیش کرے گا جس سے مقصدِ زندگی کا حصول ہو۔اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے اس نے انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد اپنی عبادت بتلایا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ۔ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔(سورۃ الذاریات 56)۔دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہےکہ : الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ۔ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔سورۃ الملک 2۔ان دونوں آیات کو ملاکر دیکھا جائے تو انسان کا مقصد وضاحت کے ساتھ یہ سامنے آتا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے انسان کو امتحان کے لیے پیدا فرمایا ہے اور امتحان اس بات کا کہ یہ دیکھا جائے کہ انسانوں میں سے کون اللہ کو بغیر دیکھے اس کی نشانیوں کو دیکھ کر اس کو پہچانتا ہے اور اس کو پہچان کر اس کی اطاعت و بندگی اختیار کرتا ہے۔کون اس کے احسانات کا شکر ادا کرتا ہے ،اس سے محبت کرتا ہے اور کون اس پر توکل کرتا ہے۔اس امتحان کا نتیجہ مرنے کے بعد والی اگلی زندگی میں برامد ہوگاجہاں سارے انسانوں کے اعمال کا حساب و کتاب ہوگا۔ کامیاب لوگوں کو جنت میں داخلہ ملے گا جہاں نعمت بھری ابدی زندگی ہوگی ۔ناکام و نامراد لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا: ’’آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کےروز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہےجو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔‘‘
( آل عمران 185)۔
اس امتحان کو آسان بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اور پیغمبر بھیجے جن کے ساتھ کتابوں کو نازل کیا گیاجس طرح ایک طالبِ علم کوامتحان میں کامیابی کے لیے کتابوں اور اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔پہلے پیغمبر پہلے انسان یعنی آدم علیہ السلام تھے اور آخری رسول اور پیغمبر محمدﷺ ہیں جو 1400 سال قبل مبعوث ہوئے جن پر قرآن نازل کیا گیا ۔اس قرآن کے بارے میں فرمایا گیا ہےکہ : لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ (سورۃ یونس 57)
قرآن اخروی کامیابی حاصل کرنے کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس میں انسانی معاشرہ کے مسائل کا حل بھی موجودہے۔محمدرسول اللہ ﷺ کا اسوہ اسی قرآن کی عملی تفسیر ہے ۔یہ اسلام کا چوتھا مقدمہ ہے کہ انسان کو امتحان کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انسان الجھن کا شکا ر ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر خدا ہوتا تو دنیا میں ناانصافی نہ ہوتی ۔دنیا میں جب امتحان لیا جارہا ہے تو اس امتحان کی خاطر فکر و عمل کی آزادی دی جائے گی ۔اس آزادی کاغلط استعمال بھی ہوگا اور زمین میں خونریزی بھی ہوگی۔اس دنیا میں اہل حق بھی ہوں گے اور باطل کے علمبردار بھی۔دونوں میں کشمکش جب ہوگی تو انسانوں کا بھر پور امتحان بھی ہوگا۔

 

***

 قرآن اخروی کامیابی حاصل کرنے کا مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس میں انسانی معاشرہ کے مسائل کا حل بھی موجودہے۔محمدرسول اللہ ﷺ کا اسوہ اسی قرآن کی عملی تفسیر ہے ۔یہ اسلام کا چوتھا مقدمہ ہے کہ انسان کو امتحان کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انسان الجھن کا شکا ر ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر خدا ہوتا تو دنیا میں ناانصافی نہ ہوتی ۔دنیا میں جب امتحان لیا جارہا ہے تو اس امتحان کی خاطر فکر و عمل کی آزادی دی جائے گی ۔اس آزادی کاغلط استعمال بھی ہوگا اور زمین میں خونریزی بھی ہوگی۔اس دنیا میں اہل حق بھی ہوں گے اور باطل کے علمبردار بھی۔دونوں میں کشمکش جب ہوگی تو انسانوں کا بھر پور امتحان بھی ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023