بھارتی مسلمانوں کا تعلیمی ایجنڈا۔چند تجاویز

تعلیمی کلچر عام کرنے کے لیے مساجد اور شادی خانوں کا استعمال کریں

سید تنویر احمد (ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ

سہ لسانی فارمولے کے تحت بچوں کو مادری زبان اور علاقائی زبان ضرور سکھائیں
اجتماعی مقامات میں تعلیمی کلچر
تعلیمی کلچر کو فروغ دینے کے لیے مختلف تعلیمی پروگرام مساجد، اسکولوں اور عام فنکشن ہالوں میں منعقد ہونے چاہئیں۔ ملت کے تعلیمی ادارے محض طلباء کو امتحان کے لیے تیار کرنے کے مراکز بن گئے ہیں۔ اسی طرح فنکشن ہال صرف شادی اور دیگر تقاریب کے انعقاد کے مراکز ہیں۔ مساجد صرف نماز گاہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ان تینوں مقامات میں علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کو جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً سائنسی اور سماجی موضوعات پر لکچر، ویڈیو شو، ڈرامہ، تعلیمی میلے، کیریئر گائیڈنس کے لکچر، کوچنگ سنٹر، اسٹڈی سنٹر، مختلف تعلیمی مقابلے اور کتابوں کی نمائش، کتابوں کے میلے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں ان چیزوں کو مختصراً بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ملت میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والے افراد، تنظیمیں اور جماعتیں اپنی بنیادی سرگرمیوں کے ساتھ تعلیمی کلچر کو بھی فروغ دینے کی کوشش کریں۔ اس مضمون میں ہم آگے بھی چند تجاویز ایجنڈے کے طور پر پیش کریں گے جو ملت اسلامیہ کے اندر تعلیمی کلچر کو فروغ دینے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
مادری زبان کے سلسلے میں سنجیدہ کوششیں
ملت کے تعلیمی ایجنڈے کا ایک نکتہ مادری زبان کو فروغ دینے کا ہونا چاہیے۔ ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کی مادری زبان اردو ہے۔ مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت کو ماہرین تعلیم بہت اہمیت دیتے ہیں۔ زبان اور تعلیم کے سلسلے میں ایک روسی ماہر نفسیات لیو ویگوسکی (Lev Vygotsky) نے بہت کام کیا ہے۔ ویگوسکی کے مطابق ایک فرد تین انداز میں گفتگو کرتا ہے۔ اول: دوسروں کے ساتھ۔ دوم: اپنے آپ سے۔ سوم: اپنے ذہن سے۔
(الف ) انسان جب بولنا شروع کرتا ہے تو وہ اپنے ماحول میں اپنی مادری زبان کے ذریعہ بات چیت کرتا ہے۔ اسی مادری زبان کے ذریعے وہ علم کی تشکیل کرنے کے عمل کا آغاز کرتا ہے۔
(ب) ہر انسان جب وہ کم عمر ہوتا ہے تو اپنے آپ سے گفتگو کرتا ہے۔ بعض افراد کے اندر یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ مثلاً اگر آپ بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھیں تو اکثر وہ اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے نظر آئیں گے یا اپنے کسی کھیل کے لیے وہ پہلے اپنی زبان سے حکم صادر کریں گے، پھر اس پر عمل کرنا شروع کریں گے۔ اس کو مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی بچے کو آپ ایک کھلونا ریل گاڑی دیں، اس کو چلانے کے لیے پٹریاں بنانے سے پہلے وہ بچہ اپنے آپ سے کہے گا کہ میں اسے رکھوں گا، اس کے بعد اسے لگاؤں گا، پھر کہے گا کہ ٹرین میں چابی بھرنا ہے، پھر اس کو اسٹارٹ کرنا ہے۔ اس طرح بچہ اپنے لیے خود احکام جاری کرتا ہے۔ یہ تمام احکام وہ اپنی مادری زبان ہی میں جاری کرتا ہے۔
(ت) اپنے آپ سے انسان باتیں کرتا ہے، سوچتا ہے، اپنے ذہن سے باتیں کرتا ہے۔ یہ عمل کئی انداز کا ہوتا ہے۔ اسی میں خواب بھی شامل ہیں۔ یہ عمل یعنی ذہن سے گفتگو کرنے کا عمل اور خواب دیکھنے کا عمل مادری زبان میں ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ گویسکی کہتا ہے کہ علم کی تشکیل، ذہن کی نشو و نما اور فکر کی بالیدگی، اختراعی صلاحیتوں میں اضافہ، جمالیاتی حس کی بلندی، یہ سب مادری زبان میں ہی ہوتے ہیں۔
مادری زبان میں بنیادی تعلیم کی اہمیت کو تمام ترقی یافتہ ممالک تسلیم کرتے ہیں ۔ چنانچہ جاپان، جرمنی، کوریا، روس، فرانس و دیگر ممالک میں بنیادی تعلیم اس ملک کی زبان میں ہی دی جاتی ہے۔ بھارت میں چونکہ ہم سامراجی حکومت کے تحت ایک طویل مدت تک زندگی گزارچکے ہیں اس لیے مادری زبان میں تعلیم کے بجائے غیر ملکی زبان کو فوقیت دیتے ہیں۔ جب کہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تعلیم مادری زبان ہی میں موثر ہوا کرتی ہے۔ تمام ماہرین تعلیم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہیے۔مادری زبان میں طلباء علم کو شعور میں لاتے ہیں اور شعور کے ذریعے انہیں فہم حاصل ہوتا ہے جسے علم و آگہی کا عمل (cognative process) کہا جاتا ہے۔ بنیادی تعلیم مادری زبان کے بجائے کسی دوسری زبان میں دی جاتی ہے تو اس میں جو کمزوری پیدا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بچہ علم کو رٹ کر (حفظ کرکے) سیکھتا ہے جب کہ سیکھنے کا تعلق رٹنے یا حافظے سے نہیں بلکہ اس کے شعور سے ہوتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں یہ کمزوری بڑی عام ہے۔ ہم مادری زبان میں بچوں کو بنیادی تعلیم دینے کے بجائے غیر ملکی زبان میں تعلیم دینے کو فخر سمجھتے ہیں۔ انگریزی اگر کوئی بولتا ہے تو ہم اسے تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے سماج میں تعلیم انگریزی زبان سے جڑ گئی ہے۔
ہمارے ملک کے تناظر میں یہ حقیقت ہے کہ سماجی عدم مساوات کو کسی حد تک دور کرنے کا ذریعہ انگریزی زبان بھی ہے۔ جو انگریزی بولتا ہے وہ اپنے آپ کو اونچے سماجی گروہ میں شامل کرلیتا ہے۔ چونکہ موجودہ زمانہ مادہ پرستی کی پوری لپیٹ میں ہے اور مادہ پرستی کا ایک اہم عنصر صنعتی ذہنیت (corporate mentality) بھی ہے۔ اس ذہنیت میں بنیادی مقام انگریزی زبان کو حاصل ہے۔ لہٰذا تعلیمی ایجنڈے کے تحت پسماندہ گروہوں کے بچوں کو انگریزی تعلیم دینا بھی سماجی عدم مساوات کو حل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ انگریزی تعلیم کو ہم نے زیر بحث تعلیمی ایجنڈے کا ایک نکتہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس پر کچھ تفصیلی گفتگو آگے ہوگی۔
ہمارے ملک میں مسلم اکثریت کی مادری زبان اردو ہے لیکن افسوس کہ ان کی نئی نسل صرف اردو بولنا جانتی ہے، وہ اردو کے کم الفاظ کے بولنے پر ہی قادر ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اردو مادری زبان بولنے والوں کی کثیر آبادی صرف پانچ سو الفاظ کی معلومات رکھتی ہے جب کہ اردو ڈکشنری میں محاورات و مرکبات اور ضرب الامثال سمیت تقریبا سوا لاکھ الفاظ پائے جاتے ہیں۔ الفاظ کے علاوہ نئی نسل محاوروں، ضرب الامثال اور کہاوتوں کے ذخیرے سے نابلد ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے سے قاصر ہے۔ چنانچہ آج بیشتر اردو داں حضرات اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی چاہے وہ اسٹیج پر کی جاتی ہو یا دو افراد کے مابین ہونے والے مکالمات میں، دونوں ہی جگہوں پر اعلی درجے کی اردو زبان میں نہیں کر پاتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے تعلیم میں آگے بڑھیں، نئی تحقیقات کریں اور اس کے ساتھ علم کے صحیح مقصد کو حاصل کریں، حق سے متعارف ہوں، معرفت الٰہی کے حصول میں آگے بڑھیں اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنائیں تو انہیں اردو زبان بھی سکھانی ہوگی اور اس کا باضابطہ انتظام بھی کرنا ہوگا۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ جو طلباء انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ اردو سے نابلد ہوجاتے ہیں۔ وہ اردو بولتے ہیں لیکن پڑھ، لکھ نہیں سکتے۔ اگر طلباء اردو پڑھنا لکھنا جان لیں تو انہیں بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ طلباء اپنی تہذیب و ثقافت کو جان سکتے ہیں اور اسے صحیح طریقے پر اختیار کر سکتے ہیں۔ کسی بھی تہذیب میں زبان کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ زبان تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہر تہذیب اپنی زبان سے وابستہ ہوتی ہے۔ اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب کی ترجمان ہے اور یہ تہذیب اسلامی تہذیب سے بہت قریب ہے۔ تہذیب کا ایک اہم عنصر عقیدہ بھی ہوتا ہے، چنانچہ جو طلباء اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ اسلامی عقیدے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 نے بھی مادری زبان میں بنیادی تعلیم کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ پالیسی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بنیادی تعلیم کا انتظام مادری زبان میں کیا جانا چاہیے، اس کے لیے حکومت ضروری اقدامات کرے۔
بعض ماہرین کی رائے یہاں تک بھی ہے کہ اس خصوص میں قانون سازی بھی ہونی چاہیے۔ اس حقیقت کو یوں تو تمام تعلیم یافتہ حضرات مانتے ہیں، تاہم وہ اپنے بچوں کو تعلیم انگریزی میڈیم اسکولوں ہی میں دلانا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے دور خے پن کے پیچھے جہاں ایک وجہ مادری زبان کے اسکولوں میں معیار تعلیم کی کمی ہے، وہیں یہ سماجی تصور بھی ہے کہ انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو مستقبل میں بہترین مواقع حاصل ہوتے ہیں اور یہ بھی تصور ذہنوں پر چھایا ہوتا ہے کہ انگریزی بولنا سماجی حیثیت Position کو اونچا اٹھاتا ہے۔ انگریزی میڈیم کے اسکولوں کو سماج میں اسکول کے معیار کی درجہ بندی میں سب سے اوپر کے درجے پر رکھا گیا ہے ۔
مادری زبان کے حوالے سے ایک عمومی تاثر یہ بھی ہے کہ بھارت میں اردو اہل زبان کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے بہت کم ریسرچ اسکالر اور محققین وجود میں آئے ہیں۔ ایسے افراد کی جنہوں نے سماج کے کسی بھی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہوں یا کوئی تھیوری پیش کی ہو، اردو میں بے انتہا کمی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اردو مادری زبان والے طلباء چونکہ اپنی تعلیم کسی دوسری زبان میں حاصل کرتے ہیں اس لیے ان کے اندر اختراعی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہے۔
زبان کے حوالے سے ملت کی پالیسی کیا ہو:
ہمارا ملک کئی زبانوں اور لہجوں کا گہوارہ ہے۔ مسلمانوں کی کثیر آبادی ایسی ہے جس کی مادری زبان اردو ہے۔ تعلیم کے شعبے میں قومی تعلیمی پالیسی سہ لسانی فارمولہ اختیار کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے، یعنی مادری زبان کے علاوہ طلباء مزید دو زبانیں سیکھ سکتے ہیں۔ ایک ریاستی زبان اور دوسری انگریزی۔ اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ ملک بھر میں ملت اپنے لیے ایک سہ لسانی فارمولہ تجویز کرے اور اس لسانی فارمولے پر زیادہ سے زیادہ عمل کرے۔ ہم یہ تجویز دیتے ہیں کہ وہ مسلمان جن کی مادری زبان اردو ہے وہ کوشش کریں کہ جہاں جہاں اردو میڈیم کے معیاری اسکول موجود ہیں، وہاں اپنے نونہالوں کی تعلیم درجہ پنجم تک لازماً اردو میں دلائیں۔ کم سے کم گریڈ 5 تک بچہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرے، یعنی اس کی زبان اول (First language) اردو ہو اور ریاستی زبان کو دوسری زبان (Secong language) کے طور پر پڑھیں اور تیسری زبان (Third language) انگریزی ہو۔ ریاستی زبان کا سیکھنا ملت کے نونہالوں کے لیے کئی اعتبار سے ثمر آور ہے۔ ایک تو اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ طلباء کو مستقبل میں اپنا کردار ایک داعی کی حیثیت سے بھی ادا کرنا ہے۔ یہ کردار مقامی زبان جانے بغیر ممکن نہیں ہے۔ موجودہ بھارت میں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں بڑھتی خلیج کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی ریاستوں میں مسلمانوں کی زبان اردو ہے اور غیر مسلموں کی زبان کچھ اور۔ یہ دونوں طبقے آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو یا ڈائیلاگ نہیں کرپاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے موجودہ سنگین سماجی حالات کا ایک حل مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ڈائیلاگ اور بات چیت بھی ہے اور بات چیت کو موثر بنانے میں مقامی زبان کا رول بڑا اہم ہوتا ہے۔
مقامی زبان سیکھنے کا دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ ریاستی سطح کی سرکاری اسامیوں کے تقررات کے لیے جو ٹیسٹ اور امتحانات لیے جاتے ہیں ان میں ریاستی زبان کا پرچہ لازمی طور پر ہوتا ہے۔ جنوبی ہند کی بعض ریاستوں میں مسلمان طلباء علاقائی زبان میں مہارت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے انہیں سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
جن مسلمانوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے، ان کے لیے مندرجہ ذیل سہ لسانی فارمولہ تجویز کیا جاسکتا ہے۔ پہلی زبان (First language) ان کی اپنی مادری زبان ہو، دوسری زبان (Second language) یا تو اردو یا انگریزی، تیسری زبان (Third language) انگریزی یا اردو۔ جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے ایسے طلباء کو اردو سکھائی جانی چاہیے۔ اردو سیکھنے سے چند مذہبی اور ملی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ اسلامی لٹریچر کا ذخیرہ عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ اردو اور فارسی میں موجود ہے۔ اردو کو عربی زبان کی چھوٹی بہن بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی لٹریچر کی اردو میں موجودگی ایک عام ذہن کو اسلامی ذہن بنانے اور اسلامی فکر کو استوار کرنے میں بڑی مدد کرتی ہے۔ قرآن کی تفاسیر چاہے وہ کلاسیکی ہوں یا دور جدید کے اردو زبان میں بھی موجود ہیں، بلکہ عربی کے بعد اردو اور فارسی میں ہی لکھی گئی ہیں۔
ہمارے ملک میں مسلمانوں کی ملی زبان اردو بن گئی ہے۔ اس کے اپنے فوائد بھی ہیں۔ آج ملت کے مسائل اسی زبان میں زیر بحث آتے ہیں۔ ملی میڈیا اردو ہی میں کام کرتا ہے۔ ملت کے اجلاس و تقاریب اور اس کی بقا و ترقی کے لیے منعقد ہونے والے مباحث بھی بیشتر اردو زبان میں ہی ہوا کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اردو نہیں جانتا ہے تو وہ ان مباحث کی روح کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ بعض موقعوں پر تو اردو سے عدم واقفیت ملت سے کٹ جانے کے مترادف ہوجاتی ہے۔ اس لیے نئی نسل کو اردو پڑھانا اور اس کے لیے مناسب انتظام کرانا ضروری ہے۔
ہم نے اوپر سہ لسانی فارمولے کے دو ماڈیول پیش کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر کچھ ایسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے کہ طلباء اردو زبان کو اسکولوں میں سہ لسانی فارمولوں کے تحت لے نہیں پاتے۔ لیکن ہم یہاں اس تلخ حقیقت کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ملت کی جانب سے چلائے جانے والے انگریزی میڈیم پرائیویٹ اسکولوں میں اردو کا انتظام کم ہوتا ہے۔ اس کے لیے شعور کی بیداری کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ اردو زبان سکھانے کے لیے انتظام کرے۔ اس سے پہلے طلباء کے سرپرستوں پر یہ واضح کیا جائے کہ دینی و ملی اعتبار سے اردو زبان کا سیکھنا کتنا ضروری ہے اور اپنی مادری زبان کو سیکھنے سے بچوں میں جمالیاتی حس کی بیداری کتنی ممکن ہے اور اس سے وہ زندگی کا سرور کس طرح حاصل کرسکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو سرپرستوں کے سامنے پیش کیا جائے اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اردو زبان سکھائیں۔
جو پرائیویٹ اسکول ملت کی جانب سے قائم نہیں ہیں اور انہیں غیر مسلم انتظامیہ چلاتی ہے وہاں بھی ہم کوشش کریں کہ اردو زبان سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ بعض سرکاری اسکولوں میں بھی اردو زبان سکھانے کا انتظام نہیں ہوتا۔ ان دونوں صورتوں میں قانون کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ ایک خاص تعداد میں طلباء اپنی مادری زبان کو سیکھنے کا اسکول انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں اور اگر سرکاری اسکول ہے تو سرکاری انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اس زبان کو سکھانے کا انتظام کریں اس کی گنجائش موجود ہے، لیکن اردو داں طبقہ اپنی زبان کے حوالے سے اب حساسیت اور جذباتیت قدرے کم رکھتا ہے، اس لیے اسکولوں میں اردو زبان کو سکھانے کا انتظام رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے۔ اردو کی بقا و فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ذریعہ اس شعور کو بیدار کرنے اور اردو زبان کو سکھانے کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔
اگر کسی مقام پر اسکولوں میں اردو زبان سکھانے کا انتظام موجود نہیں ہے اور کوشش کے باوجود قائم نہیں ہورہا ہے تو ایسے مقامات پر جزوقتی مکاتب، ’اسلامیات‘ کی جو تجویز اور عملی شکل ہم نے اس مضمون کے قسط اول میں بیان کی ہے، ان جزوقتی مکاتب میں اردو زبان سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ چند برس قبل تک اردو کی بقا و فروغ کے لیے انفرادی طور پر چند افراد اور اجتماعی طور پر تنظیمیں سرگرم نظر آتی تھیں لیکن اب ایسی شخصیات اور تنظیمیں معدوم ہورہی ہیں۔ یہ ملت کا عظیم نقصان ہے۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو کی بقا مدارس اسلامیہ کے مرہون منت ہے۔ ہمیں ایجنڈے کے اس نکتے پر مناسب توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ ایک دینی اور ملی ضرورت ہے اور کار خیر بھی۔
جاری
(قارئین سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر تجاویز و مشورے مندرجہ ذیل وہاٹس ایپ نمبر پر ارسال کریں تاکہ مضمون کی اگلی قسط میں انہیں شامل کیا جا سکے ۔ وہاٹس ایپ نمبریہ ہے: 9844158731)
***

 

***

 موجودہ صورتحال یہ ہے کہ جو طلبا انگریزی میڈیم سے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ اردو سے نابلد ہوجاتے ہیں۔ وہ اردو بولتے ہیں لیکن پڑھ، لکھ نہیں سکتے۔ اگر طلبا اردو پڑھنا لکھنا جان لیں تو انہیں بہت سے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ طلبا اپنی تہذیب و ثقافت کو جان سکتے ہیں اور اسے صحیح طریقے پر اختیار کرسکتے ہیں۔کسی بھی تہذیب میں زبان کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ زبان تہذیب کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہر تہذیب اپنی زبان سے وابستہ ہوتی ہے۔ اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیب کی ترجمان ہے اور یہ تہذیب اسلامی تہذیب سے بہت قریب ہے۔ تہذیب کا ایک اہم عنصر عقیدہ بھی ہوتا ہے، چنانچہ جو طلبا اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ اسلامی عقیدے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 جون تا 17 جون 2023