’اسلام ایک فطری اور عقلی دین‘ ایک تعارف
کتاب کا نام : اسلام ایک فطری اور عقلی دین
مصنف: احمد علی اختر
صفحات: 96
قیمت: 100 روپے
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
سن اشاعت: جون 2022
تبصرہ : رضوان احمد اصلاحی، پٹنہ
’’انسان کی فطرت آج بھی وہی ہے جو تخلیق آدم کے وقت اسے عطا کی گئی تھی۔ سائنس وٹکنالوجی اور تمدن کی ترقی سے انسان کی فطرت نہیں بدلا کرتی، نہ آج بدلی ہے اور نہ آئندہ کبھی بدلے گی، خواہ وہ ترقی کی کتنی ہی منزلیں طے کرلے۔ جب انسان کی فطرت نہیں بدلی ہے تو اسلام کو بدلنے یا اسلام کی جگہ پر کوئی دوسرا نظام لانے کی کیوں ضرورت محسوس ہونے لگی؟ اسلام تو فطرت انسانی کا دین ہے۔ جو دین ماضی میں انسان کی کامیاب رہ نمائی کر چکا ہے اور مسائل زندگی کو بہترین انداز میں حل کر چکا ہے وہ آج کس طرح انسان کی رہ نمائی کرنے اور مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہو جائے گا؟“۔
یہ اقتباس ماخوذ ہے جناب احمد علی اختر کی کتاب ”اسلام ایک فطری اور عقلی دین“ سے۔ اسلام کے موضوع پر یہ ایک نئی کتاب ہے جو اسی سال جون 2022 میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے جو اسلام کے نظریہ زندگی اور فلسفہ حیات کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے۔ اس کے مخاطب وہ لوگ بھی ہیں جو مغربی تہذیب سے متاثر ہی نہیں مرعوب بھی ہیں اور سائنس کی ترقیات سے جن کی آنکھیں خیرہ ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کتاب اسلام کے نظریہ زندگی اور فلسفہ حیات کا واضح تصور پیش کرنے میں کس حد تک کامیاب ہے؟ پوری کتاب کے مطالعے سے یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ عقل کی کسوٹی سے بھی اور دلائل وبراہن کے ذریعہ بھی اسلام کے نظریہ زندگی اور فلسفہ حیات کو بہت عام فہم انداز میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ عقائد بالخصوص عقیدہ توحید اور عقیدہ آخرت سے انسانی زندگی پر پڑنے والے اثرات پر سائنٹفک اور عقلی گفتگو کی گئی ہے۔ مثلاً عقیدہ توحید کے بارے میں لکھاگیا ہے کہ ”جب یہ عقیدہ کسی انسان کے دل ودماغ پر چھا جاتا ہے تو برائی کی ترغیبات کے باوجود انسان برائی سے اپنے آپ کو بچانے اور اپنا ایمان سلامت رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے“۔ مثال کے طور پر حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت کا وہ واقعہ نقل کیا گیا ہے جس میں ایک ماں بیٹی کو دودھ میں پانی ملانے کی ترغیب دیتی ہے لیکن بیٹی اپنے اسی عقیدے پر یقین کامل کی وجہ سے انکار کر دیتی ہے۔ عقیدہ توحید وآخرت کے فقدان یا کمزور پڑنے کے مظاہر یہ بیان کیے گئے ہیں کہ ”انسان کے اندر فیاضی وسخاوت، اعلی ظرفی، بلند فکری، ہمدردی وغم گساری اور حم دلی کے بجائے بخل، تنگ دلی، کم ظرفی اور شقاوت وبے رحمی پیدا ہو جاتی ہے“
اسلامی تعلیمات کو پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیسے اسلام کی ہر چھوٹی بڑی تعلیم فطرت اور عقل پر مبنی ہے، چنانچہ مصنف نے قاری کو یہ مشورہ دیا ہے کہ آپ خود اپنی فطری ضرورتوں کا احاطہ کریں اور ان کی ایک فہرست بنالیں۔ پھر ہر فطری ضرورت کے سلسلے میں یہ دیکھیں کہ اس کے سلسلے میں اسلام کے احکام اور تعلیمات کیا ہیں، آیا یہ مطابق عقل ہیں یا خلاف عقل؟ مثلاً انسان کی پہلی بنیادی ضرورت کسب معاش اور خوراک کے بارے میں آزادی اور پابندی یا جائز اور ناجائز کی نشاندہی کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ جائز اور حلال رزق عین فطرت اور عقل کے مطابق ہے اور ناجائز و حرام کمائی عین خلاف فطرت ہے۔ اسی طرح لباس کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور اسلام کے حدود وقیود کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ یہ عین عقل اور فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ جو لباس یا جس طرح کے لباس کی اسلام میں ممانعت آئی ہے وہ عین خلاف عقل ہے۔ جنسی خواہش کی تکمیل کے فطری اور غیر فطری طریقے کی نشاندہی کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ سارے فطری طریقے عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں اور اس کے برعکس سارے غیر فطری طریقے اسلامی تعلیمات کے علی الرغم ہیں۔
کتاب کے آغاز میں مستند عالم دین، معروف اسلامی اسکالر اور درجنوں کتابوں کے مصنف، سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمریؒ کا مختصر اور جامع پیش لفظ مرقوم ہے۔ شاید کسی کتاب پر مولانا مرحوم کی یہ آخری تحریر ہو گی، جس نے اس کتاب کی اہمیت کو چار چاند لگا دیا ہے۔ اس پیش لفظ میں مولانا عمری علیہ الرحمہ نے بجا طور پر یہ فرمایا ہے کہ کتاب کا انداز دعوتی اور تاثراتی ہے۔ چنانچہ مصنف نے اپنے درد دل کا اظہار اہل ایمان سے کچھ یوں کیا ہے کہ ”اس وقت انسانیت جاں بلب ہے اور وہ آب حیات جو انسانیت کو نئی زندگی سے ہم آغوش کر سکتا ہے، ہمارے پاس ہے۔ تو اخوت انسانی کے تحت یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے اور وقت کے تقاضے کے تحت یہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کا پیغام لے کر ان تک پہنچیں“۔ پھر لگے ہاتھوں داعی اورمبلغ کی صفات بھی بڑے دلنشیں انداز میں لکھ گئے ہیں۔
یہ کوئی دقیق علمی اور تحقیقی کتاب نہیں ہے بلکہ بالکل تاثراتی اور تفہیمی کتاب ہے۔ اسلام اور اسلامی عقائد ونظریات پر بالعموم جتنی کتابیں لکھی جاتی ہیں یا لکھی گئی ہیں ان میں قرآن وحدیث کے دلائل بھر دیے جاتے ہیں اور زبان کی ژولیدگی ایسی ہوتی ہے کہ عام قاری دوچار پیراگراف پڑھنے کے بعد اونگھنے لگتا ہے لیکن اس کتاب کی زبان اس قدر شستہ اور ادبی ہے کہ بس پڑھتے جائیے قاری تھکنے کے بجائے سرور وانبساط محسوس کرتا ہے اور ادبی چاشنی سے محظوظ ہوتا ہے۔ ایک پیراگراف پڑھنے کے بعد دوسرا پیراگراف خود پڑھنے کی دعوت دیتا ہے، ایک صفحہ یا ایک ذیلی عنوان ختم ہوتے ہی جی چاہتا ہے لاؤ اگلا صفحہ اور اگلا عنوان بھی پڑھ ڈالیں۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے، مجھے کتاب کی طباعت سے قبل بھی اس کے مسودے کو بغور پڑھنے کا موقع ملا اور شائع ہونے کے بعد بھی، جس سے میرے ذہن ودماغ پر یہی تاثر قائم ہوا ہے۔
کتاب کے مصنف جناب احمد علی اختر تحریکی حلقوں میں ایک داعی، مبلغ، خطیب، صاحب طرز ادیب اور انشاء پرداز کی حیثیت سے معروف ہیں، چنانچہ اس کتاب میں مصنف کے وہ سارے پہلو ابھرئے ہوئے نظر آتے ہیں، اس میں جہاں ایک داعی کی تڑپ اور بے چینی نظر آئے گی وہیں ایک مقرر اپنی بات کو مختلف زوایوں سے سمجھاتا ہوا نظر آئے گا جس کی وجہ سے بعض جگہ تکرار کلام کا بھی احساس ہو گا۔ جہاں پوری کتاب بہترین ادب پارہ ہے وہیں فن انشاء پردازی کا بھی نمونہ ہے۔ جگہ جگہ حسب موقع برمحل اشعار کے استعمال نے تاثیر کلام میں مزید جان ڈال دی ہے۔
فاضل مصنف اپنی نیت کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ”میری نیت یہ ہے کہ یہ لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بنے اور خلق خدا کے لیے مفید ثابت ہو“۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ مصنف کی نیت کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور اس کتاب کو عامۃ المسلمین کے لیے اور جملہ خلق خدا کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا ذریعہ بنائے اور مصنف کے حق میں توشہ آخرت بنا دے۔ آمین
***
***
یہ کوئی دقیق علمی اور تحقیقی کتاب نہیں ہے بلکہ بالکل تاثراتی اور تفہیمی کتاب ہے۔ اسلام اور اسلامی عقائد ونظریات پر بالعموم جتنی کتابیں لکھی جاتی ہیں یا لکھی گئی ہیں ان میں قرآن وحدیث کے دلائل بھر دیے جاتے ہیں اور زبان کی ژولیدگی ایسی ہوتی ہے کہ عام قاری دوچار پیراگراف پڑھنے کے بعد اونگھنے لگتا ہے لیکن اس کتاب کی زبان اس قدر شستہ اور ادبی ہے کہ بس پڑھتے جائیے قاری تھکنے کے بجائے سرور وانبساط محسوس کرتا ہے اور ادبی چاشنی سے محظوظ ہوتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022