عشرت جہاں کیس: سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے آخری تین ملزموں کو بھی بری کیا، فیصلے میں کہا ’’کسی فرضی انکاؤنٹر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘

نئی دہلی، مارچ 31: گجرات میں سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی خصوصی عدالت نے عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس کے آخری تین ملزموں کو بھی بری کردیا۔ تینوں ملزمان میں ہندوستانی پولیس سروس کے افسر جی ایل سنگھل، اسٹیٹ ریزرو پولیس کمانڈو انجو چوہدری اور پولیس کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر جنرل ترون باروت شامل تھے۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا ’’یہ واضح ہے کہ جس عمل کا ملزمین پر الزام لگایا گیا ہے اس میں وہ اپنے فرائض کو نبھا رہے تھے۔‘‘

سی بی آئی کے خصوصی جج وی آر راول نے بتایا کہ متعلقہ پولیس عہدیدار احمد آباد میں بم دھماکوں اور دہشت گردانہ حملوں کے دوران چوکس رہنے کے پابند ہیں۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے ’’ملک دشمن اور دہشت گرد سرگرم کارکنوں کی تعداد پورے ہندوستان میں پھیل گئی ہے، خاص طور پر گجرات میں۔ پولیس کے اعلی عہدے دار ہونے کے ناطے ضروری اقدامات کرنا ان کا فرض تھا۔ ایسے کسی پولیس افسر کی طرف سے کسی فرضی انکاؤنٹر کے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔‘‘

انڈین ایکسپریس کے مطابق راول نے کہا کہ ’’پہلی بات یہ ہے کہ اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا‘‘ کہ عشرت جہاں اور ہلاک ہونے والے چار دیگر ’’دہشت گرد نہیں تھے‘‘۔

اس سے قبل سی بی آئی نے اس کیس میں چار دیگر ملزمان کے بری ہرنے کے خلاف اپیل نہیں کی تھی۔ اخبار کے مطابق اس حکم کو ان آخری تینوں ملزمان کو بری کرنے کے لیے حوالے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

جون 2004 میں عشرت جہاں کے ساتھ اور دیگر تین افراد احمد آباد کے مضافات میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مبینہ مقابلے میں مارے گئے۔ ریاستی پولیس نے دعوی کیا تھا کہ ان چاروں کے دہشت گرد گروہوں سے تعلقات تھے اور وہ نریندر مودی کو قتل کرنے کی سازش کررہے تھے، جو اس وقت گجرات کے وزیر اعلی تھے۔ تاہم ہائی کورٹ کے ذریعہ تشکیل دی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے اس انکاؤنٹر کو فرضی پایا تھا۔ اس کے بعد یہ معاملہ مرکزی تفتیشی بیورو کو منتقل کردیا گیا تھا۔

20 مارچ کو سی بی آئی نے گجرات کی عدالت کو بتایا تھا کہ ریاستی حکومت نے باقی تینوں ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی منظوری دینے سے انکار کردیا ہے۔ نامعلوم عہدیداروں کے مطابق اجازت دینے سے انکار اس بنیاد پر تھا کہ گجرات حکومت کا خیال ہے کہ مبینہ انکاؤنٹر پولیس نے ڈیوٹی کے مطابق کیا تھا۔