روہنگیائی مسلمانوں کو بسانے کی سازش کی تحقیقات ضروری: سسودیا
نئی دہلی، اگست 18: دہلی کی کیجریوال حکومت کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے تعصب روا رکھنے کی پالیسی کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن روہنگیائی مظلوم مسلمانوں کے معاملے میں اس کی پالیسی نے ایک بار پھر مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔
دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے اس تعلق سے کہا ہے کہ دہلی میں منتخب حکومت کو اندھیرے میں رکھ کر روہنگیاؤں کو رہائش گاہیں فراہم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، اس لیے اس کی جانچ ہونی چاہیے۔
مسٹر سسودیا نے اس سلسلے میں جمعرات کو وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ دہلی کی منتخب حکومت کو اندھیرے میں رکھ کر روہنگیاؤں کو پناہ دینے کی دہلی میں سازش کی جارہی ہے۔ انہیں این ڈی ایم سی فلیٹس دینے کی بات کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب مکانات و شہری ترقیات کے مرکزی وزیر ہردیپ پوری نے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے گذشہ کل ٹویٹ بھی کیا تھا اور اسے تاریخی فیصلہ قرار دیا تھا، لیکن یہ معاملہ میڈیا میں آنے کے بعد دہلی حکومت کے احتجاج پر مرکزی حکومت نے یو ٹرن لے لیا۔ ایسے میں اس دوہرے رویے کے بجائے مرکزی حکومت کو اس معاملے پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ دہلی حکومت روہنگیاؤں کو دہلی میں کسی بھی طرح کی عارضی یا مستقل رہائش فراہم کرنے کے کسی بھی اقدام کے خلاف ہے اور مرکزی حکومت کو بھی اس پر اپنا موقف واضح کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ روہنگیاؤں کو فلیٹ دینے کے معاملے پر 29 جولائی کو دہلی کے چیف سکریٹری کی صدارت میں میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میٹنگ میں مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کے افسران بھی شامل تھے، لیکن دہلی کی منتخب حکومت کو اس میٹنگ کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملک کی سلامتی سے جڑا معاملہ ہے، اس لیے مرکزی حکومت کو اس معاملے میں اپنا موقف واضح کرنا چاہیے اور اگر کچھ لوگوں نے دہلی کی منتخب حکومت سے چھپ کر مرکزی حکومت کے موقف کے خلاف سازش کی ہے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس بات کی بھی جانچ ہونی چاہیے کہ مرکزی حکومت میں کون دہلی حکومت کے عہدیداروں کی ملی بھگت سے ایسے فیصلے دہلی کی منتخب حکومت سے چھپا کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟ کس کے کہنے پر یہ سب کیا جا رہا ہے؟ اس کی سازش کیا تھی؟ اس کی شفاف طریقے سے تحقیقات ہونی چاہئے۔
نائب وزیر اعلیٰ نے اپنے خط میں کہا ہے کہ 17 اگست کی صبح اخبارات میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ مرکزی حکومت دہلی میں روہنگیاؤں کے لیے این ڈی ایم سی کے بنائے ہوئے فلیٹ دے کر ان کی رہائش کے انتظامات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں مکانات و شہری ترقیات کے مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے بھی دو ٹویٹز کئے تھے جس میں انہوں نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کی تھی اور اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا تھا۔
مسٹر سسودیا نے مزید لکھا کہ دہلی میں محکمہ داخلہ کے وزیر کی حیثیت سے یہ میرے لئے بہت تشویش کی بات ہے کہ مرکزی حکومت بنگلہ دیشی روہنگیاؤں کو دہلی میں رہائش فراہم کرنے جا رہی ہے اور دہلی کے وزیر اعلیٰ یا دہلی کی منتخب حکومت کو چاہئے کہ اس بارے میں آگاہ کیا جائے، اعتماد میں لینا تو دور کی بات، اس کی اطلاع تک نہیں دی گئیں۔
مسٹر سسودیا نے کہا کہ محکمہ داخلہ سے دستاویزات حاصل کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ 29 جولائی کو دہلی کے چیف سکریٹری کی صدارت میں ہوئی میٹنگ میں اس سلسلے میں کچھ فیصلے کئے گئے ہیں۔ اس میٹنگ میں مرکزی حکومت اور دہلی پولیس کے افسران نے بھی شرکت کی ہے اور اس میٹنگ میں کئے گئے فیصلے کو وزیر داخلہ یا دہلی کے وزیر اعلیٰ کے علم میں لائے بغیر اس کی فائل مرکزی حکومت کی رسمی منظوری کے لیے چیف سکریٹری کے ذریعے لیفٹیننٹ گورنر کو بھیجی جارہی تھی۔ دستاویزات میں یہ بھی دیکھا گیا کہ روہنگیاؤں کو فلیٹس دینے کے سلسلے میں مرکزی حکومت کی وزارت داخلہ کے تحت آنے والے دہلی پولیس کے ایف آر آر او کے اہلکاروں کی درخواست پر این ڈی ایم سی کو ایک خط بھی لکھا گیا تھا۔
مسٹر سسودیا نے کہا کہ دہلی حکومت روہنگیاؤں کو دہلی میں کسی بھی عارضی یا مستقل رہائش فراہم کرنے کے کسی بھی اقدام کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں دہلی کی منتخب حکومت کا موقف بالکل واضح ہے۔
انہوں نے مرکزی حکومت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ اقدامات مرکزی حکومت کی رضامندی کے بغیر کئے گئے ہیں تو ان کی فوری طور پر سنجیدگی سے تحقیقات ہونی چاہئے۔ اس بات کی انکوائری ہونی چاہیے کہ مرکزی حکومت میں کون دہلی حکومت کے افسران کی ملی بھگت سے ایسے فیصلے دہلی کی منتخب حکومت سے چھپا کر کرنے کی کوشش کر رہا تھا؟ کس کے کہنے پر یہ سب کیا جا رہا ہے ؟ اور اس کے پس پردہ کون سازش کر رہا ہے؟