’’اسرائیل کا طرف دار انصاف پسند نہیں ہو سکتا‘‘
فلسطینی نژاد ماہر تعلیم و مصنف ڈاکٹر مکرم بلاوی سے خاص بات چیت
افروز عالم ساحل
پوری دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گی جو فلسطین کی پاک سر زمین پر قدم رکھنا چاہتے ہیں، لیکن کیا یہ ان کے لیے ممکن ہے؟ ایسے ہی لاکھوں لوگوں میں ایک نام ڈاکٹر مکرم بلاوی کا بھی ہے۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ وہ ایک بار فلسطین میں اپنے لوگوں سے مل سکیں، مسجد اقصیٰ کا اپنی آنکھوں سے دیدار کر سکیں، لیکن انہیں فلسطین جانے کی اجازت نہیں ہے۔
53 سالہ ڈاکٹر مکرم بلاوی استنبول میں مقیم ایک فلسطینی نژاد ماہر تعلیم و مصنف ہیں۔ ایشیا مڈل ایسٹ فورم کے بانی اور صدر ہیں۔ ساتھ ہی یونین آف فلسطین اکیڈمک کے کاگزار رکن بھی ہیں۔ 43 کتابوں کے مصنف جناب بلاوی ایشیائی تعلقات اور فلسطینی کاز پر اپنی تحریروں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اردن میں پیدائش کے باوجود ہندوستان سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے، بلکہ وہ ہندوستان کو اپنا دوسرا گھر مانتے ہیں۔ انہوں نے یہاں اپنی زندگی کے سب سے اہم دن گزارے ہیں۔ 1989 میں انہوں نے ناگپور یونیورسٹی سے انگریزی زبان میں بیچلر اور پھر 1993 میں اسی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ملائشیا چلے گئے اور وہاں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کی۔
فلسطین کے حالات کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے ساتھ وابستہ اپنی یادوں کے حوالے سے انہوں نے ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت کی ہے۔ یہاں اس گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
کیا آپ کبھی فلسطین گئے ہیں؟
میں کبھی فلسطین نہیں گیا۔ فلسطین جانا تو دور کی بات ہے مجھے فلسطین کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ میرے علاوہ فلسطین سے جبری طور پر باہر رہنے والے 70 لاکھ افراد میں سے زیادہ تر کو فلسطین جانے کی اجازت نہیں ہے۔
آپ تو اردن میں پیدا ہوئے ہیں، پھر فلسطین سے آپ کا رشتہ؟
1948ء میں زیادہ تر فلسطینیوں کو ان کے اپنے ہی گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ میرا خاندان بھی ان میں شامل تھا۔ اس وقت میرے والد صرف نو سال کے تھے۔ میرے دادا دادی کو فلسطین چھوڑنا پڑا۔ وہ دونوں فلسطین واپس لوٹنے کی خواہش دل میں لیے ہوئے اردن میں ہی دفن ہو گئے جبکہ والد اردن میں رہ گئے جہاں میری پیدائش ہوئی۔ میرے تمام بھائی بہن وہیں پیدا ہوئے، یہاں تک کہ میرے چچا بھی لبنان اور اردن میں پیدا ہوئے۔ ہم تب سے لے کر آج تک وطن واپس جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے NORWA نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جو فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے وقف تھی۔ ہمیں اس تاریخ تک راشن کارڈ دیا گیا تھا۔ یہ واحد دستاویز ہے جو ثابت کرتی ہے کہ ہم فلسطینی ہیں۔
اب آپ کیا سوچتے ہیں؟
میرے خیال میں ہر انسان کو اپنے وطن میں رہنے کا حق ہے۔ اسے اس وطن کا شہری سمجھا جانے کا حق ہے جہاں اس کے والدین پیدا ہوئے ہیں، اور جہاں وہ خود پیدا ہوا ہے۔ اسے غیر ملکی یا پناہ گزین نہ سمجھا جائے۔ میں فلسطین کے ان تقریباً 70 لاکھ لوگوں میں سے ایک ہوں جو فلسطین سے باہر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں اپنے گھروں کو واپس جانے اور اپنی جائیدادوں سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے لیے کوئی فوجی یا سیکیورٹی وجہ نہیں ہے بلکہ اسرائیلیوں نے ان پر قبضہ کر رکھا ہے۔
اگر آپ کو کبھی فلسطین جانے کا موقع ملے تو آپ سب سے پہلے کہاں جانا چاہیں گے؟
میں یقیناً القدس یعنی مسجد الاقصیٰ جانا چاہوں گا اور بحر روم کو بھی دیکھنا چاہوں گا کیونکہ میں اردن میں پیدا ہوا ہوں جو خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے۔ اگرچہ بحر روم جانا آسان نہیں ہو گا، کیونکہ وہاں بہت زیادہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی اتھاریٹی کی طرف سے زائرین خاص طور پر فلسطینیوں پر حفاظتی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
فلسطین کے معاملے میں آپ بین الاقوامی برادری کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا آپ کو ان سے کوئی امید ہے؟
بین الاقوامی برادری نے بنیادی طور پر فلسطینیوں اور خطے کے باقی لوگوں کو یہ سکھا دیا ہے کہ ان بین الاقوامی تنظیموں سے کوئی سنجیدہ امید نہیں رکھی جا سکتی، کیونکہ وہ صرف باتیں کرتے ہیں اور جب انہیں اپنی قرارداد پر عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ ایسا کام کر جاتے ہیں جس سے اسرائیلی قبضے کو مزید تقویت ملتی ہے۔
آپ خود ہی دیکھ لیجیے کہ 1967میں جس حصے پر قبضہ کیا گیا تھا 55 سال گزر جانے کے بعد بھی آج تک اسرائیل کے خلاف کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا گیا جس سے کہ وہ فلسطین کے اس حصے سے دستبردار ہو جائے، جسے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے بھی فلسطین کے طور پر ہی تسلیم کیا تھا۔ میرے خیال میں اب ہمارے خطے میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت تک کچھ نہیں ہو گا جب تک طاقت کا استعمال نہیں ہو گا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم جنگ کے بعد جنگ دیکھتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی بین الاقوامی قانون پر عمل درآمد نہیں کرتے اور نہ بین الاقوامی اداروں کو خاطر میں لاتے ہیں۔ دوسری طرف سپر پاورز اور بڑے ممالک بھی اسرائیل کے خلاف نام نہاد پابندیوں اور بائیکاٹ کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کرتے جسے سنجیدہ کارروائی کہا جا سکے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ فلسطینیوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ اسرائیلیوں کو زیادہ سے زیادہ رعایتیں دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل تقریباً 94% فلسطین پر قابض ہے اور فلسطینیوں کے پاس صرف 6% فلسطین رہ گیا ہے۔
گزشتہ سال ہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فلسطین پر ایک رپورٹ جاری کی تھی۔ اسرائیل نے اسے یہود مخالف قرار دیا تھا۔ اس پر آپ کا کیا خیال ہے؟
یہ ستم ظریفی ہے کہ کوئی بھی ان رپورٹوں پر بحث نہیں کرتا، چاہے وہ امریکہ ہو یا جرمنی یا دیگر مغربی یورپی ممالک، وہ یہ جانے بغیر رپورٹس کو مسترد کر دیتے ہیں کہ آیا یہ معلومات درست ہیں بھی یا نہیں؟ انہیں حقائق یا فلسطین میں کیا ہو رہا ہے اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، وہ صرف اسرائیل کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں جو کہ اسرائیل کی پالیسی سے بالکل ہم آہنگ ہے۔ ویسے بھی فلسطینیوں یا حالات کا مشاہدہ کرنے والے لوگوں کی رپورٹ بنیادی معلومات پر مبنی ہے کیونکہ ہم ہی جانتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ بین الاقوامی تنظیم یا بڑی طاقتوں کو ان حقائق کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ عمل کرنا نہیں چاہتے کیونکہ دراصل وہ یہ کام ہی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ غاصب اسرائیل کی طرف ہیں، انصاف پسند لوگوں کی طرف نہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر ممالک اسرائیل کو ایک چھوٹا لیکن طاقتور ملک سمجھتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
اسرائیل کے بارے میں اگر کوئی اچھی بات ہے تو لے لیں۔ ہم فلسطینی اس طرح کی کوئی بحث نہیں چاہتے۔ ہم صرف اپنے ملک کو واپس جانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ اسرائیل کو پسند کرتے ہیں تو آپ کے پاس اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، لیکن یہ ایک ستم ظریفی ہے کیونکہ آپ یہ دوسروں کی قیمت پر کر رہے ہیں اور ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ غیر اخلاقی ہے لیکن ایسا کرنا موجودہ وقت میں زیادہ منافع بخش ہو گیا ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی حفاظت کرے نہ کہ صرف پیسہ اور سامان پیدا کرے؟ بہت سی بڑی کمپنیاں ہیں جو اسرائیل سے بھی بہت بڑی ہیں، لیکن انہیں ایک ملک کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اگرچہ کچھ مافیا کے گروہوں کے پاس بہت زیادہ پیسہ اور طاقت ہے، تو کیا ہمیں انہیں بھی ان کے مال اور ساز و سامان کی وجہ سے ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ہو گا؟ نہیں، بالکل نہیں! اسرائیل کے ساتھ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد غیر قانونی طور پر دوسرے لوگوں کی زمین پر رکھی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے لوگوں کو ان کی اپنی ہی زمین سے زبردستی نکال دیا ہے۔ اب جو بھی فلسطین میں رہ گئے ہیں ان کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے جیسے وہ انسان ہی نہ ہوں بلکہ کوئی بے جان شئے ہوں۔ ایمنسٹی کی رپورٹ سرزمین فلسطین پر کیا ہو رہا ہے اس کی صرف ایک مثال ہے۔
دنیا بھر کے مسلمان جو فلسطین کے بارے میں فکر مند ہیں، ان کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟
ہم ان لوگوں کا بے حد شکریہ ادا کرتے ہیں۔ نہ صرف اس لیے کہ یہ ان کی اسلامی حرمت ہے بلکہ اس لیے کہ ہمارے لیے اسلام صرف ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک نظریہ ہے اور مسلمان محض ایک کمیونٹی نہیں بلکہ نظریاتی گروہ ہے۔ یہ آزادی، انصاف اور مساوات جیسے بلند خیالات کا ایک گروپ ہے۔ لہٰذا یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی ہے جو فلسطینیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ وہ دراصل ان کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ وہ حق پر ہیں اور اس لیے کہ انہوں نے جبر کا سامنا کیا ہے، اس کے لیے ہم ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہم ان سے درخواست بھی کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا میں انصاف اور آزادی کے لیے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموش رہنا دراصل ایک اور جنگ کا انتظار کرنا ہے۔ یہ انسانیت کے ساتھ نا انصافی ہے اور امن کے معاملے میں فلسطینی عوام کا ساتھ نہ دینے سے یہ خطرہ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔
آپ ہند-فلسطین تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان اور فلسطین میں سیاست ایک جیسی ہے اور بہت سی تبدیلیوں سے گزری ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان ہمیشہ استعمار مخالف تحریک کا سب سے بڑا حامی رہا ہے۔ میری رائے میں حقیقت پسند ہونے کی وجہ سے ہمیں اصولوں اور طویل مدتی مقاصد سے لا علم نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ ہندوستان کا طویل مدتی مفاد اس کے پڑوسیوں کے ساتھ ہے نہ کہ دور کے کسی غیر ملکی طاقت کے ساتھ جس کو نوآبادیاتی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہو؟
ایشیا مڈل ایسٹ فورم کی تشکیل کے پیچھے کیا مقصد تھا؟
میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل ایشیا کا ہے۔ میں بہت سے ایشیائی لوگوں کے قریب رہا ہوں۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ نوآبادیات کے دور کے بعد ہمارے خطے اور ایشیا و مغربی ایشیا کے درمیان پل کمزور ہو گئے ہیں، ہمیں ان پلوں کو دوبارہ مضبوط کرنا چاہیے۔ ہم ماضی میں بہت قریب رہے ہیں لیکن گزشتہ ایک صدی میں یہ قربت کم ہو گئی ہے۔ لہذا ہمیں بنیادی طور پر مغربی ایشیا اور باقی ایشیائی ممالک کے مابین تعلقات معلومات اور خیالات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم بنانا چاہیے۔ ایشیا مڈل ایسٹ فورم اسی طرح کا ایک پلیٹ فارم ہے۔
آپ نے اپنی زندگی کے چند سال ہندوستان میں بھی گزارے ہیں۔ ہندوستان میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
میں ہندوستان کو اپنا دوسرا وطن سمجھتا ہوں کیونکہ میں نے گریجویشن اور ماسٹرز وہیں سے کیا ہے۔ کسی کی بھی زندگی کا یہ دور سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس کے بعد بھی میں اکثر ہندوستان آتا رہا ہوں۔ میں وہاں کی کئی ریاستوں میں رہا ہوں اور پورے ہندوستان میں میرے بہت سے دوست ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کے ساتھ ہمارے مضبوط تاریخی رشتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ ہماری تہذیب کا ایک ستون تھا۔ پھر ہندوستان کے ساتھ ہماری بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ میں ہندوستان کے بارے میں مثبت یادیں اور خیالات رکھتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ہندوستانی عوام ہمیشہ پرامن اور خوشحال رہیں۔
ہندوستانیوں کے لیے کوئی پیغام؟
ضرور! میرے ہندوستانی بھائی امن اور ہم آہنگی کی ایک اچھی مثال بنائیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ دنیا میں ہر جگہ گاندھی اور نہرو جیسے عظیم لوگوں اور دیگر ہندوستانی شخصیات کی عزت و تکریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہندوستانی اپنی داخلی پالیسیوں میں ان نظریات پر قائم رہیں گے اور ہم آہنگی اور اندرونی امن کی بہت اچھی مثال پیش کریں گے۔
***
ہم ان لوگوں کا بے حد شکریہ ادا کرتے ہیں۔ نہ صرف اس لیے کہ یہ ان کی اسلامی حرمت ہے بلکہ اس لیے کہ ہمارے لیے اسلام صرف ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ایک نظریہ ہے اور مسلمان محض ایک کمیونٹی نہیں بلکہ نظریاتی گروہ ہے۔ یہ آزادی، انصاف اور مساوات جیسے بلند خیالات کا ایک گروپ ہے۔ لہٰذا یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی ہے جو فلسطینیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ وہ دراصل ان کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ وہ حق پر ہیں اور اس لیے کہ انہوں نے جبر کا سامنا کیا ہے، اس کے لیے ہم ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہم ان سے درخواست بھی کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا میں انصاف اور آزادی کے لیے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموش رہنا دراصل ایک اور جنگ کا انتظار کرنا ہے۔ یہ انسانیت کے ساتھ نا انصافی ہے اور امن کے معاملے میں فلسطینی عوام کا ساتھ نہ دینے سے یہ خطرہ دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2022