شبانہ جاوید ،کولکاتا
آسامیوں کو سی اے اے کے سبب اپنی تہذیب و ثقافت کے خطرے میں پڑنے کا اندیشہ لاحق
شہریت ایک ایسا لفظ ہے جو انسان کی پیدائش کے ساتھ سے ہی جڑ جاتا ہے اور یہ شہریت ہی ہے جو انسان کے کلچر اور تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔ لیکن اگر آپ شہریت کے لفظ سے ہی محروم رہ گئے ہیں تو گویا کھلا آسمان ہے جس کے نیچے اپ کو ر چھپانے کے لیے جگہ میسر نہیں ہے، کوئی ریاست اور کوئی ملک نہیں جس کے اپ شہری ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کی پیدائش کے ساتھ ساتھ اس کی شہریت کا سرٹیفیکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اسی شہریت کو لے کر ان دنوں ہنگامہ برپا ہے۔ یہ نہیں کہ ملک کے لوگوں کی شہریت ختم کی جا رہی ہے لیکن جو سی اے اے قانون لاگو کیا گیا ہے اس کئی سوالات کھڑے ہوئے ہیں اور ملک بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ سوال ہے کہ اس قانون کو لے کر ملک میں احتجاج کیوں ہو رہا ہے جبکہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس قانون کے ذریعہ لوگوں کو تحفظ دے رہی ہے، ایسے لوگوں کو تحفظ دے رہی ہے جو ہندوستان کی شہریت لینے کے خواہش مند ہیں لیکن یہ کیسا قانون ہے کہ جس میں فرقہ پرستی کی بو آتی ہے؟ جس کے تحت بدھوں، سکھوں، ہندوؤں، عیسائیوں اور پارسیوں سمیت چھ مذاہب کے لوگوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو سرے سے ہی خارج کر دیا گیا ہے؟ 2019 میں سی اے اے بل پاس کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ملک میں ہونے والے احتجاج کے بعد اسے لاگو نہیں کیا گیا۔ اب ایسے وقت میں جب کہ ملک میں لوک سبھا الیکشن کے لیے فقط ایک مہینے کا ہی وقت بچا ہے اس بل کو راتوں رات نافذ کر دیا گیا۔ نتیجہ میں اس بل کی مخالفت میں لوگ سڑکوں پر ہیں۔الیکشن کے پیش نظر مختلف مسائل پر سوالات کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے علاوہ تمام لیڈر جو ووٹ مانگنے کے لیے لوگوں کے پاس جائیں گے ان سے سوالات کیے جاتے ہیں، پانچ برسوں کا حساب مانگا جاتا ہے اور اسی حساب کتاب کی بنیاد پر لوگ اپنے ووٹ دینے کے حق کا استعمال کرتے ہیں لیکن ان تمام مسائل کو در کنار کرتے ہوئے ان دنوں ملک میں سی اے اے کا غوغا زور و شور سے اٹھایا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ احتجاج بنگال کیرالا اور آسام میں ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ آسام میں سی اے اے کا شور کوئی نیا نہیں ہے۔ آسام میں لگاتار احتجاج ہو رہے ہیں۔ تین پٹیشنز بھی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہیں۔ سی اے اے کے خلاف لوگ سڑکوں پر ہیں۔ وہ سی اے اے کی کاپیاں جلا کر احتجاج کر رہے ہیں اور اسے ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں۔ آسام میں احتجاج اتنا شدید ہے کہ حکومت نے احتجاجیوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں انہیں نوٹس بھیجی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران جو کچھ بھی سرکاری املاک کو نقصان پہنچے گا اس کی تلافی ان کے گھر بار بیچ کر کی جائے گی۔ یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ آسام میں احتجاج کرنے والوں کے لیے عارضی جیل بھی بنائے گئے ہیں۔ وہیں بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے بھی صاف طور پہ کہا ہے کہ وہ سی اےاے لاگو نہیں کریں گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر سی اے اے کا یہ قانون مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا ہے تو وہ اس کو اپنی ریاست میں نافذ نہیں کریں گی۔ اور کیرالا حکومت نے بھی کچھ ایسا ہی اعلان کیا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر سی اے اے کو لے کر آسام اور بنگال میں کیوں شدید احتجاج ہو رہا ہے اور ان دونوں ہی ریاستوں میں سی اے اے کا کیا اثر پڑے گا؟ اگر ہم آسام کی بات کریں تو یہاں برسوں پہلے یہ تحریک چلائی گئی تھی کہ آسام کی آبادی بڑھ رہی ہے کیونکہ بنگلہ دیش سے آئے ہوئے لوگوں نے یہاں پناہ لے رکھی ہے جس سے آسام کے اصل شہریوں کی پہچان ختم ہو رہی ہے اس لیے ایسے لوگوں کی نشان دہی کی جائے اور انہیں باہر نکالا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں این آر سی کا راگ بہت پرانا ہے اور آسام حکومت نے پچھلے دنوں جو این آر سی کی فہرست جاری کی تھی اس میں سے تقریباً 19 لاکھ لوگوں کے نام غائب تھے جبکہ 3.29 کروڑ لوگوں نے اس کے لیے درخواست دی تھی جن میں 19 لاکھ لوگوں کو غیر ملکی تسلیم کیا گیا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان 19 لاکھ لوگوں میں 13 لاکھ بنگالی ہندو شامل ہیں جس پر سرکار کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب سی اے اے کا قانون لاگو کیے جانے کے بعد یہاں زبردست احتجاج اس لیے بھی ہو رہا ہے کہ مختلف تنظیمیں یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ جنہیں این آر سی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا یعنی غیر ملکی تسلیم کیا گیا ہے انہیں باہر نکالنے کے لیے سرکار نے کوئی اقدامات نہیں کیے بلکہ سی اے اے کے ذریعہ انہیں شہریت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پروفیسر محمد آزاد نے کہا کہ آسام کے احتجاج میں کوئی خاص فرقے کے لوگ شامل نہیں ہیں بلکہ یہاں کے مقامی لوگ اس احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں۔ لوگوں میں سی اے اے کو لے کر اس قدر ناراضگی ہے کہ آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما نے گزشتہ دنوں دعویٰ کیا کہ آسام میں CAA مکمل طور پر غیر اہم ہے کیونکہ یہاں سے ہندوستانی شہریت کے لیے درخواستوں کی تعداد سب سے کم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ شہریت کی درخواست کی کٹ آف تاریخ 31 دسمبر 2014 ہے اور آسام میں شہریوں کے قومی رجسٹر کی تازہ کاری کے ساتھ جن لوگوں نے اس کے لیے درخواست دی اور اس فہرست میں انہیں اپنا نام نہیں ملا، وہ صرف CAA کے لیے درخواست دیں گے۔ یعنی 19 لاکھ لوگوں کو سی اے اے کے لیے درخواست دینے والے نئے لوگوں میں شامل نہیں کیا جائے گا جبکہ بنگال کی اگر بات کی جائے تو یہ بنگلہ دیش کا سرحدی علاقہ ہے یہاں متوا سماج کے لوگوں کو فائدہ ملنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ بی جے پی نے متوا سماج کو یہی بھروسا دلایا ہے کہ سی اے اے کے ذریعہ انہیں شہریت مل جائے گی۔ متوا سماج کے بل پر بی جے پی نے گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں کچھ سیٹیں حاصل کی تھیں ان میں ندیا کی سیٹیں اور 24 پرگنہ کی سیٹیں شامل ہیں جہاں بی جے پی کو کامیابی ملی تھی لیکن پنچایت الیکشن میں یہاں ترنمول کانگریس نے اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی۔ ایسے میں متوا سماج ایک بار پھر بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے جبکہ بنگلہ دیش کا سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں بنگلہ زبان بولنے والے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی ہونے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سی اے اے کا قانون ان مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سی اے اے کے خلاف سخت ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور خود وزیر اعلی ممتا بنرجی بھی اسی مذہبی بھید بھاؤ کی بنیاد پر سی اے اے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ ایسے میں احتجاج کرنے والی تنظیموں کو وزیر اعلی کی جانب سے امید ہے کہ وہ ان کا ساتھ دیں گی۔
واضح ہو کہ دسمبر 1955 کو ہندوستانی شہریت کے حصول اور تعین کے لیے ایک قانون بنایا گیا تھا جس کے تحت اگر کوئی بھارت میں جنم لیتا ہے اور پیدائش کے وقت اس کے والدین میں کوئی ایک بھی بھارتی ہو تو وہ بھارتی شہری شمار کیا جائے گا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ جن کے پاس بھارتی پاسپورٹ نہیں اور وہ غلط دستاویزات کے ساتھ بھارت میں رہ رہے ہیں یا بھارت میں رہنے کی ان کی مدت ختم ہو چکی ہے تو وہ غیر قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن ہیں۔ لیکن اب سی اے اے کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے غیر مسلم شہری جن کے پاس کوئی دستاویزات نہیں بھی ہوں گی تو بھی انہیں غیر قانونی نہیں مانا جائے گا۔ اور 31 دسمبر 2014 تک آنے والے ایسے تمام لوگوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کر لیا جائے گا۔ اسی فیصلے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
اب ایک سوال یہ ہے کہ آخر اس قانون سے مسلمانوں کو الگ کیوں رکھا گیا ہے؟ اس قانون کی بنیاد مذہبی بھید بھاؤ پر کیوں رکھی گئی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ، تاکہ مسلمانوں کی گردن پر شہریت ثابت کرنے کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہے۔ چار سال پہلے یہ قانون بنایا گیا تھا اور لوک سبھا الیکشن سے پہلے اسے ملک بھر میں لاگو کر دیا گیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ملک میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں سی اے اے کا اثر نہیں ہوگا۔ ملک کے شمال مشرق کے زیادہ تر آدیواسی علاقوں کو سی اے اے سے الگ رکھا گیا ہے۔ ان میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جنہیں بھارتی آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت اہم درجہ حاصل ہے۔ ساتھ ہی سی اے اے ان علاقوں میں بھی شامل نہیں ہوگا جہاں بھارت کے دیگر علاقوں سے آنے والے لوگوں کو داخلے کی خصوصی منظوری یعنی Inner Line Permit کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ایک آفیشل سفری دستاویزات ہے جو ریاستی حکومت جاری کرتی ہے جس کے تحت ہندوستانی شہری ایک خاص وقت کے لیے ان علاقوں میں قیام کر سکتے ہیں اس کے لیے ویزا کی جانکاری، دو تصاویر اور پاسپورٹ سائز فوٹو کی ضرورت پڑتی ہے نیز، درخواست کے کوئی فیس بھی نہیں لی جاتی ہے۔ ملک بھر میں ناگالینڈ، اروناچل پردیش، میزورم اور منی پور جیسی ریاستیں وہ علاقے ہیں جہاں سی اے اے لاگو نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ آسام کے Karbi Anglong ۔ Dima Hasao ۔Bodoland Territorial Council کے علاقے میگھالیہ کے Garo Hills اور تریپورہ کے آدیواسی علاقے بھی چھٹے شیڈول کے تحت آتے ہیں، لہٰذا یہاں بھی سی اے اے لاگو نہیں ہوگا۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایک ملک اور ایک قانون کی وکالت کرنے والی بی جے پی خود مخصوص اور حساس معاملوں میں اپنے عمل سے تضاد پیدا کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور انہیں خوف زدہ کرنا ہے؟ لہٰذا ایسے کالے قوانین کے خاتمے کے لیے ملک کے ہر شہری کو میدان میں اترنا چاہیے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024