محمد آصف اقبال، نئی دہلی
مسلمانوں کو مایوسی و غفلت سے باہر نکلنے کی ضرورت
بھارت میں ایک طویل عرصہ سے نفرت کو فروغ دینے کی جو منظم و منصوبہ بند کوششیں ہوئی ہیں ان کا اظہار وقتاً فوقتاً مختلف شکلوں میں ہوتا رہا ہے اور سماج کے مختلف طبقات و مذاہب کے درمیان دوریاں پیدا کرنے میں یہ منصوبہ بہت کارگر بھی ثابت ہوا ہے۔ دلی کا حالیہ واقعہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ یہ واقعہ اندر لوک علاقے میں پیش آیا جہاں مسجد کی جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے جلد بازی میں سڑک پر نماز جمعہ ادا کی جس پر ایک پولیس سب انسپکٹر نے ایک نمازی کو جو حالت سجدہ میں تھا، لات ماری جس کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے۔ اس واقعہ پر لوگ سخت ناراض ہوئے اور مقامی تھانے کے باہر جمع ہو کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ جس کے بعد متعلقہ پولیس سب انسپکٹر کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے معطل کر دیا گیا ہے۔ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی لوگ سڑک کے کنارے اپنی اپنی جائے نماز بچھا کر صف باندھے نماز ادا کر رہے ہیں کہ اسی دوران ایک پولیس اہلکار وحشیانہ انداز میں انہیں لاتیں مارنا شروع کر دیتا ہے۔
اس گھناونے واقعہ کو نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک کے بے شمار اخبارات، نیوز پورٹل اور ڈیجٹل میڈیا پلیٹ فارمس پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ساتھ ہی جس طرح معروف اخبارات نے اس کا احاطہ کیا ہے اْس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے اندر مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت پر مبنی فضا نے چہار جانب موجود خوش گوار فضا کو مزید خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس واقعہ کو صحافی حضرات اور عوام کس نظریہ سے دیکھتے ہیں یہ اہم بات ہے۔ کیونکہ صحافی خود اپنے آپ میں ایک فکر سے کسی نہ کسی سطح پر وابستہ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک صحافی ملک اور معاشرے کی فکری، نظریاتی اور سماجی رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں کوئی بھی واقعہ دیگر سوچنے سمجھنے والوں کے لیے بہت سے پیغامات اپنے اندر لیے ہوئے ہوتا ہے جس کی بنا پر ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک کے نظام اور وہاں کے معاشرے اور افراد کے تعلق سے رائے قائم کرتے ہیں۔ یہ رائے مختلف زاویوں سے مثبت بھی ہوتی ہے اور منفی بھی۔
واقعہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بی بی سی کے نامہ نگار دلنواز پاشا نے لکھا کہ پولیس کے اس ناروا سلوک کے بعد لوگ علاقے کے میٹرو اسٹیشن کے گرد جمع ہونے لگے اور مظاہرہ شروع کر دیا جو شام 6 بجے کے بعد ختم ہوا۔ شمالی دلی کے ڈی سی پی منوج کمار مینا نے انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا ’اس ویڈیو میں نظر آنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور پولیس چوکی کے انچارج کو معطل کر دیا گیا ہے۔ جائے وقوع پر موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ دلی پولیس نے اسرائیل کا رول ماڈل اپنا لیا ہے اور وہ اسی طریقے پر کام کر رہی ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں نے پولیس کے دوہرے رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ فیض الحق نامی ایک صارف نے پولیس اہلکاروں کی کانوڑیوں (ہندو عقیت مندوں) پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کی اور لکھا: ’دو انڈیا۔ دلی پولیس اندر لوک دلی میں نماز ادا کرنے والے لوگوں کو لات مارتی ہے جبکہ پولیس سڑک کے بیچوں بیچ کانوریوں کا پھولوں کے ساتھ استقبال کرتی ہے‘ بی بی سی نے اس حوالے سے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں پروفیسر محمد سہراب سے بات کی تو انہوں نے کہا: ’یہ پولیس ایکشن جبر کی واضح مثال ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں ایک سرکاری اہلکار مجموعی حساسیت کے احساس سے بالکل بے بہرہ نظر آ رہا ہے۔ اسے اس بات سے بالکل کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کن لوگوں کے خلاف ایکشن لے رہا ہے۔ اس میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ پولیس کا ایکشن درآمد کیے گئے ایک ماڈل کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو انڈین نہیں ہے‘۔ DW یعنی ڈوئچے ویلے (Deutsche Welle) جرمنی کا بین الاقوامی براڈکاسٹر اور سب سے کامیاب بین الاقوامی میڈیا آؤٹ لیٹس میں سے ایک ہے۔وہ اپنی رپورٹس میں ‘بھارتی مسلمان بلڈوزر کلچر کی زد میں’ کی ہیڈنگ کے تحت 9؍ فروری 2024 کی رپورٹ میں اتر اکھنڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے : واضح رہے کہ ایک روز قبل ہی ریاست اتر اکھنڈ کی ہندو قوم پرست حکومت نے یونیفارم سیول کوڈ سے متعلق ایک بل منظور کیا تھا، جس کی بھارتی مسلمانوں نے شدید طور پر مخالفت کی اور اس کے خلاف مہم چلانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ دو روز قبل ہی حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو منہدم کرنے سے متعلق رپورٹیں جاری کیں اور بھارتی حکام سے مسلمانوں کی املاک کی ”غیر قانونی” مسماری کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانچ ریاستوں، آسام، گجرات، مدھیہ پردیش، اتر
پردیش اور دلی میں حکام نے مذہبی تشدد یا حکومت کی تفریقی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے واقعات کے بعد ’سزا‘ کے طور پر ان کی املاک کو مسمار کر دیا گیا۔ بیشتر واقعات میں ایسا وزیر اعظم مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، جس پر مسلم مخالف بیان بازی کا الزام لگایا جاتا ہے، اس کے زیر اقتدار ریاستوں میں ہی ایسا کیا جاتا ہے۔ بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلڈوزر بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی ایک نئی علامت بن چکا ہے۔ بالخصوص یوگی آدتیہ ناتھ کے اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے، جنہوں نے فوری انصاف کی فراہمی کے نام پر ملزمین کی املاک کو مسمار کر دینے کی پالیسی شروع کی۔ ان کے بعد بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں بھی اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ قانونی ماہرین اسے بھارتی قانون کے خلاف قرار دیتے ہیں اور عدالت عظمیٰ نے بھی اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن اس کے باوجود ‘بلڈوزر انصاف’ کا سلسلہ جاری ہے۔
اسی ویب سائٹ پر 2023 کی ہندتو واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 70 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے، جہاں اگلے چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران مسلم مخالف تقاریر کے 255 معاملات درج کیے گئے۔ واشنگٹن میں قائم ہندتو واچ نامی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف روزانہ اوسطاً ایک سے زیادہ مرتبہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اور یہ صورت حال ان ریاستوں میں زیادہ نمایاں رہی جہاں اگلے چند ماہ کے دوران ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر نفرت انگیز تقریروں کے دوران سازشی نظریات کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ مقررین نے ہندووں سے مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ان کے سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔ہندتو واچ کے مطابق اس نے ہندو قوم پرست گروپوں کی آن لائن سرگرمیوں کا سراغ لگایا، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی نفرت انگیز تقاریر کی تصدیق شدہ ویڈیوز دیکھیں اور میڈیا میں رپورٹ کیے گئے واقعات کی بنیاد پر اپنی یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ اس صورتحال میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت سن 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نفرت انگیز تقریروں کے ذریعہ ہندو ووٹروں کی صف بندی کرنا چاہتی ہے۔
1843 میں قائم ہونے والا The Economist اخبار جو بین الاقوامی آزاد عالمی میڈیا اور معلوماتی خدمات فراہم کر رہا ہے اس کی ویب سائٹ پر ‘ ہندتو کیا ہے، ہندوستان کی حکمران جماعت کا نظریہ ہندوستانیت کو ہندومت کے ساتھ مساوی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔’عنوان پر شائع ہونے والے مضمون میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں قومی انتخابات سر پر ہیں۔ ووٹروں کے اپریل اور مئی میں انتخابات میں جانے کی امید ہے۔ نریندر مودی، وزیر اعظم کا عہدہ تیسری بار حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی مذہبی عقیدت کو نبھا رہے ہیں۔ 22؍ جنوری کو وزیر اعظم مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کیا۔ ایک شہر جو کہ عقیدت مندوں کے نزدیک ہندو دیوتا کی جائے پیدائش ہے، وہاں یہ مندر ایک صدیوں پرانی مسجد کی جگہ پر بنایا گیا تھا، جسے 1992 میں ایک ہندو قوم پرست ہجوم نے ڈھا دیا تھا۔ تقریب کے بعد حامیوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے دعوی کیا کہ نئی تعمیر "صرف ایک مقدس مندر نہیں” بلکہ "ہندوستان کے نقطہ نظر، فلسفہ اور سمت کا ایک مندر” ہے۔ اس موقع پر اخبار سوال اٹھاتا ہے کہ اس کا کیا مطلب تھا؟ اور سوال اٹھا کر وہ خود ایک سمت کی جانب اشارہ کرکے جواب کی تلاش میں خاموش ہوجاتا ہے۔ پھر مزید آگے لکھتا ہے کہ ’’ہندو ازم اور ہندوستان کو اس طرح مساوی کرنا وزیر اعظم مودی کے نظریہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے: ہندتو یا ’’ہندویت‘‘۔ ہندتو کے ماننے والے، بشمول مسٹر مودی کی بی جے پی کے بہت سے ارکان، ہندوستان میں ہندو ازم کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ اس حد تک کہ وہ ہندو اور ہندوستانی ثقافت کو مترادف سمجھتے ہیں۔ ناقدین کو خدشہ ہے کہ بی جے پی کا مقصد 1.4 بلین آبادی والے ملک کو، جن میں سے 80 فیصد ہندو ہیں، ایک سیکولر ریاست سے ہندو ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ بی جے پی کے عہدیدار اس سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ہندو قومی شناخت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو صدیوں سے مسلمان اور برطانوی حملہ آوروں کے ہاتھوں دبائے ہوئے ہے۔
اور تازہ خبر یہ ہے کہ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنیچر کو ارون گوئل کے استعفے کے بعد اب الیکشن کمیشن میں صرف ایک عہدیدار رہ گیا ہے۔ انڈیا کا الیکشن کمیشن تین ممبروں پر مشتمل ہے۔ وزارت قانون و انصاف نے کہا ہے کہ انڈین صدر دروپدی مرمو نے ارون گوئل کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے تاہم، استعفیٰ دینے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔ کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری کے سی
وینوگوپال نے گوئل کے استعفے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی صحت کے لیے انتہائی تشویشناک ہے کہ الیکشن کمشنر ارون گوئل نے لوک سبھا (پارلیمانی) انتخابات کے موقع پر استعفیٰ دے دیا ہے۔‘
تو مضمون کا آغاز جہاں ایک جانب نفرت کے پھیلتے ہوئے ناسور سے کیا گیا ہے وہیں اختتام ہندوستان میں جمہوریت اور الیکشن 2024 کے تعلق سے بڑھتی ہوئی دھند اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پوشیدہ تشویش پر ختم ہو رہا ہے۔ یہ کل تصویر ملک ہی بلکہ بیرون ملک بھی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ نفرت کب اور کیسے ختم ہوگی اور جمہوریت جو ہندوستان کی پہچان رہی ہے اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ معاملات اگرچہ توجہ طلب ہیں لیکن مایوسی کن نہیں ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ موجودہ صورتحال ملک کے مسلمانوں و دیگر طبقات کے لیے چیلنج سے بھرپور ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ چیلنجز ہی مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا مواقع کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ہمت و حوصلہ کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے توجہ کرنی چاہیے کیونکہ مایوسی اور غفلت انسان کو انفرادی اور اجتماعی ہر دو سطحوں پر ناکامیوں سے دوچار کرتے ہیں۔
***
نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 70 فیصد واقعات ان ریاستوں میں ہوئے، جہاں اگلے چند ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران مسلم مخالف تقاریر کے 255 معاملات درج کیے گئے۔ واشنگٹن میں قائم ہندتو واچ نامی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف روزانہ اوسطاً ایک سے زیادہ مرتبہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں ۔زیادہ تر نفرت انگیز تقریروں کے دوران سازشی نظریات کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ہندتو واچ نے ہندو قوم پرست گروپوں کی آن لائن سرگرمیوں کا سراغ لگایا، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی نفرت انگیز تقاریر کی تصدیق شدہ ویڈیوز دیکھیں اور میڈیا میں رپورٹ کیے گئے واقعات کی بنیاد پر اپنی یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ اس صورتحال میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نفرت انگیز تقریروں کے ذریعہ ہندو ووٹروں کی صف بندی کرنا چاہتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024