انتخابات اور مسلم ووٹرز: تلنگانہ کے تناظر میں
حق رائے دہی کا استعمال کرکے فسطائی طاقتوں کو روکنے کی ضرورت
زعیم الدین احمد حیدرآباد
نومبر میں ملک کی جن پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ان میں ہماری حذف تلنگانہ بھی شامل ہے۔ ریاست میں انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں ویسے ویسے پارٹیوں کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ تیس نومبر کو یہاں انتخابات ہونے والے ہیں۔ انتخابی جلسے، جلوس، ریلیاں، امیدواروں کے پیدل دورے، لوگوں سے وعدے، پارٹیوں کے منشور، فلاحی اسکیموں کے اعلانات کی گویا باڑھ آئی ہوئی ہے۔ امیدوار اس مدت میں اپنی جیت کو یقینی بنانا کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ انتخابات میں یہی نہیں ہوتا کہ دل کو لبھانے والی اسکیموں کا اعلان ہوتا ہے بلکہ ووٹروں کو پیسے کا لالچ دیا جاتا ہے، شراب کے ذریعے لبھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ووٹوں کو خریدا جاتا ہے، کہیں ووٹ کی قیمت ایک ہزار ہے تو کہیں پانچ ہزار اور کہیں دس ہزار تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
چند ماہ قبل تک ریاست کی سیاسی صورت حال بالکل مختلف تھی، عوام یہی سمجھ رہے تھے کہ ریاست میں بی آر ایس کا کوئی متبادل نہیں ہے، اور بادی النظر میں بی آر ایس کے مقابلے میں کوئی سیاسی قوت نظر بھی نہیں آ رہی تھی، کیوں بی آر ایس نے ریاست میں اپوزیشن کا صفایا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ جیسے ہی کرناٹک میں کانگریس نے جیت درج کی تلنگانہ میں بھی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو گیا، جیسے ہی وہاں کانگریس پارٹی کی حکومت بنتے ہی یہاں کی بے جان کانگریس میں جان آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ تلنگانہ کے مسلمانوں میں ایک قسم کا تذبذب پایا جاتا ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں کس کے حق میں رائے دہی کریں؟
اکثر انتخابات میں مسلم تنظیمیں مسلمانوں کی رہنمائی کرتی ہیں، لیکن کچھ عرصے سے یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ مسلم تنظیمیں بھی متحدہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہیں یا پھر وہ کسی مخصوص سیاسی پارٹی کے دباؤ میں نظر آتی ہیں۔ درحقیقت ریاست میں مسلمانوں کا ایسا کوئی متحدہ فورم نہیں ہے جو نازک موقعوں پر ملت کی صحیح رہنمائی کرے۔ بہتر ہوتا کہ مسلمانوں کا کوئی ایک متحدہ فورم ہوتا جس کے ذریعے سے ملت کے مسائل پر غور کیا جاتا اور کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ اس وقت مسلم ووٹ دو پارٹیوں یعنی بی آر ایس اور کانگریس میں بٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں، کیوں کے دونوں ہی سیکولر پارٹیاں ہیں۔ مسلمانوں کی الجھن یہی ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں۔ مسلمانوں نے سابق میں ان دونوں پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے اس لیے دونوں ہی پارٹیاں مسلم ووٹروں کو لبھانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ کوئی قبرستان کی زمین دینے کی تو کوئی ریزرویشن دینے کی بات کہہ رہا ہے، اسی وجہ سے مسلمانوں کا نصف حصہ بی آر ایس کی تائید میں ہے اور نصف حصہ کانگریس کی تائید میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس طرح مسلم ووٹوں کی تقسیم کو روکا جائے؟ کیسے مسلم ووٹ کسی ایک پارٹی کے حق میں ہوں تاکہ ووٹوں کی تقسیم سے کسی فسطائی پارٹی کو فائدہ نہ ہو۔ اس موقع پر مسلم ووٹروں کو اپنے طور پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان کے اور ان کے بچوں کے مستقبل کے لیے کون سی پارٹی اور کون سا امیدوار مناسب رہے گا۔
گزشتہ نو سالوں سے ریاست میں بی آر ایس برسرِ اقتدار ہے، جو اس پارٹی کے حق میں ہیں انہیں اس کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ عمومی طور پر یہ حکومت عوام کے لیے کتنی سود مند رہی اور خاص طور پر مسلمانوں کے لیے اس کا اقتدار پر رہنا کتنا فائدہ مند ہوگا، اس پر غور کرکے تائید و مخالت کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ کے سی آر اور ان کی حلیف جماعت حکومت کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بی آر ایس کی حکومت میں ایک بھی فساد نہیں ہوا، مسلمان یہاں محفوظ ہیں۔ اس بیانیہ سے وہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں معلوم نہیں۔ کیا وہ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں یا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر دوبارہ ہم کو حکومت کی باگ ڈور نہیں دی گئی تو ریاست کے امن و امان کو خراب کردیں گے؟ سوال یہ ہے کہ اس بیانیہ کی کچھ حقیقت بھی ہے یا محض مسلمانوں کو خوف دلانے کے لیے دیا گیا ایک جملہ ہے؟ اس سے پہلے کانگریس کے دور اقتدار میں کتنے فسادات ہوئے یا اس سے بھی قبل تلگو دیشم کی حکومت میں کتنے فسادات ہوئے؟ یہ سوال ہونا چاہیے، محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا۔ بنیادی طور پر شمالی ہند کی بہ نسبت جنوبی ہند کی ریاستوں میں ابتدا ہی سے فرقہ وارانہ فسادات کم ہی ہوئے ہیں، جب متحدہ آندھراپردیش ریاست تھی اس وقت بھی صرف حیدرآباد کے کچھ علاقے میں فساد ہوا، لیکن ریاست کے کسی دوسرے حصہ میں اس کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا یہ دعوٰی کرنا کہ پچھلی حکومتوں میں جس طرح فسادات ہوتے تھے اس طرح ہمارے دورِ حکومت میں نہیں ہوئے، سرے سے غلط ہے۔
بی آر ایس کے دور حکومت میں شعبہ تعلیم کی صورت حال
جب سے بی آر ایس اقتدار میں آئی ہے، تعلیم اس کی ترجیحات میں نہیں رہی، اس کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دور حکومت میں تقریباً 4481 سرکاری اسکولس بند ہوگئے ہیں یا بند کرنے کی کارروائی شروع ہوگئی ہے، کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس اسکول میں 60 بچوں سے کم اندراج ہوتا ہے اس کو بند کردیا جاتا ہے۔ محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق 12 ہزار 178 اسکول ایسے ہیں جن 60 سے کم بچوں کا اندراج ہوا ہے، یعنی اصولاً یہ سارے اسکول بند ہونے چاہئیں۔ لہٰذا حکومت نے یہ راستہ نکالا کہ بجائے اس کے کہ ان اسکولوں کو بند کر دیا جائے ان کو کسی قریبی سرکاری اسکول میں ضم کردیا جائے تاکہ وہ بند ہونے سے بچ جائیں۔ چنانچہ ریشنلائزیشن کے نام پر 4 ہزار 4 سو 81 اسکولس بند کردیے گئے۔ ترقی کے بلند بانگ دعوے کرنے والے اس کا کیا جواب دیں گے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اسکولوں میں غریب عوام کے طلبا ہی پڑھتے ہیں، اور ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت غریب ہے۔ ان اسکولوں میں کئی اردو میڈیم اسکول بھی شامل ہیں۔ کیا تائید و مخالفت کرنے والے اس کا جائزہ لے رہے ہیں؟ محض جذباتی وابستگی کی بنیاد پر کسی کی تائید و مخالفت کرنا تو کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے۔
صحت کے میدان میں اس حکومت میں کافی ترقی ہوئی ہے، پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں اس حکومت نے اس شعبے پر کافی توجہ دی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں تلنگانہ کا درجہ بڑی ریاستوں کے زمرے میں تیسرا ہے۔ کیرالا اور تمل ناڈو کے بعد تلنگانہ کا نام آتا ہے، لیکن کارکردگی کے لحاظ سے دوسرے اور تیسرے نمبر میں کافی دوری پائی جاتی ہے۔ اس حکومت نے دیہی علاقوں میں طبی سہولیات نہیں بہم پہنچائی ہیں، اس کے بجائے ریاست بھر میں طبی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں، ساری ترقی دارالحکومت حیدرآباد تک ہی مرکوز رہیں، اور یہ سہولتیں بھی حیدرآباد کی عوام کو بھر پور طریقے سے میسر نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ خانگی دواخانوں کا ایک جال ریاست بھر میں بجھا ہوا ہے۔ خانگی دواخانوں پر بات کی جائے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خانگی دواخانوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، اس لیے کھلے عام ان کی ڈاکہ زنی اور لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی ایک دواخانے تو خود لیڈروں کے ہیں، بھلا ان خانگی دواخانوں کے مقابلے میں سرکاری دواخانے کیسے چلیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جن امراض کا علاج خانگی دواخانوں میں ہوتا ہے ان کا علاج سرکاری دواخانوں میں کیوں نہیں ہوتا؟ جو سہولتیں خانگی دواخانوں میں میسر ہیں وہ سہولتیں سرکاری دواخانوں میں کیوں میسر نہیں؟ یہ سوالات ہر ایک کے ذہن میں ہونے چاہئیں۔ ووٹ دیتے وقت انہیں اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔
ملازمت کے مواقع فراہم کرنا
سرکاری یا غیر سرکاری ملازمت فراہم کرنے میں جس طرح مرکزی حکومت ناکام رہی ہے بالکل اسی طرح ریاستی حکومت بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ نو سالوں میں اس حکومت نے اساتذہ کے تقررات کا عمل نہیں کیا، ایک بھی ڈی یس سی کا امتحان منعقد نہیں کیا نہ ہی لیکچرروں کا تقرر ہو پایا ہے۔ طبی شعبے میں بھی کوئی تقررات نہیں ہوئے ہیں، صرف کنٹراکٹ کی بنیاد پر کام چلایا جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر ریاست میں حیدرآباد سنٹرک ترقی ہوئی ہے، شہر میں تعمیراتی ترقی ہوئی ہے، آب پاشی کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کیا گیا، ڈیموں کی تعمیر کی گئی، اس سے کنٹراکٹروں کو فائدہ ہوا ہے، پھر چاہے فلائی اووروں کی تعمیر ہو یا سڑکوں کی تعمیر، اس کا راست فائدہ تو کنٹراکٹروں کو ہی ہوگا۔ اس کے برعکس عوام کو راحت پہنچانے والے منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی نہ تعلیم کے شعبے پر اور نہ طب کے شعبے پر توجہ دی گئی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں کیا کرتی رہی ہیں؟ ایک مماثلت بی جے پی کی مرکزی حکومت اور ریاست میں بی آر ایس پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے ممبروں کو خرید کر اپنی پارٹی میں شامل کرلیا جائے تاکہ کوئی مخالف باقی نہ رہے اور وہ من مانی کرسکیں۔ اس طرح کا رویہ نہ جمہوریت کے لیے صحیح ہے نہ ہی ملک کے مفاد میں ہے۔ ایک اور بات مسلمانوں کے تناظر میں یہ ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں بی جے پی کی نفرتی اور فسطائیت سے پُر سیاست کو برداشت نہیں کر سکتے، مسلمان ہمیشہ امن و امان کے طالب رہے ہیں، ان کے برعکس بی جے پی نفرت و شر انگیزی کی پروردہ رہی ہے۔ مسلمان کسی ایسی کسی بات کو برداشت نہیں کرتے جو ان کے تشخص کو ختم کرے اور ایسی کسی بھی پارٹی کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو فسطائی طاقتوں کا سہارا بنے یا ان کا ساتھ دے۔ چنانچہ جو لوگ ریاست تلنگانہ میں بی آر ایس کی مخالفت کر رہے ہیں اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے مرکز میں بی جے پی کی کئی معاملات میں تائید کی ہے، پارلیمنٹ میں جب بی جے پی کو تائید کی ضرورت پڑی اس نے اس کا ساتھ دیا، وہ بہت عرصے تک بی جے پی کی حلیف بن کررہی، در پردہ اس نے بی جے پی کی تائید ہہ کی ہے، کبھی کسی بل کے حق میں ووٹ دیا تو کبھی واک آؤٹ کے ذریعے تائید کی۔ مسلمان ایک اور چیز بھی محسوس کر رہے ہیں وہ یہ کہ ریاست میں اس نے مسلم قیادت کو ابھرنے نہیں دیا، ایک طرح سے بی آر ایس نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وزن کر کے رکھ دیا ہے، اس پارٹی میں مسلم قائدین کا کوئی وزن نہیں ہے، دیگر مسلم مذہبی و سماجی تنظیموں کی ان کے پاس کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے سارے مسائل کو ایک مقامی سیاسی جماعت کے سپرد کردیا تاکہ ان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس پارٹی کے تئیں فکر مند ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی ہے اور چند سیٹوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ایسے موقع پر کیا ہوگا؟ اگلے چند ماہ میں بی جے پی کے ارادے بڑے خطرناک ہیں جو وہ یونیفارم سیول کوڈ جیسے بل پیش کرنے جا رہی ہے اس موقع پر اس کا موقف کیا رہے گا؟ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر سطح پر مسلم قیادت کا ابھرنا بے انتہا ضروری ہے، مسلمانوں کا سیاسی طور پر ابھرنا ناگزیر ہے ورنہ مستقبل میں وہ دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔ پولیٹیکل امپاورمنٹ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بہر حال اس وقت مسلم رائے دہندوں کا متحدہ طور پر اپنی رائے دینا ضروری ہوگیا ہے، ایسے مسلم امیدوار جو کسی سیکولر سیاسی جماعت سے نمائندے ہیں ان کی بھر پور تائید کرنی چاہیے۔ مجموعی طور پر کسی بھی ایسی سیاسی پارٹی کو جو فسطائیت کو فروغ دیتی ہو اور ایسی سیاسی پارٹی کو جو ان کا ساتھ دیتی ہو انہیں رد کر دینا چاہیے اور بہت سوچ سمجھ کر ووٹ دینا چاہیے۔
***
***
تلنگانہ میں مسلمان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ریاست میں مسلم قیادت کو ابھرنے نہیں دیاگیا، ایک طرح سے بی آر ایس نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وزن کر کے رکھ دیا ہے، اس پارٹی میں مسلم قائدین کا کوئی وزن نہیں ہے، دیگر مسلم مذہبی و سماجی تنظیموں کی ان کے پاس کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے سارے مسائل کو ایک مقامی سیاسی جماعت کے سپرد کردیا تاکہ ان کے ساتھ معاملات طے کرنے میں آسانی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس پارٹی کے تئیں فکر مند ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی ہے اور چند سیٹوں کی ضرورت پڑتی ہے تو ایسے موقع پر کیا ہوگا؟ اگلے چند ماہ میں بی جے پی کے ارادے بڑے خطرناک ہیں جو وہ یونیفارم سیول کوڈ جیسے بل پیش کرنے جا رہی ہے اس موقع پر اس کا موقف کیا رہے گا؟ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہر سطح پر مسلم قیادت کا ابھرنا بے انتہا ضروری ہے، مسلمانوں کا سیاسی طور پر ابھرنا ناگزیر ہے ورنہ مستقبل میں وہ دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔ پولیٹیکل امپاورمنٹ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023