انسان، امتحان اور قرآن

اس دن کی تیاری کرلیں جب اعمال تولے جائیں گے

محب اللہ قاسمی

امتحان انسانی زندگی کاجوہرہے ۔یہ سب کے لیےبڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی سے انسان کے اندرنکھار پیدا ہوتا ہے۔ عربی کہاوت ہے : ’’عند الامتحان يكرم المرء أو يهان‘‘ امتحان کے بعد ہی انسان مکرم یا رسوا ہوتا ہے۔
جو لوگ عقلمند ، ہوشیار اور ذی شعورہوتے ہیں،وہ اس کی تیاری کرتے ہیں اور اپنے معیارکوبلندکرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی یہ جدوجہد لائق تحسین ہےجو کامیابی و کامرانی کا پیش خیمہ ہے۔
اب غورکرنے کا مقام ہے کہ کیا اخروی زندگی میں کامیابی کے لیے امتحان ضروری نہیں ہے جس کی تیاری کے لیے خدانے انسان کو پیدا کیا، پوری زندگی عطاکی،تمام ضروریات کی تکمیل کے لیے اسباب وسائل پیداکیے تاکہ اس زندگی میں نمایاں کامیابی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ اس کے لیے قرآن کریم کا نزول فرمایا جو انسانی زندگی کے لیے دستور حیات اور دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کرنے کا نسخہ اور گائیڈ بک یعنی رہنما کتاب ہے؟ کیا انسان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس کی تیاری کرے جس کاانعام دنیوی انعام سے لاکھوں گنا بڑھا ہوا ہے؟ایسے میں اس انسان سے زیادہ بے وقوف وبدحواس کون ہوگا، جو فانی زندگی کی معمولی عیش و عشرت اور چمک دمک میں کھو کر اخروی زندگی کی دائمی خوشحالی کے اس امتحان کو فراموش کر دے اور اس کی تیاری نہ کر کے کمترکوبہترپرترجیح دے ؟
خداکی عطا کردہ یہ زندگی ایک عظیم نعمت ہے جوامتحان کے سادے اوراق کی طرح ہے، جس پر کل مولود یولد علی الفطرۃ کی مہرلگی ہوئی ہے۔ جس کا موضوع لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اورغرض وغایت وَمَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالِانْسَ اِلَّالِیَعُبدُوْن ہے۔ جس مہر کولے کر پیدا ہونے والا ہر فرد بشراس دنیا میں آتا ہے جوکہ دارالامتحان ہے۔
مگر اس کے والدین جومختلف گروہوں خاندان اور مذاہب کے ماننے والے ہوتے ہیں، اس کےصفحہ حیات پر فطرت اسلام کی لگی مہر کو مٹاکرکفروشرک ،یہودیت ونصرانیت وغیرہ کی مصنوعی مہرثبت کردیتے ہیں اور فابواہ یہودانہ یجوسانہ اوینصرانہ کی طرح اسے یہودی یانصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
اس طرح یہ بچہ اپنے والدین کے مذہب میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس کا موضوع اس کی غرض و غایت سب کچھ بدل جاتی ہے۔ پھرجب وہ بڑاہوتا ہے تواپنے آباء واجدادکی تقلید کرتا ہے اور کہتا ہے: حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ اٰبَاۗءَنَا۔ جس پرہم نے اپنے باپ کوپایاوہی ہمارے لے کافی ہے ۔ (المائدہ:104) ۔
اب اگرکوئی غوروفکرکا سہارالیتا ہے اور فطرت اسلام کی مہر کو بدستورباقی رکھنا مناسب سمجھتا ہے جو وضع الشی علی محلہ کا عین مصداق ہے۔ آزمائش اور امتحان کاسلسلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے جو اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔ مگرجب موت آجاتی ہے تواس کے بعدسوائے پچتاوے اور مایوسی کے کچھ باقی نہیں رہتا۔
حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ (مؤمنون: ۹۹) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ اے میرے رب ! مجھے اسی دنیا میں واپس بھیج دے۔
موت کے وقت اس پچھتاوے سے کچھ ہونے والانہیں ہے ۔ اس لیے اسے چاہیے کہ ایمان کے تقاضوں کوعملی طورپرانجام دیتا رہے تاکہ وہ اس کے نامہ اعمال میں درج ہوتاچلاجائے جس میں کامیاب ہونے والے مومن اورناکام ہونے والے کافر دونوں کے سارے معاملوں کا اندراج ہوتاہے۔ پھروہ وقت قابل رشک اور پرملال ہوگا۔ يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ (اٰل عمران: 106) جب کہ کچھ لوگ سرخ رُو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔
اللہ کے قائم کردہ عدل وانصاف کے اس ترازوپرجو کچھ بھی رکھاجائے گا وہ اسے بخوبی دیکھ لے گااور وہ جان لے گا کہ اس نے کیا اچھے اعمال کیے اور کیا برے ۔خواہ وہ ذرے کے برابرہی کیوں نہ ہوں۔
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ – وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ پھر جس نے ذرّہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا، اور جس نے ذرّہ برابر بھی بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔(الزلزال: 7-8)
پھر جس کے نیک اعمال زیادہ ہوں گے اس کا پلڑا بھاری ہوگااورجس کے نیک اعمال کم ہوں گے اس کا پلڑا ہلکا ہوگا جو اس کی کامیابی وناکامی کا معیارثابت ہوگا۔
فَاَمَّا مَنْ ثَــقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ۔ فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ ۔ وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ ۔ فَاُمُّهٗ هَاوِيَةٌ ۔ (القارعۃ:6-9) پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے (جس کا عمل، حق اور وزن دار ہو گا) وہ دل پسند عیش میں ہو گا (جس کا عمل باطل ہوگا) اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے اس کی جائے قرار گہری کھائی ہو گی۔
آخرت میں کامیاب ہونے والوں کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیاجائے گا اور خوشخبری بھی۔ فَبَشِّرْہٗ بِمَغْفِرۃٍ وَأَجْرٍ کَرِیْم ان کا انعام جنت ہوگا۔
اِنَّ اللهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ (الحج :14)
(اس کے برعکس) اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے یقیناً ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اللہ کرتا ہے جو کچھ کہ وہ چاہتا ہے۔
ایسی صورت میں وہ وہاں امن و اطمینان اور سکون کے ساتھ بے خوف و خطر رہیں گے۔
وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ (بقرۃ:262)
وہاں اس کو نہ کوئی خوف ہوگا(کہ کہیں موت اس کے انعام کے تلذذسے محرومی کا سبب نہ بن جائے)اورنہ وہ غمگین ہوں گے کہ(وہاں سے ان کو کچھ زمانے کے بعدنکال دیاجائے گا)
رہے ناکام لوگ توان کو بھی بشارت دی جائے گی مگردردناک عذاب کی۔
فَبَشِّرْہٗ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ (توبہ:۲۴) یہ لوگ اپنے نامہ اعمال کو دیکھیں گے اور کہیں گے۔
يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلَا كَبِيْرَةً اِلَّآ اَحْصٰىهَا ۔ (کہف:۴۹)
ہائے ہماری کم بختی! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہو گئی ہو۔
یہاں ٹھہر کرکچھ سوالات ذہن کے خانے میں گردش کرتے ہیں کہ یہ تقاضے کیا ہیں جو موضوع ،غرض وغایت سب کو محیط ہیں جس کے سبب انسان اتنے بڑے انعام واکرام کا مستحق ہوجاتا ہے؟ اس امتحان کی تیاری کے لیے کوئی توکتاب ہوگی جس کی تھیوری پریکٹیکل کو آسان کرسکے؟ اس کا کوئی ٹیچراورگائیڈہوگا جس سے کچھ نوٹس گیس پیپر(Guess paper) تیارکیے گئے ہوں گے؟ ان سوالات کاپیدا ہونا فطری ہے۔
بہرحال وہ مقتضیات’’آمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ (ایمان لاؤاورنیک کام کرو) گویا اللہ پر ایمان اور نیک کام کی انجام دہی ہیں۔یعنی خداکے وجودکوتسلیم کرنا کہ وہ سارے جہاں کا رب ہے ۔ دنیا کاسارانظام اسی کے حکم سے چل رہا ہے اور محمدﷺکوخدا کابندہ اور اس کارسول ماننا۔ اور یہ اقرارکرنا کہ آپ کا ہرقول فعل دلیل شرعی ہے ۔
وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ اِنْ ہُوَ وَحْیٌ یُوْحیٰ (النجم:۳) وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔
نیک کام انجام دینا کہ اس میں خداکی اطاعت شامل ہے اور برے کاموں سے دامن کو بچا کر رکھنا کہ اس میں خدا کی نافرمانی اور اس کی ناراضی ہے، جو جہنم کا باعث ہے، پھر وہ اس قیمتی زندگی کی نصابی کتاب مقدس قرآن مجید جو در حقیقت ناظم امتحان اور خالق کائنات کاہی کلام ہے، جس کا مقصد لوگوں کو زندگی کی ناکام تاریک کوٹھری سے نکال کر کامیابی کے روشن باب پر لا کھڑا کرنا ہے۔
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاو، ان کے رب کی توفیق سے، اس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔(ابراہیم:1)
اس امتحان کی تیاری کے لیے خدانے گائیڈس اور اساتذہ کے طورپر بہت سارے انبیاء ورسل کو دنیا میں مبعوث کیا ہے جس کی آخری کڑی رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ ہیں جو انسانوں کی جانب سے قرآن کی زبانی اس درخواست پر: اور اے رب ان لوگوں میں خود اِنہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو جو انہیں تیری آیات سنائے ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے (البقرۃ:129) آخری رسول حضرت محمدﷺ کو بھیجا ۔ اللہ کا فرمان ہے يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا اے نبی! ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر،اللہ کی اجازت سے اُس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔(الاحزاب:46)
قرآن کی دوسری آیت میں اللہ کا فرمان ہے:
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ وہی ہے جس نے اُمیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے (الجمۃ:2)اللہ جو احکم الحاکمین اس نے اپنے رسولوں اور گائیڈس کو جن قوموں میں بھیجا تو انہی کی زبان میں بھیجا تاکہ احکام الٰہی کے افہام وتفہیم کا معاملہ آسان ہو۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ (ابراہیم:4)
مذکورہ مقدس کتاب، جس کی بعض آیات احکام سے متعلق تھیں آپ کی سیرت مبارکہ نے اس کے اجمال کی تفصیل کردی ۔ آپؐ کے جاں ثار صحابہؓ نے آپ سے وہ سب کچھ سیکھا اور اسے عملی طور پر انجام دیا جو ہمارے لیے نوٹس کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگرتمہاری زندگی کے شب وروز اس طرح گزریں گے توتمہیں اعلیٰ نمبرات ملیں گے۔
مگران تمام کے بعد بھی انسان چوں کہ خطاو نسیان کامرکب ہے لہذاان سے غلطی اور گناہ کاسرزدہوناعین ممکن ہے اس لیے خدانے اس کی اس کمزوری کے مدنظر یہ فرمان جاری کیا: توبواالی اللہ توبۃ نصوحا اگرکسی سے کوئی غلطی ہوجاے توفوراًاللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنے کرتوت پرندامت اور شرمندگی کے ساتھ توبہ کرے ۔ خداچونکہ غافرالذنب وقابل التوب ہے۔ لہذا وہ اپنے ایسے بندے کوفوراًمعاف فرمادیتاہے۔ گویاتوبہ اس امتحان میں ہونے والی غلطیوں کومٹانے والا(Eraser)ہے۔
خداکے فرمان کو قرآن اس کے رسول کے اقوال وافعال کو حدیث اس نظام کو اسلام اس کے ماننے والے کو مسلمان اور اس کے طریقہ کارکو اصول اسلام کہا جاتا ہے۔ یہ فطرت انسانی کے لیے مکمل نظام حیات بن کر ظاہر ہوا ہے، جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں میں فہدیناہ النجدین (القران)}صحیح و غلط کے دو راستوں کی تمیز کرتے ہوئے لوگوں کوراہ مستقیم پر چلنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ اس کی منزل کامیابی، مقصد اپنے خالق ومالک کا تقرب اور اس کا دیدار ہے جواس کے امتحان میں کامیابی کاعمدہ اور اعلیٰ نتیجہ ہے۔
فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملاً صالحاً ولایشرک بعبادۃ ربہ احداًo(کہف :۱۱۰)
(تو جو شخص اپنے خالق ومالک سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے)
اللہ تعالی ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے۔ آمین
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022