مہنگائی کی اذیت اور حکومت کی بے حسی

خوفناک صورتحال سے نکلنے کے لیے اقدامات کی ضرورت

پروفیسر ظفر احمد، کولکاتا

ملک میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہونے کا خدشہ
عوام الناس کو مارچ میں مہنگائی نے بڑا چرکہ دیا ہے۔ کھانے پینے کے سامان سے لے کر جوتے اور کپڑے تک مہنگے ہونے سے مہنگائی 17ماہ کی اونچی چوٹی پر پہنچ گئی ہے ۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) کی بنیاد پر ریٹیل مہنگائی کی شرح مارچ میں بڑھ کر 6.95فیصد ہوگئی جو آر بی آئی کی قوت برداشت 6فیصد سے کہیں اوپر ہے کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی 5.85فیصد سے بڑھ کر 7.65فیصد ہوگئی ہے۔ مسلسل تین ماہ سے شرح مہنگائی آر بی آئی کی چھ فیصد کی اوپری حد کے پار رہی ہے۔ فروری 2022میں ریٹیل شرح مہنگائی 6.07فیصد اور جنوری میں 6.01فیصد درج کی گئی تھی۔ ایک سال قبل 2021میں ریٹیل شرح مہنگائی 5.52فیصد تھی۔ گزشتہ دنوں آربی آئی نے اس مالی سال کی اپنی پہلی مانیٹری پالیسی میٹنگ کے بعد مہنگائی کے اندازہ کو بڑھاتے ہوئے پہلی سہ ماہی میں 6.3فیصد دوسری میں 5فیصد ، تیسری میں 5.4فیصد اور چوتھی میں 5.1فیصد کردیا۔ ہمارے ملک میں ریٹیل (خوردہ) شرح مہنگائی ناپنے کے لیے خام تیل، اشیا کی قیمتیں، تیار شدہ اموال کی قیمتوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے جس کا خوردہ مہنگائی کی شرح طے کرنے میں اہم رول ہوتا ہے۔ تقریباً 1299ایسی اشیا ہیں جن کی قیمتوں کی بنیاد پر خوردہ شرح مہنگائی طے کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں ہول سیل پرائس انڈیکس اور کنزیومر پرائس انڈیکس کے ذریعہ مہنگائی کی پیمائش کی جاتی ہے۔ آر بی آئی مانیٹری اور کریڈٹ سے متعلق پالیسی طے کرنے کے لیے تھوک، قیمتوں کو نہیں بلکہ خوردہ مہنگائی کو خاص اسٹینڈرڈ مانا جاتا ہے۔ معیشت کی فطرت میں WPI اور CPIایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس طرح ڈبلیو پی آئی کے اضافہ سے سی پی آئی بھی بڑھتا ہے۔ مزید رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ستمبر تک مالیاتی خسارہ 70فیصد سے زیادہ رہنے کا امکان ہے جو بعد 6.5-7فیصد کی حد میں رہ سکتا ہے۔
ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ مہنگائی کے اندازہ میں ترمیم کرنی ہوگی۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ ستمبر تک مالیاتی خسارہ 7فیصد سے زیادہ رہ سکتا ہے۔ ایک بڑی آبادی خاص طور پر غربا اور حاشیے پر پڑے ہوئےلوگوں کے لیے جان لیوا مصیبت سے کم نہیں ہے۔ کورونا وبا کے بعد مہنگائی لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی ہے۔ بین الاقوامی بازار میں پٹرولیم اشیا کی قیمت میں اضافہ اور سپلائی چین میں رکاوٹیں بھارت کے ساتھ دنیا کے اکثر ممالک میں مہنگائی اپنا اثر دکھا رہی ہیں۔ کورونا سے نکلنے کے لیے پیداواریت پر زور دیا جارہا ہے جس سے توانائی کے ذخیروں اور خام مال کی طلب میں زبردست اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے بجلی کی قیمت بھی بڑھی ہے۔ اکثر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ سے لوگوں کے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ گھریلو بازار اور عالمی منڈی میں بہت سارے پیداواری اشیا کے خسارہ کی تلافی کے لیے ان کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں۔ حالانکہ صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں میں رفتار پکڑنے سے روزگار کی حالت میں قدرے بہتری آئی ہے مگر اسے تشفی بخش ہرگز نہیں کہا جاسکتا۔ دوسری طرف لوگوں کے روزگار چلے جانے سے ان کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا۔ اب تو لوگ مہنگائی کے دباو سے یومیہ ضرورتوں میں تخفیف کرنے لگے ہیں۔ اس وجہ سے بازار میں طلب بالکل نہیں ہے۔ اگر طلب کی یہی حالت رہی تو پیداوار اور اس کی کھپت پر منفی اثرات پڑیں گے جس سے معیشت تنزلی کی طرف جاسکتی ہے۔ اس سے شرح بے روزگاری بھی بڑھے گی۔ عالمی سیاست اور معیشت میں روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے کسی طرح کی اصلاح ہونے کی توقع بہت کم ہے۔ حکومت نے کورونا قہر کے دوران، صنعتکاروں، کاروباریوں کو کم شرح سود پر قرض دینے کے سابقہ غربا اور مفلس عوام کو راحت دینے کے لیے اقدامات کیے مگر بے لگام مہنگائی ایسی تمام تر کوشش کو بے اثر کرتے ہوئے پانی پھیر رہی ہے۔ اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ غذائی اشیا اور توانائی کی قیمت میں راحت دینے پر سب سے زیادہ دھیان دیا جانا چاہیے۔ تاکہ عوام الناس کو اپنے آپ کو مہنگائی کی مار سے محفوظ رکھ سکیں۔ موجودہ مالی سال 2021-22کے اپریل تا دسمبر کے درمیان پٹرول ، پیداوار پر کسٹم اور پیداواری ٹیکس کی شکل میں حکومت کو تقریباً 24فیصد سے زیادہ ٹیکس وصولی ہوئی اس لیے آئندہ مہینوں میں حکومت کو لازماً ایسے اقدام کرنے چاہئیں کہ خریداروں کو پٹرول اور ڈیزل کی مہنگائی سے بچایا جاسکے۔ جس طرح گزشتہ سال پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے بعدحکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی اب ویسے بھی اقدام ضروری دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف خام تیل کی قیمتوں میں ہورہے اضافے کو روکنے کے لیے محفوظ عوامی ذخیرہ سے خام تیل کی سپلائی میں جلد از جلد اضافہ کرنا ہوگا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اب لوگوں کے لیے عذاب بن گئی ہے۔ حکومت نے اگر مہنگائی کی اس اذیت سے لوگوں کو نجات دلانے کی سبیل نہیں نکالی تو دیر یا سویر ہمارے ملک میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کے نتائج 10مارچ کے بعد سے ہی یومیہ کسی نہ کسی چیز کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ چند دنوں میں ہی پٹرول اور ڈیزل 12سے 15روپے فی لیٹر مہنگا ہوگیا ہے۔ سی این جی کی قیمتو ںمیں 9سے 12روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوگیا۔ پکوان گیس ایک ہزارروپے سے زائد اور تجارتی استعمال میں آنے والے پکوان گیس کے سلنڈر کی قیمت 2200تا2500روپے ہوگئی ہے۔ دودھ، سبزی اور روز مرہ کے اشیا کی قیمتیں بے قابو ہوتی جارہی ہیں۔ بھارت میں ڈیزل کی سب سے زیادہ کھپت زراعت اور نقل و حمل کے شعبہ میں ہوتی ہے۔ قیمتوں میں اضافے سے یہ دونوں شعبے سب سے زیادہ متاثر نظر آرہے ہیں۔ ڈیزل کی قیمت بڑھنے سے کھیتی سے لے کر منڈی تک مال کا نقل و حمل مہنگا ہوگیا ہے جس سے ہر طبقے کے کسانوں کا بجٹ بگڑ گیا ہے۔ اس سے قبل کورونا قہر کی وجہ سے ہر کس و ناکس کی آمدنی میں کمی آئی مگر حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر بھاری ٹیکس لگاکر خوب کمایا۔ گزشتہ تین سالوں میں فی کس آمدنی 1.26لاکھ روپے سے کم ہوکر 99155روپے سالانہ ہوگئی ہے۔ مگر حکومت نے اپنی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پٹرول اور ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی لگاکر 8لاکھ روپے سے زیادہ آمدنی کی اب تو پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایہ میں اضافےکا امکان ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی اضافی قیمت کے ساتھ ٹول ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
دوسری طرف ورلڈ بینک نے مالی سال 2023کے لیے بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں بہت کمی کردی ہے۔ فی الوقت بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو کو 8.7فیصد سے کم کرکے عالمی بینک نے 8فیصد کردیا ہے۔ بیمار معیشت میں لوگوں پر مہنگائی کی مار کے باوجود حکومت لوگوں کو 5ٹریلین ڈالر والی ملکی معیشت کا خواب دکھارہی ہے۔ آج ہماری معیشت جس بحران سے گزر رہی ہے۔ دو سالوں میں کورونا نے تو ملکی معیشت کو کھوکھلا کردیاہے۔ 27کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اس لیے حکومت 80کروڑ آبادی کو 5کلو اناج دے کر فاقہ کشی سے بچانے کا کام کررہی ہے جو کبھی بھی مضبوط معیشت کے لیے بنیاد فراہم نہیں کرسکتی۔ اس لیے حکومت کو مہنگائی کی خوفناک صورتحال سے نجات دلانے کی ہرممکن کوشش کرنی ہوگی۔

 

***

 بیمار معیشت میں لوگوں پر مہنگائی کی مار کے باوجود حکومت لوگوں کو 5ٹریلین ڈالر والی ملکی معیشت کا خواب دکھارہی ہے۔ آج ہماری معیشت جس بحران سے گزر رہی ہے۔ دو سالوں میں کورونا نے تو ملکی معیشت کو کھوکھلا کردیاہے۔ 27کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اس لیے حکومت 80کروڑ آبادی کو 5کلو اناج دے کر فاقہ کشی سے بچانے کا کام کررہی ہے جو کبھی بھی مضبوط معیشت کے لیے بنیاد فراہم نہیں کرسکتی۔ اس لیے حکومت کو مہنگائی کی خوفناک صورتحال سے نجات دلانے کی ہرممکن کوشش کرنی ہوگی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 تا 30 اپریل  2022