پڑوسی ممالک سے آنے والے تارکین وطن اور مذہب کی تبدیلی آبادی میں عدم توازن کا باعث: آر ایس ایس

نئی دہلی، اکتوبر 20: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبالے نے بدھ کے روز کہا کہ مذہب کی تبدیلی اور پڑوسی ممالک سے غیر دستاویزی تارکین وطن ہندوستان میں ’’آبادی کے عدم توازن‘‘ کی وجہ ہیں۔

ہوسابلے نے یہ تبصرہ پریاگ راج میں آر ایس ایس کی قومی ایگزیکیٹو میٹنگ کے آخری دن کیا۔ میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ چار روزہ تقریب کے دوران ملک میں مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ آر ایس ایس کا ماننا ہے کہ ہندو مذہب سے دوسرے مذاہب میں تبدیل ہونے والے لوگوں کو ریزرویشن کا فائدہ نہیں ملنا چاہیے اور اس طرح کی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے سخت قوانین کا مطالبہ کیا۔

ہوسابلے نے کہا ’’بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کے درانداز شمالی بہار اور شمال مشرقی ریاستوں میں آباد ہو گئے ہیں۔ اس طرح کی نقل مکانی کو روکنے کی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن دوسری ریاستوں میں بھی ان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

آر ایس ایس لیڈر نے کہا کہ آبادی کی پالیسی بنائی جانی چاہیے اور اسے تمام برادریوں پر یکساں طور پر نافذ کیا جانا چاہیے۔

ہوسابلے نے یہ بھی کہا کہ آبادی پر قابو پانے سے متعلق موجودہ پالیسیاں ملک میں نوجوانوں کی تعداد کو کم کرسکتی ہیں۔ انھوں نے کہا ’’گذشتہ 10-20 سالوں میں ایک خاندان میں شامل افراد کی اوسط تعداد 3.4 سے کم ہو کر 1.9 پر آ گئی ہے۔ اس کی وجہ سے آنے والے سالوں میں ہم دیکھیں گے کہ نوجوانوں کی آبادی میں کمی واقع ہوگی اور بوڑھوں کی آبادی میں اضافہ ہوگا۔‘‘

ہوسابلے کے تبصرے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی طرف سے اپنی سالانہ وجے دشمی تقریر کے دوران ایک ’’جامع آبادی پر کنٹرول پالیسی‘‘ پر زور دینے کے چند ہفتوں بعد سامنے آئے ہیں۔

2019-21 کے لیے قومی خاندانی صحت سروے کے پانچویں دور کے مطابق ہندوستان کی کل شرح پیدائش 2015-16 میں 2.2 سے گھٹ کر 2019-21 میں 2.0 ہوگئی، جو آبادی پر قابو پانے کے اقدامات کی اہم پیش رفت کی نشان دہی کرتی ہے۔