بھارتی مسلمان برہمنی صہیونیت کے نرغے میں

بھارتی مسلمان برہمنی صہیونیت کے نرغے میں !

ایاز احمد اصلاحی، لکھنو

صبر کا مطلب دفاع پر سمجھوتا نہیں۔ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ضرورت

"بہت اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے”، "مسلمان صبر کے علاوہ کیا کرسکتا ہے”، ” فی الحال صبر اور دعا کے علاوہ چارہ نہیں”، ماہ رمضان میں ہندتو عناصر نے نوراتری کے جلوس کے بہانے جس طرح مسلمانوں کو ایک بار پھر یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف مقامات پر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا اس کے بعد مسلم صحافیوں کے بیشتر مضامین اور ان کے قائدین کے بیانات میں اس قسم کے جملے بار بار دیکھنے اور سننے کو ملے۔ کھرگون میں ہندتو بریگیڈ کے زعفرانی دہشت گردوں اور حکومت کی طرف سے مسلمانوں پر ہورہے دو طرفہ مظالم کے حوالے سے لکھی گئیں بعض تازہ تحریروں اور بیانات میں بھی انھی باتوں کا اثر غالب رہا۔ یا دوسرے لفظوں میں اس وقت کی صورت حال پر لکھے گئے اردو کے زیادہ تر مضامین کا انداز "آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں۔۔۔” والا محسوس ہو رہا ہے۔ مدھیہ پردیش کے شہر کھرگون میں رام نومی کے موقع پر ہندتو کی دہشت گرد قوتوں کی طرف سے بھڑکائے گئے فرقہ ورانہ تشدد نے اس شہر کے مسلمانوں کو ایک سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے، یہ وہ بے یار و مددگار مسلمان ہیں جنھوں نے تلوار اور دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہندتو بریگیڈ کے مشتعل ہجوم سے بچنے کے لیے اور محض اپنے دفاع میں ہاتھ اٹھایا جو اس ملک کے ہر شہری کا قانونی حق ہے، لیکن جس حکومت کے لیے مسلمانوں کو ان کی شریعت پر عمل کرنا ناقابل برداشت ہے، وہ بھلا انھیں ایک دوسرے دستوری حق یعنی اپنے دفاع کا حق یا عام شہریوں کی طرح مساوی حیثیت میں جینے کا حق کیسے دے سکتی ہے۔ چناں چہ ملک کے دوسرے مقامات کی طرح یہاں کے مسلمانوں کو اس ‘خطا’ کی یہ سزا دی جارہی ہے کہ مدھیہ پردیش کی مسلم دشمن بی جے پی حکومت ہر طرح سے ان کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ اب تک حکومت کی طرف سے ان کے 45 سے زیادہ گھروں اور دکانوں کو منہدم کردیا گیا ہے، سو سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور حالات سے خوف زدہ ہوکر تقریباً 1000 ہزار مسلمان وہاں سے ہجرت کر گئے ہیں۔

البتہ ہماری مشاعرہ گاہ میں سب کچھ پہلے جیسا ہی ہے، نہ کہیں آسمان گرتا ملےگا، نہ زمین پھٹتی نظر آئے گی اور نہ ہی کہساروں میں راستہ بنانے کی کوئی مہم کے آثار ہیں۔ آج کل ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اور جس طرح انھیں مسلسل حاشیے پر پہنچانے کی سعی ہورہی ہے اس کے تعلق سے مسلمانوں کی مجموعی صورت حال کسی مشاعرہ گاہ سے مختلف نظر نہیں آرہی ہے۔ حالاں کہ یہاں جان بچا کر بھاگتے عام مسلمانوں اور خوف سے چیختے بچوں اور ان کی ماؤں کی چیخ پکار اور بلڈوزروں سے غریب اور لاچار مسلمانوں کے گرائے گئے مکانوں کے گرد و غبار کے پیچھے کوئی ایسا منظر نہیں ہے جس میں اطمینان و تسلی کا سامان ہو۔ نہ ایسی خوش گوار ہوا کے جھونکے ہیں جو ہم سے صرف غزل خوانی کے طالب ہوں؛ لیکن مشاعرہ گاہ سے لوٹے شعرا و سامعین کی گہری نیند سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہیں اور نہ ہی کچھ ایسا ہونے والا ہے جو ان کی نیند اڑا دے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ ہم اس وقت ایک کش مکش اور ایک ایک بھر پور رزم گاہ میں ہیں۔ اگر یہاں کچھ کرکے دکھانا ہے تو ہمیں اپنے عافیت کدوں سے نکل کر باہر آنا ہوگا۔ اسلام میں باطل سے خوف کھا کر جینے کی گنجائش نہیں ہے، آخر وہ قوم خوف و ذلت کی زندگی پر راضی و مطمئن کیوں کر ہوسکتی ہے جس کا رب اور معبود حقیقی پکار پکار کر دنیا سے آخرت تک اپنی نصرت و نگہبانی کا یقین دلا رہا ہو اور جنت کی بشارت دے رہا ہو:

"نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ”

اہل اسلام کے علاوہ کس کے پاس ایسا مہربان رب ہے جو اپنی نام لیوا امت کو إس زندگی سے اٌس زندگی تک اپنی سرپرستی و معیت کی ضمانت فراہم کرتا ہو؟ اس توحیدی امت کا عقیدہ جیسا بھی ہو لیکن اگر اس کی اخلاقی حالت اس کے بر عکس ہو تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ اس ملک کے خدا پرستوں کو اپنے خدا کی یقین دہانیوں پر بھی ایمان نہیں رہا۔

ہو سکتا ہے میرے ان کلمات سے آپ میں سے بعض لوگوں کو کچھ تکلیف پہنچے لیکن یقین کریں کہ یہ مایوسی و قنوطیت کا اظہار نہیں بلکہ ایک مبرہن حقیقت کی یاد دہانی ہے۔

میں پوچھتا ہوں ان مضامین یا نام نہاد ملی خطابات میں اور گورکنوں کی طرح آہ و زاریاں کرتے بیانوں میں کیا نیا ہے اور ان پر ہورہے تبصرے میں کیا نیا ہے؟ ماتم ہے ایسے بے خبروں پر جنھیں اب جاکر یہ معلوم ہوسکا کہ اس ملک کا طاغوت اس ملک سے مسلمانوں کا (یعنی اسلام کا) مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔ یہ باتیں تو وہ ہیں جو اہل نظر کم سے کم 40 سال یا اس سے پہلے سے کہتے آ رہے ہیں، بلکہ ان ممکنات اور اندیشوں کا حوالہ دے کر دسیوں سال سے اپنی قوم کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔کیا اس ملک میں تقریباً 25 کروڑ کی تعداد میں موجود کسی قوم کا اس سے بھی بڑا کوئی المیہ ہوگا کہ قیادت کے نام پر جن لوگوں سے آس لگائے بیٹھے تھے اور جن کی زبان کو وہ اپنا ترجمان سمجھتے تھے وہ یا تو خاموش ہیں یا پھر حالات کے دباؤ میں ان کی بولیاں ہی بدل گئی ہیں اور وہ اپنی قوم کی مشکلات کا جو حل پیش کر رہے ہیں وہ حل سے زیادہ حقائق اور چیلنجوں سے فرار کی ذہنیت کا غماز ہے۔ حالاں کہ اگر کسی قوم کی مکمل خود سپردگی اور غیرت فروشی ظالموں کے غضب کو ٹھنڈا کر سکتی تو پھر ہریجن اور دلت اقوام آج بھی اس ملک میں طرح طرح سے ظلم و ستم اور ذلت و خواری نہ سہ رہے ہوتے جنھوں نے منوسمرتی کے پیداکردہ ماحول میں ہزاروں سال تک اعلی ہندو ذاتوں کے بالمقابل خود کو انسان سمجھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔

اس طرح ایک بار پھر ہمارے بعض احباب جدید ہندوستان کی تاریخ سے غلط مثالیں دے کر قوم کو اپنے جان و مال کے تحفظ کے لیے داخلی اصلاح کا دیمک زدہ پیکج پیش کر رہے ہیں جن کی آج کوئی معنویت نہیں ہے۔ یہ حرکتیں سراسیمہ بھیڑوں والی ہیں جو بھیڑیے کے ڈر سے یہ بھی نہیں سمجھ پاتیں کہ انھیں جانا کدھر ہے، اپنے باڑے کی طرف یا بھیڑیوں کے اڈے کی طرف۔ خود دیکھیے اندرون خانہ کیا کیا ہورہا ہے، کسی جانب سے مسلم نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا گروہ سے بطور حل دوستی کا سجھاؤ دیا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے مسلمان اسے "اچھوت” اور اجنبی سمجھنا چھوڑ دیں، تو کوئی مسلمانوں کی نسل کشی کے تعلق سے آر ایس ایس کے اس سو سالہ منصوبے کو بس "سیاسی خرافات” کی حیثیت سے دیکھ رہا ہے اور مسلمانوں کو تسلی دے رہا ہے کہ اس سیاسی گھڑ دوڑ پر تھوڑا اور صبر کرلو کچھ دنوں میں جب دھول بیٹھ جائے گی تو سب کچھ اپنے آپ ٹھیک ہوجائے گا، تو کوئی صبر کے ساتھ اس نسلی صفائی کا منتظر ہے جو ایک متعدی بیماری کی شکل میں پورے بھارت میں پھیلتی جارہی ہے۔ یہ تینوں شکلیں انتہائی درجے کی سادہ لوحی ہے لیکن میں اسے سادہ لوحی نہیں بلکہ بزدلانہ حماقت یا احمقانہ مداہنت کہنا زیادہ پسند کروں گا۔ یہ لوگ اتنے کم فہم تو نہیں ہیں کہ یہاں خون مسلم کی پیاسی موجودہ نفرت انگیزی کو محض دور امن والی عارضی نشانہ بازی کی مشق سمجھ رہے ہوں؟

ایک طرف ایک عظیم قوم میں یہ سراسیمگی اور ذہنی دیوالیہ پن ہے تو دوسری طرف ہندتو اپنے منصوبے کی ہر کڑی کو تیزی سے روبہ عمل لانے میں مصروف ہے۔

جنھیں مسئلہ فلسطین کی بدلتی کیفیات کا علم ہے وہ آسانی سے یہ سمجھ سکتے ہیں اس وقت یہ گروہ حکومتی اور غیر حکومتی دونوں سطحوں پر اسرائیل کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف یہ نفرتی مہم کیا ہے؟ یہ نہ تو کچھ ناخوش گوار حادثات کا اتفاقیہ وقوع پذیر ہونا ہے اور نہ فرقہ ورانہ فسادات کا وقتی اشتعال۔ ایک طبقے پر ظلم و ستم میں اتنا آگے نکل جانا کہ ملکی و عالمی قوانین کی بھی کوئی پروا نہ کرنا اور مظلوم و مجبور اقلیت کے گھروں اور دکانوں کو حکومت کے بلڈوزروں سے منہدم کیا جانا، ایک فرقہ کے نوجوانوں کو بغیر کسی واضح ٹرائل کے برسوں قید و بند میں رکھنا، ان کی شہریت اور حق ملکیت کو غیر قانونی ڈھنگ سے کالعدم قرار دینا، نسل کشی کے یہ تمام حربے اسی استعماری قوت سے درآمد شدہ ہیں جو اس وقت سنگھ پریوار کی سب سے زیادہ منظور نظر ہے۔

یہ برہمنی صہیونیت ہے، بھارت میں برہمنی صہیونیت نے اپنی جارح فرقہ پرستانہ حکمت عملی سے ہندوؤں میں اسلاموفوبیا کی ذہنیت کو اتنا پختہ کردیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہورہا روزمرہ کا اجتماعی تشدد یا موب لنچنگ اب سرکار اور مین اسٹریم میڈیا کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ حکمت عملی اب اتنی جارح اور ننگی ہوچکی ہے کہ پہلے متعصب و جانب دار ذہنیت کے حامل ہندو حکمراں بھی جن غلط اور ظالمانہ حرکات کی دفاعی انداز میں ایک قابل قبول تاویل و توجیہ پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے اب وہ وزارائے اعلی سطح کی حکومتی ذمہ داریوں پر ہوتے ہوئے بھی ان کی بے جھجک علانیہ تائید کر رہے ہیں اوراپنے نظریاتی ہم نواؤں کو ایسی غیر قانونی و غیر اخلاقی سرگرمیاں انجام دینے کی علانیہ ترغیب دے رہے ہیں جس کی گنجائش نہ تو دستوری دفعات میں ہے اور نہ عالمی قوانین میں۔

یہی نہیں یہ حکمراں مسلمانوں پر ہورہے یک طرفہ مظالم پر کوئی شرمندگی ظاہر کرنے کی اب قطعاً کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ آگے بڑھ کر حکومتی وسائل کو مسلم دشمن عناصر کی کھلی حمایت میں استعمال کرنے میں لگے ہیں۔ فسادیوں کے خلاف اپنے دفاع میں جو مسلم نوجوان اپنے گھروں کے سامنے متحرک نظر آئے وہ بطور خاص ان کے نشانے پر ہیں، یہ ظالم حکمراں مسلمانوں کا حوصلہ توڑنےکے لیے غریب مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلوا رہے ہیں اور انھیں فساد بھڑکانے کے جرم میں بغیر کسی ثبوت کے یک طرفہ طور پر گرفتار کر رہے ہیں اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ مسلم رہ نما بزدلوں کے بلڈوزروں کے سامنے لیٹ کر نا انصافی کو چیلنج کرنے کا حوصلہ دکھائیں؟ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم اپنے شاہینوں کو خاک بازی کی نہیں بلکہ جاں بازی کی تربیت دیں۔ کیا ابھی ہماری غیرت اتنی بھی بیدار نہیں ہوئی ہے کہ مسجدوں کے سامنے کھڑے ہوکر بظاہر اپنا تیوہار منانے لیکن بباطن اسلام اور مسلمانوں کو للکارنے والے غنڈوں اور ہندو قوم پرستوں کے سامنے کوئی اسلام کی زبان میں یہ اعلان کرے کہ ہماری مسجدیں سرخ لکیروں کی طرح ہیں جو انھیں پار کرے گا یا اللہ کے بندوں کو اس کی راہ سے روکے گا اسے اس کی سزا بھگتنے اور ہماری مزاحمت کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔

"جو کافر (حق کے منکر ہیں) ہیں اور جو اللہ کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، ہم ان کو سزا در سزا دیں گے، اور یہ سزا ان کے فساد مچانے کی پاداش میں ہے۔” (سورۃ النحل: 88)

کون ہے جو سماج اور سیاست کے مجرموں کو مجرم اور فسطائیت کے علم برداروں کو فسطائی کہنے میں کسی باک سے کام نہ لے تاکہ دنیا یہ جانے تو سہی کہ یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں بلکہ نیکی اور بدی کا مقابلہ ہے۔

یاد رہے قومیں صرف صبر اور سمجھوتے سے زندہ نہیں رہتیں، صبر بھی ضروری ہے اور حسب ضرورت سمجھوتا بھی۔ لیکن صبر اور اور سمجھوتے کے آگے ایک منزل جدوجہد کی بھی ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور اس سے بھی آگے عظیم مقصد کے لیے قربانی و جاں نثاری کا مرحلہ ہے جسے جان بوجھ کر نظر انداز کرنا اجتماعی خود کشی کو دعوت دینا ہے۔

یہ برہمنی صہیونیت ہے، بھارت میں برہمنی صہیونیت نے اپنی جارح فرقہ پرستانہ حکمت عملی سے ہندوؤں میں اسلاموفوبیا کی ذہنیت کو اتنا پختہ کردیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہورہا روزمرہ کا اجتماعی تشدد یا موب لنچنگ اب سرکار اور مین اسٹریم میڈیا کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ حکمت عملی اب اتنی جارح اور ننگی ہوچکی ہے کہ پہلے متعصب و جانب دار ذہنیت کے حامل ہندو حکمراں بھی جن غلط اور ظالمانہ حرکات کی دفاعی انداز میں ایک قابل قبول تاویل و توجیہ پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے اب وہ وزارائے اعلی سطح کی حکومتی ذمہ داریوں پر ہوتے ہوئے بھی ان کی بے جھجک علانیہ تائید کر رہے ہیں اوراپنے نظریاتی ہم نواؤں کو ایسی غیر قانونی و غیر اخلاقی سرگرمیاں انجام دینے کی علانیہ ترغیب دے رہے ہیں جس کی گنجائش نہ تو دستوری دفعات میں ہے اور نہ عالمی قوانین میں۔

جو قوم ظلم کے خلاف کھڑے ہونے سے کتراتی ہے تو خود اس کے بال و پر کتر دیے جاتے ہیں، اگر وہ سر اٹھا کر حق پر اصرار کرنے کا عزم و حوصلہ نہیں دکھا پاتی تو اس کی اجتماعی زندگی میں وہ بد قسمت وقت بھی آتا ہے جب وہ ہمیشہ کے لیے جھکا دی جاتی ہے اور اگر وہ باطل کی برتری کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرپاتی تو ظالم و انصاف دشمن طاقتیں خود اس کے ملی و تہذیبی وجود کو ناکار دیتی ہیں۔ یہ شاعری نہیں سچائی ہے جس کی مثالیں اس وقت ساورکر اور گوڈسے کے مرید ٹولوں کی طرف سے آئے دن اور ہر موقع پر پیش کی جارہی ہیں۔ کھرگون کی ہی تازہ مثال لے لیجیے، یہ ہر ایک کو پتہ ہے کہ یہاں اتوار ( 10 اپریل 2022) کو فرقہ وارانہ نفرت کی آگ کو ہوا دینے والے کون لوگ تھے، کن لوگوں نے بغیر کسی وجہ کے تیوہار کے بہانے مسجد کے سامنے تلواریں لہرائیں اور اشتعال انگیز نعرے لگا کر مسلم فرقے کو دھمکیاں دیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے، مسجد کے سامنے نفرت انگیز نعرے بازی اور تلواریں لہرانے کا کام پولیس کی نگرانی میں سیکڑوں کی تعداد میں بھگواداری غنڈوں کی طرف سے کیا گیا، اس اشتعال انگیز جلوس پر نامعلوم افراد کی طرف سے پتھر پھینکنے کے بعد جو فساد بھڑکا اس کے بعد سب سے زیادہ حملے مسلمانوں کے گھروں پر ہی ہوئے، دوران فساد زیادہ تر گھر بھی مسلمانوں کے ہی جلائے گئے، نوراتری کے نام پر مچی ہلڑ بازی سے مسلمانوں کے ہی ماہ مبارک کے بابرکت ماحول کو زعفرانی غنڈوں نے خراب کیا۔ اس کے بعد پولیس نے بھی فساد بھڑکانے کے الزام کے ساتھ تقریباً یک طرفہ طور سے مسلمانوں کے خلاف ہی کاروائیاں کیں۔ اس کے علاوہ مذہبی آزادی کے تمام دستوری تقاضوں کو روندتے ہوئے مسلمانوں کی ہی مسجد سے ملحق مسجد کی املاک پر حکومتی بلڈوزر چلایا گیا۔ حکومت کے ذریعے فسادیوں کو سبق سکھانے کے نام پر وہاں کے غریب مسلمانوں کے گھروں کو ہی نشانہ بنایا گیا اور انھیں دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس کردیا گیا۔ پولیس، حکومت اور دہشت گرد ہندتو گروہوں سے سراسیمہ ہوکر اور اپنے گھر بار چھوڑ کر وہاں سے سیکڑوں کی تعداد میں بھاگنے والے بھی مسلمان ہی ہیں، اس کے باوجود ہندتو کے نمائندہ حکمراں اسی مظلوم طبقے کو مزید خطرناک نتائج کی کھلی کھلی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ذرا اس صوبے کے ہوم منسٹر نروتم مشرا کا یہ تیور تو دیکھیے، جو کھلے عام ایک خاص طبقے کو دھمکیاں دیتے ہوئے کسی دستوری یا حکومتی ضابطے کی رسماً ہی سہی ذرہ برابر پروا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے:

"اصل بات یہ ہے کہ حملہ آوروں کو بچایا جا رہا ہے۔ ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش حکومت پر کسی ایک کمیونٹی کے لیے کام کرنے کا الزام ہے لیکن اگر کوئی بھی فساد بھڑکاتا ہے تو اسے کچل دیا جائے گا۔ یہ تمام فسادی ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘

گویا دوسرے لفظوں وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ فسطائی عناصر مسلمانوں کے ساتھ جتنا بھی ظالمانہ اور ذلت آمیز سلوک کریں انھیں برداشت کرنا ہوگا، اگر انھوں نے کہیں بھی اور کبھی بھی سر اٹھا کر جواب دینے کی کوشش کی تو حکومت اور اپنی پولیس اور انتظامیہ کی طاقت کے بل پر انھیں جڑ بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے گا۔ یہ وہی بے رحم رویہ ہے جو کبھی ہزاروں سال تک یہاں کے دلتوں کے ساتھ روا رکھا گیا اور انھیں نہ صرف یہ کہ اونچی ذات کے ہندووں کے برابر آنے ہی نہیں دیا گیا بلکہ برابر بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ اور اب جدید ہندوستان میں آر ایس ایس کا پروردہ یہ حکمراں طبقہ وہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اور اسے اسی ادنیٰ ترین مقام پر رکھنا چاہتا جو ان کی نظر میں دلتوں اور پست قوموں کے لیے خاص ہے۔ یہی بات تو ہے جو اس وزیر کے ان الفاظ میں مضمر ہے جو اس نے چند دن قبل این ڈی ٹی وی سے تبادلہ خیال کے دوران کہی ہے:

 ’’اگر مسلمان اس طرح کے حملے کریں گے تو انھیں کسی انصاف کی امید نہیں کرنی چاہیے۔ ریاستی حکومت فسادیوں اور غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے‘‘

ان الفاظ کے اصل مضمرات کو مزید کھولیں تو یہ دھمکی آمیز بیان کچھ اس طرح ہوگا: "اگر مسلمان اس طرح ہندتو دھاری حملہ آوروں کے حملے کا جواب دینے کی کوشش کریں گے تو انھیں ہم سے کسی رحم کی امید نہیں کرنی چاہیے”

کچھ سمجھا آپ نے؟ اس پردہ زنگاری میں کیا ہے؟ دھمکی، نسل کشی کی دھمکی، ہندتو کی طرف سے بھارت میں مسلمانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کی دھمکی۔

آج کے حالات سے یہ نتیجہ نکالنا قطعاً مبالغہ نہیں ہوگا کہ آج بھارت کا ایک بڑا حصہ آر ایس ایس کی فسطائی لیبارٹری (تجربہ گاہ) میں بدل چکا ہے جہاں نسل پرست و فسطائیت پسند ہندتو حکومت کے زیر سرپرستی مسلمانوں کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ سرگرم ہے، جہاں نروتم مشرا، کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر جیسے سنگھی کارندے حکومت کی شہ پر کبھی دلی کا امن غارت کرتے ہیں تو کبھی مدھیہ پردیش میں ہندو نوجوانوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسا کر فساد بھڑکاتے ہیں لیکن نہ تو پولیس ان کا کچھ بگاڑ پاتی ہے اور نہ عدلیہ، جب یہ مسلمانوں کو گولی مارنے، پاکستان بھیجنے اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے ایک طبقے کو نشانہ بنانے کا پیغام دیتے ہیں تو ملک کے ہر کونے میں شیطانوں کو باہر آنے میں دیر نہیں لگتی۔

ہمارا وزیر اعظم ملک کے باہر خود کو ٹیگور اور گاندھی کا پیروکار بتاتا ہے لیکن اس سے پوری دنیا باخبر ہے کہ اپنے ملک میں فسطائیت کا ایجنڈا پورا کرنا اس کی ترجیح اول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی یا قومی انتخابات میں ہندتو کا کارڈ کھیلنے میں وہ آج بھی اپنی پارٹی کے کسی بھی لیڈر سے آگے رہتا ہے۔ ظاہر ہے ملک کے سب سے بڑے منصب پر بیٹھا شخص جس راہ پر چلے گا اسی پر اس نظریہ کے چھوٹے یا جونیر پیروکار بھی چلیں گے کیوں کہ ان کی نظر میں سیاسی کام یابی و ترقی کا راستہ اسی تعفن زدہ گلی سے ہوکر گذرتا ہے۔ آخر وہی تو ہے جو ملک کے مجرموں کو قانون کی یکساں نظر سے دیکھنے کے بجائے یہاں کے مختلف طبقوں کو ” کپڑوں سے پہچاننے کا” پیمانہ دیتا ہے اور دوسری طرف گائے کا گوشت کھانے یا بیچنے کے نام پر درجنوں مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنانے والے نام نہاد قاتل "گو رکشکوں” کو یہ کہ کر شہ دیتا ہے کہ "یہاں تو کچھ لوگوں کی نظر میں گائے کی حفاظت اور اس کے تقدس کی بات کرنا بھی گناہ ہے”۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اب تک کے اپنے دور حکومت میں اسلاموفوبیا کے شکار مسلمانوں کے بہیمانہ قتل کے ایسے واقعات پر بھی تسلی و دل جوئی کا ایک کلمہ کہنا گوارا نہیں کیا جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔

اگر اوپر سے شہ نہ ملتی اور تمام واقعات کے تار آر ایس ایس کے منصوبہ بند خونیں ایجنڈے سے نہ جڑے ہوتے تو انوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا جیسے غنڈے پورے ملک میں گھوم گھوم کر بی جے پی کے لیے انتخابی ریلیوں میں نفرت انگیز سیاسی تقریریں نہ کر رہے ہوتے بلکہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے کیے کی سزا کاٹ رہے ہوتے، نہ ہی دو ہزار اکیس (2021) میں آسام میں بنیا بیجوئی جیسا کوئی حیوان فوٹوگرافر پولیس کےذریعے قتل کیے گئے معین الحق کی لاش پر کود کر ہندتو کا جشن منانے کی ہمت کرتا اور نہ ہی 2022 میں راجستھان کے بیور(اجمیر) میں سورج مروتھیا اور شنکر بھٹی اور ان کے آدھا درجن دوسرے ساتھی سلیم نامی مسلم سبزی فروش کو سر بازار یہ کہ کر پیٹ پیٹ کر ہلاک کرتے کہ ” ملا (مسلمان) یہاں کیا کر رہے ہیں، تمھارا یہاں کیا کام ہے، تم لوگ اتنے رذیل ہو کہ ہم چاہیں تو تمھیں پیشاب کی دھار سے بہا دیں”۔

نفرت سے پر اور یہ تعفن زدہ جملے نہ چاہتے ہوئے بھی اس لیے نقل کرنے پڑے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ہوا کا رخ کیا ہے اور آر ایس ایس برانڈ کے ہندتو نامی فسطائیت اس ملک میں خطرے کا کون سا نشان چھو رہی ہے اور اسے روکنے کے لیے کتنی شدید جدوجہد کی ضرورت ہے۔ شہر در شہر مسلم نسل کشی کا یہ رتھ جو گجرات ہوتے ہوئے آسام میں اپنا پڑاؤ ڈال چکا ہے اور اب زمین پر اسلامو فوبیائی نفرتی لہر اور سرکاری کاغذ میں نئے شہری قوانین کے روپ میں اپنا کام کر رہی ہے آئے دن نئے بہانوں سے سامنے آنے لگی ہے۔ اس لیے اسے اتفاقی حادثات کا نتیجہ سمجھنا ہماری سب بڑی حماقت ہوگی۔ بی جے پی حکومت نے جب ستمبر 2021 میں تقریباً پانچ ہزار کی تعداد میں آسامی مسلمانوں کی شہریت کو ختم کرکے انھیں ان کے مکانات اور جائیدادوں سے بے دخل کیا اور وہاں کے ہندوؤں کو حقیقی شہری مان کر مسلمانوں سے چھینی گئی جائیدادیں ان کے حوالے کردیں تو دیکھتے دیکھتے بے یار و مددگار مسلمان کھلے آسمان کے نیچے آگئے۔ حکومت کی ایما پر پولیس نے تمام قوانین بالائے طاق رکھ کر انھیں جبراً گھر سے باہر نکالا۔ ان کے بہت سے گھروں کو مسطح کرکے ان کا نام و نشان مٹا دیا۔ بہت سے معصوموں کو بلا وجہ گولی کا نشانہ بنایا، جن میں سے ایک معین الحق بھی تھا، جس کی لاش پر بنیا بیجوئی نے پولیس کی موجودگی میں رقص کیا تھا، اور اس کی ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہوئی تھی۔ لیکن اس پر حسب روایت نہ تو وزیر اعظم کو کچھ شرم آئی اور نہ ملک کی عدالت عظمیٰ نے اس کا کوئی نوٹس لیا۔ ملک میں مسلمانوں پر ہندتو کے حملوں کی اس لہر اور ان کے خلاف ملک میں بڑھتی منافرت کے اس رجحان کی وجہ سے معروف صحافی دیباشیش رائے چودھری نے ٹائم لندن میں اپنے مضمون میں بجا طور سے یہ سوال کیا تھا کہ ” کیا انڈیا مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف بڑھ رہا ہے؟” جو لوگ حالات سے باخبر ہیں ان کے لیے بھارت کے موجودہ سیاسی و سماجی ماحول میں نہ تو یہ سوال غیر متعلق ہے اور نہ ہی خود اسی صحافی کے یہ الفاظ جن کی مدد سے وہ یہ کہتا ہے کہ جب اس ملک کی مسلم دشمن طاقتیں آسام، بہار اور مغربی بنگال سے بنگلہ دیشیوں کو نکالنے کی کھلے عام بات کرتی ہیں تو اس کا مطلب صرف بنگلہ دیشی نہیں بلکہ ہندوستان کا عام مسلمان ہوتا ہے، آسام، یا گجرات تو بس آر ایس ایس کی عملی تجربہ گاہ ہے اور وہ یہی کچھ پورے ملک میں دہرانا چاہتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:

"آسام تو بس مودی کی ایک وسیع تجربہ گاہ ہے جہاں اس نے صحیح نژاد، اور ردی میں تمیز کرتے ہوئے، مسلمانوں کو شہریت کی تصدیق کے ذریعے آتشیں جانچ پر رکھا ہے، اس سے پہلے کہ وہ اس جانچ کو ملکی سطح پر لے جائیں۔ بی جے پی کہتی ہے کہ وہ صرف بنگلہ دیشی مہاجرین سے انڈیا کو پاک کرنا چاہتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اسے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لیے کوڈ ورڈ (خفیہ اشارہ) کے طور سے استعمال کرتے ہیں۔۔۔۔ کچھ پتہ نہیں ان کا (یعنی آسامی مسلمانوں کا) کیا ہوگا۔۔۔یہ تو بس شروعات ہے۔”

حقیقت یہ ہے کہ صرف ایک سال میں ملک میں بی جے پی کا خونیں منصوبہ اتنا آگے بڑھ گیا ہے کہ جو سوال کل تک آسام یا گجرات کی صورت حال تک محدود تھا اب اس کا دائرہ پورے ملک تک وسیع ہو چکا ہے۔ چناں چہ اب ہمیں یہ پوچھنا چاہیے کہ ” پتہ نہیں ان ہندوستانی مسلمانوں کا کیا ہوگا”۔

مختصر یہ کہ ایک طرف تو یہ حال ہے کہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کرنے والے موجودہ حکمراں ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانے پر فخر جتارہے ہیں، اور اس سلسلے میں اپنے سارے ایجنڈے مرحلہ وار پورے کر رہے ہیں، کبھی حجاب و طلاق پر پابندیاں لگا کر تو کبھی منصوبہ بند فسادات میں قتل عام کی جھلکیاں دکھا کر اور کھر گون کی طرح ہر مسلم کش واقعہ کو بطور مثال بیان کرکے آئندہ مزید مہیب نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسری طرف کی صورت حال یہ ہے کہ مسلمان جہاں کل تھے وہیں اب بھی ہیں۔۔۔ اس لیے مسلمانوں کی طرف سے رونے دھونے والے بیانات اور روایتی صحافتی فیچرز کے سلسلے سے بھی دل میں اب یک گونہ بے زاری سی پیدا ہونے لگی ہے۔ میرے لیے ان کی حیثیت یا تو ایک بیکار کی ظاہری مرثیہ گوئی جیسی ہے یا پھر ایسی محفل آرائی جیسی جو سوشل میڈیا پر ایک خوب صورت اور خوش گوار وقت گزاری میں مدد کرتی ہے۔ باقی اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ آج میں نے لکھا، کل آپ لکھیں گے، پرسوں کے واقعہ پر کوئی اور دانش وری کے جوہر دکھا دے گا، لیکن اس کا حاصل؟

افسوس کہ ان سوالات کے بعد کی دنیا ہماری دل چسپی کا موضوع نہیں ہے۔ ہم سب ایک ایسی زندگی کے عادی ہوتے جارہے ہیں جہاں سب کچھ اپنی ہی چار دیواری کے اندر کی دنیا کے لیے ہوتا ہے۔ لگتا ہےاس کے باہر قدم رکھنا نہ تو ہمارے بس میں تھا اور نہ فی الحال ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ‘کھرگون’ کے مسلمان حکومت اور ہندتو کے غنڈوں کے ڈر سے اس وقت اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور نہ ہوتے اور نہ وہ غریب و مجبور مسلم عورتیں اپنی جوان بیٹیوں کو لے کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہوتیں جن کے گھر یا تو ہندتو دہشت گردوں نے جلا کر راکھ کردیے ہیں یا پھر مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت نے اس انتقام میں بلڈوزروں سے منہدم کردیے ہیں کہ ان کے گھروں کے نوجوانوں نے اپنے دفاع میں سر اٹھانے کی جرأت کیسے کی۔ اگر مسلمان اس خوف کے ماحول سے باہر نہیں نکلے اور ان کی قیادت کی روش تبدیل نہیں ہوئی تو یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ آج وہ جس مقام پر ہیں کل انھیں وہاں بھی رہنے کی اجازت شاید ہی ہو۔ انھیں اپنے اصل مقام و مرتبہ کو پانا ہے تو انھیں کم سے کم اتنا تو کرنا ہی پڑے گا کہ وہ ڈرنا چھوڑ کر مسلمان بن کر جینا سیکھ لیں۔ جو ڈرتے نہیں وہ اس دنیا میں اپنا ہی نہیں انسانیت کا بھی سر بلند رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو قوم پوری بے خوفی سے باطل کا انکار اور حق و صداقت کا اعلان و اظہار کرتی ہے یہ نوع انسانی بالآخر اسی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور باطل کی ہزار دسیسہ کاریوں کے باوجود اسی بہادر قوم کو اپنی پناہ گاہ بناتی ہے۔ مسلمان تو بہر حال اہل توحید ہیں، جن کا رب کہتا ہے جب بتوں کے پجاریوں کو بے ہودہ حرکتیں کرتے ہوئے کوئی ڈر نہیں تو وہ لوگ کیوں ڈریں جو حی و قیوم رب کی عبادت کرتے ہیں۔

 

***

 اگر مسلمان اس خوف کے ماحول سے باہر نہیں نکلے اور ان کی قیادت کی روش تبدیل نہیں ہوئی تو یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ آج وہ جس مقام پر ہیں کل انہیں وہاں بھی رہنے کی اجازت شاید ہی ہو۔ انہیں اپنے اصل مقام و مرتبہ کو پانا ہے تو انہیں کم سے کم اتنا تو کرنا ہی پڑے گا کہ وہ ڈرنا چھوڑ کر مسلمان بن کر جینا سیکھ لیں۔ جو ڈرتے نہیں وہ اس دنیا میں اپنا ہی نہیں انسانیت کا بھی سر بلند رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو قوم پوری بے خوفی سے باطل کا انکار اور حق و صداقت کا اعلان و اظہار کرتی ہے یہ نوع انسانی بالآخر اسی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور باطل کی ہزار دسیسہ کاریوں کے باوجود اسی بہادر قوم کو اپنی پناگاہ بناتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 تا 30 اپریل  2022