ملک کے مشہور انڈین انسی ٹیوٹ آف ٹکنا لوجی کھڑکپور میںزیر تعلیم 23سالہ فیضان احمد کی مشتبہ حالت میں موت کو دو ہفتہ گزر گیا ہے ۔مگر اب تک موت کی گتھی نہیں سلجھی ہے۔بنگال پولس اورآئی آئی ٹی انتظامیہ دونوں سوالوں کی زد میں ہے ۔کیمپس میں طلبا احتجاج کررہے ہیں اور ڈائریکٹرکے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔14اکتوبر کو فیضان کی لاش برآمد ہوئی تھی ۔جانچ اور تحقیق کئے بغیر آئی آئی ٹی کھڑکپور نے اس کو خودکشی قرار دیدیا۔سوال یہ ہے کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور جانچ کی کارروائی مکمل ہونے سے خودکشی کا معاملہ قرار دیا جاسکتا ہے۔انتظامیہ کی اسی رویہ کی وجہ سے کیمپس میں ماحول کشیدہ ہے۔
14اکتوبر کومکینیکل انجینئرنگ کے تیسرے سال کے طالب علم فیضان احمد کی جزوی طور پر بوسیدہ لاش ایل ایل آر ہاسٹل سے برآمد ہوئی۔فیضان احمد اپنے والدین کے اکلوتے اولاد ہیں۔ فیضان احمد اپنے کلاس میں ہونہار طالب علم کے طور پرجانے جاتے تھے اس کے علاوہ وہ کیمپس میں سماجی سرگرمیوں میں بھی وابستہ تھے۔ اسٹوڈنٹس ویلفیئر گروپ اور یو جی اسٹوڈنٹس کونسل کے بھی سرگرم رکن تھے۔ایسے میں کوئی بھی خودکشی کی تھیوری کو قبول کرنے کو تیار نہیں ے۔
فیضان کی والدہ ریحانہ جو اپنے بیٹے کی موت سے صدمے ہیں وہ کہتی ہیں 11اکتوبر کو اس نے دوپہر میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ کھانا بہت ہی لذیز تھا، پھر لائبریری جلد سے جلد پہنچنے کا کہہ کر اس نے بات ختم کردی۔رات کو 7.30بجے جب وہ رات کا کھانا کھانے کےلئے ہاسٹل سے میس جارہا تھا تو اس نے اپنی خالہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کہ شاید کڑی وغیر بناہوگا۔جو کچھ رہے گا کھالوں گا۔طویل بات کرنے کے بعد اس نے فون رکھ دیا ۔ریحانہ کہتی ہیں کہ وہ مجھے اور خالہ سے بات کرتے وقت بہت ہی خوشگوار موڈ میں تھا ۔کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ ذہنی طور پر پریشان ہے۔مگر یہ اچانک کیسے ہو گیا؟ اس کے ساتھ یہ سب کس نے کیا۔
فیضان کے والدین ریحانہ اور سلیم احمد آسام کے تین سوکھیا کہ رہنے والے ہیں ۔ فیضان کے اہل خانہ اور دوستوں کے مطابق وہ بہت ہت محنتی اور ذہین طالب علم تھا۔ ریاستی سطح کےریاضی اور کیمسٹری اولمپیاڈ میں تین طلائی تمغے حاصل کرچکا ہے۔ دو بار ریاضی میں، اور ایک بار کیمسٹری میں۔
’’ایریل روبوٹکس، کھڑگپور ‘‘کے فیس بک پیج کے مطابق فیضان نے ایک ٹسٹ پاس کرکے اس ریسرچ ٹیم کا حصہ2021میں بنا تھا۔ریسرچ گروپ کو SRIC (سپانسرڈ ریسرچ اینڈ انڈسٹریل کنسلٹنسی) سنٹر فار ایکسیلنس ان روبوٹکس کے حصے کے طور پر سپانسر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کھڑگپور روبو ساکر اسٹوڈنٹس گروپ (KRSSG) کا بھی ٹیم ممبر تھا۔اس کے علاوہ آن لائن کلاسیس بھی لیتا تھا۔
آئی آئی ٹی کھڑکپور کے رویہ پر سوالات اس لئے کھڑے ہورہے ہیں کہ ہاسٹل میں نصب سی سی ٹی وی کے فوٹیج کو نہیں دکھایا جارہا ہے ۔اتنے بڑے ہاسٹل میں سی سی ٹی وی کیمرہ کیوں نہیں ہے۔یا جان بوجھ کر خراب کیا گیا ہے۔دوسرے یہ کہ فیضان احمد کی لاش ملنے کے بعد آئی آئی ٹی انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ والدین سے رابطہ کرتے مگر کھڑکپور پولس نے فون کرکے فیضان کے اہل خانہ کو اطلاع دی۔خودکشی کرنے والے شخص کے جسم پر زخم کے نشانات کیسے ہوسکتے ہیں۔والدہ کے مطابق ناک ٹوٹ چکا تھا۔والدہ ریحانہ آئی آئی ٹی انتظامیہ کی سنجیدگی اور رویے پر بھی سوال کھڑا کرتی ہیں کہ جب وہ بیٹے کی موت سے متعلق جب ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم سے بات کررہی تھی اس وقت میٹنگ میں موجود ایک شخص (جس کی کنیت مبینہ طور پر داس تھی) میٹنگ کے دوران مسکراتا رہا۔ جب ہم غمزدہ تھے، انہوں نے کوئی سنجیدگی ظاہر نہیں کی۔داس کا رویہ شرمناک تھا وہ اس ماں کے سامنے مسکرارہا تھا جس نے اپنا سب کھودیا ہے۔ انتظامیہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک ہی کمرے میں رہ رہا تھا، لیکن اس کے کپڑے اور دیگر اشیاء ہاسٹل کے دیگر کمروں سے برآمد ہوئے ہیں۔ذرائع کے مطابق فیضان جس ہاسٹل میں تھا اس میں کچھ مسائل پیدا ہوئے ہیں اس لئے وہ حال ہی میں دوسرے ہاسٹل میں منتقل ہوگیا تھا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 نومبر تا 12 نومبر 2022