اداریہ

اقدار پر مبنی سیاست کی ضرورت

پچھلے کچھ عرصے سے ہندوستان کے سیاسی قائدین جس طرح اپنی سیاسی و نظریاتی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں وہ واقعی افسوس ناک بات ہے۔ بھارت میں پہلے بھی مختلف سیاست داں پارٹی قائدین سے ناراضی یا اپنے ساتھ ناانصافی جیسے اسباب کی وجہ سے پارٹیاں تبدیل کرتے رہے ہیں، لیکن اب منتخب عوامی نمائندے جس طرح پلک جھپکتے میں اپنی وفاداری تبدیل کررہے ہیں اس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ سیاست دانوں کے لیے ذاتی اور گروہی مفادات ہر چیز پر حاوی ہو چکے ہیں بلکہ یہی چیز آج کی سیاست کا اولین ہدف بن چکی ہے۔ وہ لوگ جو برسوں ایک نظریہ پر کار بند رہے اس کے لیے اپنی جوانی لگائی لیکن اب اسی نظریے کی مخالفت پر اتر آئے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات یا محض اپنی کرسی بچانے کے لیے بڑی آسانی سے حکمراں جماعت کا حصہ بن رہے ہیں۔
اگرچہ ملک میں منتخب نمائندوں کے انحراف کو روکنے کے لیے مخالف دل بدلی قانون موجود ہے، جس کے تحت کوئی بھی منتخب نمائندہ اگر اپنی پارٹی تبدیل کرتا ہیں تو متعلقہ ایوان سے اس کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے، الا یہ کہ پارٹی تبدیل کرنے والے ارکان کی تعداد اس پارٹی کے کل منتخب نمائندوں کی تعداد کی دو تہائی یا اس سے زائد ہو۔ لیکن ان ضوابط کی موجودگی کے باوجود لوگ دھڑلے سے اپنی پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں اور قانون، عدالت اور الیکشن کمیشن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ لوگ بڑی آسانی کے ساتھ اپنی پارٹی کو چھوڑ کر حکمراں جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ حکومت ان کی پشت پناہی کرتی ہے، مختلف جوڑ توڑ کے ذریعے دل بدلی قانون مخالف سے انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو تو یہ ہے کہ صاحب اقتدار گروہ جس پر آئین و قانون کے نفاذ اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری عائد ہے وہی سب سے زیادہ اس کارروائی کا حصہ بن رہا ہے۔ اپنی پارٹی کی حکومت قائم کرنے کے لیے آئینی طور پر منتخب حکومتوں کو کمزور کرنا، ایم ایل ایز کو دھونس یا لالچ کے ذریعے اپنی اصل پارٹی سے توڑنا اور ان کی خرید و فروخت کرنا آج کی سیاست کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ کرناٹکااور مہاراشٹر میں یہی کھیل کھیلا گیا، بہار اور جھارکھنڈ میں بھی اسی طرح کی کوشش کی گئی، تلنگانہ میں بھی یہی ہوا اور مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کا بھی یہی رویہ رہا ہے۔ جہاں جو اقتدار میں ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ ایوان میں اپوزیشن کی قوت کم زور ہو جائے۔ خود غرض، لالچی اور مفاد پرست عوامی نمائندے ان کی اس خواہش کی تکمیل کر دیتے ہیں۔ یہ دو طرفہ عمل ہے۔ منتخب عوامی نمائندے دولت کمانا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ حکومت میں شامل ہونا ضروری سمجھتے ہیں دوسری طرف حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس کے سامنے کوئی اپوزیشن باقی نہ رہے۔
دل بدلی کے اس کھیل میں کم و بیش تمام ہی سیاسی جماعتیں ملوث ہیں، کوئی کم تو کوئی زیادہ۔ سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے پر اسی وقت زبان کھولتی ہیں جب اس دل بدلی کی زد ان پر پڑتی ہے ورنہ اپنے معاملے میں وہ بالعموم چُپی سادھ لیتی ہیں۔
ابھی گزشتہ دنوں ہونے والے گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی اور دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے بعد یہی افسوس ناک صورت حال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ گجرات عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے بعض یا تمام ہی ایم ایل ایز بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ ادھر دہلی میونسپل کارپوریشن میں کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے کونسلرز نے عام آدمی پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے، اگرچہ بعد میں انہوں نے اپنا یہ ارادہ تبدیل کیا لیکن اس بات کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ دوبارہ کب اپنا فیصلہ تبدیل کر لیں۔
یہ صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ملک کے عوام کے سامنے اقدار اور اصولوں پر مبنی سیاست کی ضرورت کو واضح کیا جائے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک کی سیاست پوری طرح ذاتی و گروہی اغراض، حصول دولت اور اقربا پروری کے گرد گھوم رہی ہے۔ مذہبی منافرت، جھوٹ، بد دیانتی اور کرپشن اس کا بنیادی کردار بن چکا ہے، ان افراد کو سامنے لانے کی کوشش کی جائے جن کی سیاست کا مقصد ہی عوامی فلاح و بہبود اور ملکی مفادات کا تحفظ ہو اور جو سچائی، ایمانداری اور انسانوں سے محبت جیسی خصوصیات کے حامل ہوں۔ یقیناً یہ ایک مشکل کام ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ یقینا مفاد پرستوں نے مختلف وسائل اور ذرائع پر قبضہ کر کے عام شہری کی آرزو اور اس کی آواز دونوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ دولت کی بے انتہا ریل پیل نے آج کی انتخابی سیاست کو عام انسانوں کے لیے مشکل تر بنا دیا ہے، لیکن یہ ملک کے ایک عام انسان کے دل کی آواز ہے۔ اس آواز کو مختلف ذرائع سے طاقت پہنچانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ یہی آواز ہمارے ملک کو ایک روشن مستقبل دے سکتی ہے۔