اداریہ

نشانے پر راہول نہیں جمہوریت

کانگریس کے سابق ایم پی راہول گاندھی کو سورت کی ایک عدالت کی جانب سے دو سال سزائے قید سنائے جانے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ان کی لوک سبھا رکنیت کے خاتمے کی کارروائی نے ملک میں کئی طرح کے اندیشوں کو جنم دیا ہے۔ بی جے پی حکومت کے اپروچ نے بھارتی جمہوریت کی بقا، عدلیہ کی شفافیت، اظہار رائے کی آزادی اور مقننہ کی رکنیت سے نا اہلی کی کارروائی کے غلط استعمال وغیرہ کے متعلق انتہائی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
اس بات سے تمام قارئین واقف ہیں کہ راہول گاندھی کو یہ سزا ہتک عزت کے ایک تین سال پرانے مقدمے میں سنائی گئی ہے۔ یہ مقدمہ سنہ 2019 کے ایک انتخابی جلسے میں ان کی تقریر کے بعد سورت میں دائر کیا گیا تھا۔ اس تقریر میں انہوں نے للت مودی، نیرو مودی اور نریندر مودی کے اسکامس کا ذکر کرنے کے بعد عوام سے یہ سوال کیا تھا کہ سارے چوروں کے نام میں ‘مودی’ ہی کیوں ہوتا ہے۔
عدالت کی جانب سے سزائے قید کے فیصلے اور انتہائی عجلت میں راہول گاندھی کی رکنیت کی منسوخی دونوں موضوعات پر سیاسی ماحول کافی گرم ہوچکا ہے۔ حزب اقتدار اور حزب مخالف دونوں کے قائدین اس پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے قائدین اسے قانون، انصاف اور اخلاق کی کامیابی قرار دے کر اپنی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں۔ دوسری جانب حزبِ اختلاف کے تمام قائدین نے بیک زبان اس عدالتی سزا اور رکنیت کی منسوخی دونوں کارروائیوں پر تنقید کی ہے۔ حسب معمول ملک کے ‘قومی میڈیا’ نے اپوزیشن ہی کو سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے لیکن اس موقع پر متعدد موجودہ اور سابق وزرائے اعلیٰ اور تمام ہی غیر جانب دار میڈیا نے بجا طور پر حکومت کے دوہرے رویے پر نکتہ چینی کی۔ جو لوگ کانگریس سے وابستگی کو شجر ممنوعہ خیال کرتے آئے ہیں انہوں نے بھی پہلی بار راہول گاندھی پر کارروائی کے خلاف کھل کر لب کشائی کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک و قوم کو آنے والے دنوں میں ہر ایک کو اپنے مستقبل کا عکس نظر آرہا ہے۔ اروند کیجروال نے کہا کہ ‘یہ ایک آمرانہ کارروائی ہے اور بی جے پی حزب اختلاف کی آواز کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی’۔ ممتا بنرجی نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘پی ایم مودی کے بھارت میں حزب اقتدار کے قائدین نشانے پر ہیں۔ مجرمین تو کابینہ میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن اپوزیشن لیڈر محض اپنی تقریر کی بنیاد پر نااہل قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارا ملک آئینی جمہوریت کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے’۔ بی آر ایس کے صدر تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر نے کہا کہ ‘یہ بھارتی جمہوریت کی تاریخ کا سیاہ دن ہے’۔ انہوں نے مودی حکومت پر الزام لگایا کہ ‘وہ نہ صرف ملک کے آئینی اداروں کا غلط استعمال کر رہی ہے بلکہ جمہوریت کے سب سے اونچے پلیٹ فارم، پارلیمنٹ کو بھی اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے استعمال کررہی ہے’۔ مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے اور بھی سخت لب ولہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ‘لٹیرے آزاد ہیں جبکہ راہول گاندھی کو سزا دی گئی ہے۔ چور کو چور کہنا گناہ ہوگیا ہے’۔
خاص طور پر راہول گاندھی کو ملک کے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے سے دور کرنے کے پیچھے تین باتیں ہو سکتی ہیں۔ اول ان کی قیادت میں بھارت جوڑو یاترا کی نمایاں کامیابی، دوم ایوانِ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تواتر کے ساتھ حکومت کی چنندہ سرمایہ داروں سے قربت پر چبھتے سوالات اور سوم بی جے پی کی نظریاتی سرپرست آر ایس ایس پر گہری چوٹ کرنے کا ان کا انداز۔ حکمراں ٹولے نے لوک سبھا میں راہول گاندھی کی تقریر ہی کو ریکارڈ سے حذف کروا دیا جس سے ان کی بوکھلاہٹ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، ملک اسے فاشسٹ اور آمرانہ طرز حکمرانی کی علامت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
عدالتی کارروائی کے متعلق یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ مذکورہ تقریر میں راہول گاندھی نے جو کچھ کہا کیا وہ ہتک عزت قانون کے دائرے میں آتا بھی ہے؟ کیا کرناٹک میں کیے گئے جرم پر عدالتی کارروائی گجرات کی کسی عدالت میں ہو سکتی ہے؟ علاوہ ازیں اس مقدمے میں ہتک عزت کی شکایت ان لوگوں نے نہیں کی جن کا نام لیا گیا تھا بلکہ ایک ایسے شخص نے کی جس کا نام اس تقریر میں لیا ہی نہیں گیا۔ کیا اس طرح ہتک عزت کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے مختلف سوالات اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں۔
ان سب باتوں سے قطع نظر یہ سوال تو ہر سنجیدہ شہری کے ذہن میں لازمی طور پر پیدا ہو رہا ہے کہ کیا اس وقت ہمارے ملک میں مختلف قوانین کا استعمال منصفانہ انداز سے ہو رہا ہے؟ کیا قانون ہر معاملے میں اسی طرح فوری اور تیز رفتاری کے ساتھ کام کر رہا ہے؟ کتنے ہی لوک سبھا ارکان اور اسمبلیوں کے ارکان پر فوجداری مقدمات قائم ہیں لیکن برسوں تک ان پر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ لیکن اس معاملے میں اس قدر جلد بازی اور تیزی کس وجہ سے ہے؟
سیاست میں مخالفین پر طنز اور تنقید تو ہوتی ہی ہے، انتخابی مہمات میں سیاسی قائدین اپنے مخالفین پر تیکھے جملے بولتے ہیں۔ لیکن حالیہ عرصے میں یہ جس نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے وہ نہایت ہی شرم ناک ہے۔ ویسے تو اس حمام میں سبھی ننگے ہیں لیکن بی جے پی نے تو اس معاملے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس کے باوجود سزا صرف اپوزیشن یا بی جے پی کے خلاف بولنے والوں کو مل رہی ہے۔ انفرادی شخصیت کو نشانہ بنانے سے لے کر پوری قوم کو گالی دینے تک ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں وزیر اعظم کے بشمول بی جے پی سے وابستہ ہر سطح کے قائدین نے انتہائی رکیک الفاظ استعمال کیے ہیں۔ سونیا گاندھی کے لیے کانگریس کی بیوہ، جرسی گائے کہنا کون سی اخلاقیات تھیں؟ پچاس لاکھ کی گرل فرینڈ کا جملہ کس اخلاق کا مظہر تھا؟ ایک پوری قوم کے لیے ‘تم پانچ اور تمہارے پچیس کہنا، اور دیش کے غداروں کو گولی مارو۔۔۔۔۔کو ‘جیسے نعرے لگانا کیا ایک قوم کی ہتک عزت نہیں ہے؟ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ جب اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں تو سزا صرف اپوزیشن ہی کو کیوں؟
اس پوری کارروائی کے نتیجے میں جمہوریت اور جمہوری فضا کے متعلق بھی مختلف سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ کیا اب ہر مخالف آواز کو اسی طرح دبا دیا جائے گا؟ کیا ہمارے ملک میں آزادی اظہار رائے کے بنیادی اصولوں کو پوری طرح خیر باد کہہ دیا گیا ہے؟ کیا یہ ملک میں حزب مخالف کو ختم کرنے کی مختلف کوششوں کا ایک حصہ نہیں ہے؟ اگر یہ سب محض خدشات نہیں ہیں تو پھر اہل ملک کے لیے اور ان لوگوں کے لیے نہایت ہی تشویش کا مقام ہے جو ملک کو ایک مکمل جمہوری ملک کی حیثیت سے باقی رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اس موقع پر عوام اور حزبِ مخالف کی تمام جماعتوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور متحدہ طور پر اس صورت حال کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اس امر کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ملک میں جمہوری فضا، آزادی اظہارِ رائے کا ماحول اور آئینی اداروں کی حقیقی کیفیت بحال رہے۔