عبادت كے ليے نصف شعبان كى رات مخصوص كرنا

قرآن ا ور صحیح احادیث میں وارد احکام کے مطابق ہی ہمارے اعمال ہوں

حمیرا علیم

ماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ اس سے قبل جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتاہے تو معاشرے میں بعض مسائل اور شکوک و شبہات بھی جنم لینے لگتے ہیں، ان میں سے ایک مسئلہ 15؍ شعبان کا ہے کہ آیا اس رات کوئی خاص امور انجام دیے جائیں یا نہیں؟یاد رکھیں کہ اگر كوئى شخص عام راتوں كى طرح اس رات بھى قيام كرنا چاہے اس ميں كوئى اضافى اور زائد كام نہ ہو اور نہ ہى اس كى تخصيص كى گئى ہو تو جس طرح وہ عام راتوں ميں عبادت كرتا تھا اس ميں بھى جائز ہے اور اسى طرح پندرہ شعبان كو روزے كے ليے مخصوص كرنا صحيح نہيں، ليكن اگر وہ اس بنا پر روزہ ركھ رہا ہے كہ يہ ايام بيض یعنی ہر ماہ كى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كو روزہ ركھنا مشروع ہے، يا پھر وہ جمعرات يا پیر كا روزہ ركھتا تھا اور پندرہ شعبان اس كے موافق ہوئى تو اس اعتبار سے روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں اس كا اعتقاد نہيں ہونا چاہيے كہ اس سے اسے اجر وثواب زيادہ حاصل ہو گا ۔کیونکہ نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى صحيح اور مرفوع حديث ثابت نہيں، حتىٰ كہ فضائل ميں بھى ثابت نہيں ہے بلكہ اس كے متعلق كچھ تابعين سے بعض مقطوع آثار وارد ہيں، اور ان احاديث ميں موضوع يا ضعيف احاديث شامل ہيں جو اكثر جہالت والے علاقوں ميں پھيلى ہوئى ہيں۔ان ميں مشہور يہ ہے كہ اس رات عمريں لكھى جاتى ہيں اور آئندہ برس كے اعمال مقرر كيے جاتے ہيں ۔بعض لوگ تو اسے مردوں کی عید بھی کہتے ہیں صرف اسی بنا پر اس رات كو عبادت كے ليے بيدار ہونا جائز نہيں اور نہ ہى پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا جائز ہے، اور اس رات كو عبادت كے ليے مخصوص كرنا بھى درست نہيں ہے۔ اكثر ناواقف لوگوں كا اس رات عبادت كرنا معتبر شمار نہيں ہو گا۔(الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ)واللہ اعلم بالصواب
اب ایک سوال یہ ہے کہ كيا اللہ سبحانہ وتعالى نصف شعبان كى رات آسمان دنيا پر نازل ہو كر كافر اور كينہ و بغض ركھنے والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے؟ دراصل اس کا جواب یہ ہے کہ يہ بات ايك حديث ميں ہے، ليكن اس حديث كى صحت ميں اہل علم نے كلام كیا ہے، اور نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى حديث صحيح نہيں ملتى ہے۔حضرت موسى اشعرىؓ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم ﷺ نے فرمايا:’’ اللہ تعالى نصف شعبان كى رات جھانك كر مشرك اور كينہ و بغض والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے۔ یہ حدیث حضرت معاذ بن جبل، حضرت عائشہ، حضرت ابو ہريرہ اور حضرت ابو ثعلبہ خشنی سے بھى بيان كى گئى ہے، ليكن يہ طرق بھى ضعف سے خالى نہيں ہیں ، بلكہ بعض تو شديد ضعف والے ہيں ۔ابن رجب حنبلى كہتے ہيں کہ ’’نصف شعبان كى رات كے فضائل ميں متعدد احاديث ہيں، جن ميں اختلاف كيا گيا ہے، اكثر علماء نے تو انہيں ضعيف قرار ديا ہے، اور بعض احاديث كو ابن حبان نے صحيح قرار ديا ہے‘‘ (لطائف المعارف: 261 )
ایک اور بات یہ کہ اللہ تعالى كا نزول نصف شعبان كى رات كے ساتھ خاص نہيں بلكہ بخارى اور مسلم كى حديث ميں ثابت ہے كہ اللہ تعالى ہر رات كے آخرى حصہ ميں آسمان دنيا پر نزول فرماتا ہے اور نصف شعبان كى رات اس عموم ميں داخل ہے ۔اسى ليے جب عبد اللہ بن مبارکؒ سے نصف شعبان كى رات ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے سائل كو كہا:’اے ضعيف صرف نصف شعبان كى رات؟ بلكہ اللہ تعالى تو ہر رات نزول فرماتا ہے ‘‘ عقيلى كہتے ہيں: ’’نصف شعبان ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق احاديث ميں لين ہے، اور ہر رات ميں اللہ تعالى كے نزول والى احاديث صحيح اور ثابت ہيں، اور ان شاء اللہ نصف شعبان كى رات بھى اس ميں داخل ہے۔ ‘ (الضعفاء : 3 / 29 )
معاشرے میں چند سوالات کچھ زیادہ ہی مشہور ہیں جن کے سلسلے میں افراط و تفریط کا شکار ہیں آج انہیں میں سے چند سوالات اور ان کے مدلل جوابات دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ باذن اللہ
پہلا سوال :کیا شعبان کی 15؍ تاریخ کو لوگوں کی تقدیروں اور موت حیات وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں؟
جواب :’جی نہیں !‘ کیونکہ قرآن و حدیث سے ایسا کچھ ثابت نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی زندگی اور موت وغیرہ کے فیصلے لکھ دیے ہیں ۔الله تعالیٰ نے فرمایا :’’الله کے حکم کے بغیر کوئی جان دار نہیں مر سکتا، مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے ۔‘‘(سورة آل عمران : 145)اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’الله تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے 50 ہزار سال قبل ہی سب کی تقدیریں لکھ دی تھی۔(صحیح مسلم ، کتاب القدر ، حدیث : 4797)
ہاں ! رمضان مین جو لیلۃ القدر ہے اس کے سلسلے میں جو دلائل ہیں ان شاءاللہ اس پر اگلے شماروں میں گفتگو کی جاسکتی ہے۔
دوسرا سوال :کیا 15؍ شعبان کو خاص طور پر اعمال نامہ الله کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں ؟
جواب :جی نہیں ، ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں جس میں صرف 15؍ شعبان کو اعمال پیش ہونے کا ذکر ہو ۔ بلکہ ہر روز اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں ۔(صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، حدیث : 447)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اللہ کی طرف چڑھتے (پیش ہوتے) ہیں۔‘‘ اور اس ضمن میں بعض دیگر مواقع بھی مذکور ہیں لیکن 15؍ شعبان کی رات کا تذکرہ کسی بھی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہے ۔
تیسرا سوال :کیا اللہ تعالیٰ صرف 15؍ شعبان کی رات پہلے آسمان (آسمانِ دنیا) پر نزول فرماتا ہے اور کیا ہمیں صرف 15؍ شعبان کی رات عبادت کرنی چاہیے ؟
جواب :جی نہیں، کسی بھی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف 15؍ شعبان کی رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر رات دنیا کے آسمان پر نزول فرماتا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارا رب بلند اور برکت والا ہر رات جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو دنیا کے آسمان (پہلے آسمان) کی طرف نزول فرماتا ہے اور پکارتا ہے : ’کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اسکی دعا قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے مانگے تا کہ میں اسے عطا کروں ، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تا کہ میں اسے معاف کر دوں۔‘‘(صحیح بخاری ، کتاب التہجد : 1145)
چوتھا سوال :کیا خصوصی طور پر 15؍ شعبان کو روزہ رکھنا ثابت ہے ؟
جواب :جی نہیں ، کسی بھی صحیح حدیث میں صرف 15؍ شعبان کو روزہ رکھنے کا ذکر نہیں ، بلکہ رسول اللہ ﷺ ماہِ شعبان کے اکثر ایام روزے سے گزارتے تھے ۔ام المومنین سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں :’’میں نے نبی ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں اتنے (نفلی) روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔‘‘(صحیح بخاری ، کتاب الصوم ،: 1969)
پانچواں سوال :کیا 15؍ شعبان کی رات فوت شدگان کی روحیں گھروں کی طرف لوٹتی ہیں اور کیا اس رات خصوصی طور پر قبرستان جانا چاہیے؟
جواب :جی نہیں ، جب کوئی بندہ فوت ہو جاتا ہے تو اس کی روح اس دنیا سے عالم ارواح منتقل ہو جاتی ہے اور دنیا سے اس کا رابطہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب ، مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں اس (دنیا) میں نیک کام کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ اللہ فرمائے گا، ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ حسرت سے کہنے والا ہے ، اور ان سب روحوں کے آگے اس دن تک ایک برزخ ہے جس دن وہ قبروں سے اُٹھائے جائیں گے۔‘‘(سورة المومنون 99 ۔ 100) اور 15؍ شعبان کی رات خصوصی طور پر قبرستان جانے کے حوالے سے کوئی صحیح حدیث نہیں، ویسے بھی قبرستان جانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ وہاں جا کر صرف اہل قبور کے لیے دعا کی جائے، کیوں فوت شدگان کے لیے مغفرت کی دعا تو مسجد میں اور گھر بیٹھ کر بھی کی جا سکتی ہے بلکہ قبرستان جانے کا اصل مقصد موت کو یاد کرنا ہوتا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’قبروں کی زیارت کیا کرو ، یہ موت یاد دلاتی ہے۔‘‘( صحیح مسلم )
الغرض، ماہ شعبان کے سلسلے میں جو اللہ کے رسول اور صحابہ کا معمول تھا وہ یہی تھا کہ وہ سب رمضان کا شدت سےا نتظار کرتے اور اس کے لیے مکمل تیاریاں کرتے۔ اس کے علاوہ جو بھی بدعات آج ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ہمیں چاہیے کہ حتی الامکان ان سے گریز کریں اور دوسروں تک بھی یہ تمام صحیح معلومات پہنچائیں ۔اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔آ میں یا رب العالمین۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 فروری تا 24 فروری 2024