’’مجھے گاندھی پیس پرائز گیتا پریس کو دیے جانے کی اطلاع نہیں دی گئی تھی‘‘، اپوزیشن لیڈر اور جیوری ممبر ادھیر رنجن چودھری نے لگایا الزام
نئی دہلی، جون 21: کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے الزام لگایا ہے کہ گیتا پریس پبلشنگ ہاؤس کو 2021 کا گاندھی امن انعام دینے کے فیصلے کے بارے میں انھیں اندھیرے میں رکھا گیا۔ چودھری، لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر اور اس جیوری کے رکن ہیں جو اس ایوارڈ کی تفویض کا فیصلہ کرتی ہے۔
کانگریس لیڈر نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں جیوری کی کسی میٹنگ کے بارے میں مطلع یا مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ چودھری نے کہا کہ انھیں گیتا پریس کو ایوارڈ دینے کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے ذریعے معلوم ہوا۔
انھوں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’یہ اس حکومت کے سراسر مطلق العنان رویہ کے سوا کچھ نہیں ہے، جو ان کے تمام اقدامات اور ردعمل میں بہت واضح ہے۔‘‘
کانگریس نے گیتا پریس پبلشنگ ہاؤس کو 2021 کا گاندھی امن انعام دینے کے مرکز کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے اس فیصلے کو دھوکہ دہی قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کو ہندوتوا کے نظریہ ساز وی ڈی ساورکر اور گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو ایوارڈ دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔
گاندھی پیس پرائز کے ضابطۂ اخلاق کے مطابق ایوارڈ یافتہ کا انتخاب پانچ رکنی جیوری کے ذریعے کیا جاتا ہے، جس میں وزیر اعظم، چیف جسٹس آف انڈیا، اپوزیشن لیڈر یا لوک میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کا لیڈر اور دو ’’نامور شخصیات‘‘ شامل ہوتے ہیں۔
جیوری اس وقت حتمی فیصلہ لے سکتی ہے جب اس کے کم از کم تین ارکان موجود ہوں۔
منگل کو ثقافت کی وزارت کے نامعلوم اہلکاروں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ گیتا پریس کو انعام دینے کے لیے جیوری میں ’’دو نامور شخصیات‘‘ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا اور سلبھ انٹرنیشنل کے بانی بندیشور پاٹھک تھے۔
عہدیداروں نے چودھری کے دعووں کی بھی تردید کی اور کہا کہ انھیں ایوارڈ یافتہ کو منتخب کرنے کے لیے میٹنگ میں مدعو کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا ’’ہم نے لگاتار ان تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن کوئی جواب نہیں آیا اور وہ نہیں آئے۔‘‘
گورکھپور میں واقع گیتا پریس ہندو مذہبی کتابوں کے سب سے بڑے پبلشرز میں سے ایک ہے۔ گاندھی پیس پرائز ایک سالانہ ایوارڈ ہے جو حکومت کی طرف سے موہن داس کرم چند گاندھی کے نظریات کو خراج عقیدت کے طور پر دیا جاتا ہے۔