سیکڑوں قبرستان صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔۔!
نا جائزقبضوں کی طویل فہرست۔تلنگانہ وقف بورڈکو اصلاح حال کی ضرورت
افروز عالم ساحل
یہ کہانی ایک ریاستی وقف بورڈ کے ذریعے عدالت کو گمراہ کرنے کی ہے اور اس کہانی میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ زندہ لوگ کس طرح مردوں کے قبرستانوں کی چوری کے کام میں لگے ہوئے ہیں اور کس طرح وقف کی جائیدادوں میں خورد برد کی جارہی ہے۔
گزشتہ دنوں تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ نے ایک معاملے کی سنوائی میں تلنگانہ ہائی کورٹ کو بتایا کہ عظیم تر حیدرآباد کے حدود میں 723 قبرستان ہیں۔ ان میں سے 86 قبرستانوں پر ناجائز قبضے ہیں یعنی اس وقت 637قبرستان موجود ہیں۔ وہیں دوسری جانب یہی وقف بورڈ اپنی ویب سائٹ پر جو اعداد و شمار پیش کر رہا ہے اس کے مطابق حیدرآباد میں 513 قبرستان ہیں۔ جبکہ ویب سائٹ پر موجود تفصیلات بتاتی ہیں کہ حیدرآباد میں وقف کی کل 1785.17 ایکڑ زمینات تھیں جن میں 1469.28 ایکڑ زمینوں پر ناجائز قبضے ہو چکے ہیں۔ یعنی تقریباً 82 فیصد وقف کی زمینوں پر نا جائز قبضے ہو چکے ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ وقف بورڈ نے قبرستانوں سے متعلق جو اعداد وشمار عدالت میں پیش کیے ہیں کیا وہ واقعی درست ہیں؟
حیدرآباد کے سینئر صحافی معین اطہر کے مطابق وقف بورڈ کے یہ اعداد وشمار بھی گمراہ کرنے والے ہیں۔ ’’ناجائز قبضوں کی بات تو آپ چھوڑ دیجیے میری معلومات کے مطابق صرف شہر حیدرآباد میں ہی قریب 200 قبرستان تو سرے سے غائب ہی ہو چکے ہیں۔ سچ پوچھیں تو اس وقت پورے حیدرآباد ضلع میں صرف 150 کے آس پاس ہی قبرستان موجود ہیں بقیہ تمام قبرستانوں پر نا جائز قبضے ہوچکے ہیں‘‘۔دکن وقف پروٹیکشن سوسائٹی کے صدر عثمان الہاجری کا بھی کہنا ہے کہ حیدرآباد میں سیکڑوں قبرستان مٹا دیے گئے ہیں۔ زیادہ تر قبرستانوں پر کالونیاں بس گئی ہیں وہیں کچھ قبرستان بزنس کمپلیکس میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے یعنی اب بھی ناجائز قبضے رکے نہیں ہیں۔
کچھ سرکاری اعداد و شمار
اب آگے کی تفصیلات آپ کو مزید سوچنے پر مجبور کر دیں گی۔ کیونکہ وقف مینیجمنٹ سسٹم آف انڈیا کی ویب سائٹ wamsi.nic.inپر حیدرآباد کے قبرستانوں سے متعلق جو اعداد وشمار ہیں وہ ان دونوں اعداد و شمار سے بالکل مختلف ہیں۔ اس ویب سائٹ پر جب پورے حیدرآباد کے اعداد وشمار کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حیدرآباد میں صرف 375 قبرستان ہیں۔
لیکن جب حیدرآباد کے الگ الگ علاقوں کے اعداد وشمار کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حیدرآباد میں کُل 8082 قبرستان ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
عنبرپیٹ 550، آصف نگر 286، بہادرپورہ 1474، بنڈلہ گوڑا 242، چارمینار 3454، گولکنڈہ 220، حمایت نگر 66، خیریت آباد 110، مشیرآباد 445، نامپلی 506، سعیدآباد 616، سکندرآباد 66 اور شیخ پیٹ 47۔
کیا کہتے ہیں وقف بورڈ کے ذمہ داران؟
حیدرآباد میں غائب ہوتے قبرستانوں کے سوال پر ہفت روزہ دعوت نے تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کے رکن ملک متعصم خان سے خاص بات چیت کی۔ اس بات چیت میں انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اوقاف کے تحت جو قبرستان ہوتے ہیں ان پر قبضے ہوئے ہیں لیکن یہ عمل اتنا طویل ہے کہ کسی کے حافظے کی بنیاد پر اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ عمل 1948 سے چل رہا ہے۔ زیادہ تر قبضے بہت پہلے ہو چکے ہیں، لوگوں کو معلوم بھی نہیں ہے کہ یہاں کبھی قبرستان تھا۔
مذکورہ اعداد وشمار کے بارے میں ان سے پوچھنے پر وہ کہتے ہیں کہ اعداد وشمار تو وقف بورڈ کے سی ای او ہی صحیح طور پر بتا سکتے ہیں یا پھر وقف بورڈ کے دفتر سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
جب اس سلسلے میں ہفت روزہ کے نمائندے نے تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کے چیف ایکزیکٹیو آفیسر (سی ای او) محمد قاسم سے بات کی تو ان انہوں نے بتایا’’ میں نے محض تین مہینے پہلے جولائی میں وقف بورڈ کا زائد چارج لیا ہے۔ اس کے ساتھ حیدرآباد کا ڈسٹرکٹ مائناریٹی ویلفیئر آفیسر ہوں۔ فی الحال اس بارے میں تمام معلومات جمع کر رہا ہوں‘‘۔
قبضوں کے بارے میں پوچھنے پر وہ کہتے ہیں کہ 86 قبرستانوں پر ناجائز قبضے صرف حیدرآباد شہر کے ہیں۔ پورے ضلع کے اعداد وشمار اس سے بھی زیادہ ہوں گے۔ میرے چارج لینے کے بعد جو بھی قبضوں کے معاملات آئے، میں نے فوراً کارروائی کی۔ 86 قبرستانوں پر ناجائز قبضوں کے معاملے پرانے ہیں اور سال 2002 سے 2018 کے درمیان کے ہیں۔
وقف بورڈ کو عدالت کی پھٹکار
اصل میں تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ نے صرف 5 ناجائز قابضین کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ اس کے علاوہ صرف 25 معاملوں میں وقف بورڈ نے وقف ایکٹ کی دفعہ 54 (1) کے تحت نوٹس دی ہے اور یہ نوٹس دے کر بورڈ ان قبضوں کو بھول بھی گئی ہے۔ کچھ معاملوں میں نوٹس 18 سال پہلے دی گئی تھی جس کے بعد سے اب تک کچھ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح بورڈ 44 معاملوں میں قبرستانوں پر ہوئے قبضوں کو پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرانے کےبعد خاموش ہو گئی۔ ناجائز قبضہ کرنے والوں پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور پھر یہ جانکاری خود وقف بورڈ نے عدالت کو دی ہے۔ وقف بورڈ کے ان کارناموں پر تلنگانہ ہائی کورٹ نے زبردست پھٹکار لگائی ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا ہے کہ وقف بورڈ کے موجودہ سی ای او کو سی آر پی سی قانون کی بنیادی معلومات تک نہیں ہیں۔ عدالت نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ ریاستی وقف بورڈ کے سی ای او نے وقف جائیدادوں بشمول مسلم قبرستانوں کے قابضین کے ساتھ ساز باز کرلی ہوگی۔
تلنگانہ ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ وقف بورڈ کے سی ای او وقف جائیدادوں کے تحفظ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل میں نا کام رہے ہیں جبکہ وقف جائیدادوں کے تحفظ کی ذمہ داری انہی کے کاندھوں پر تھی۔ انہیں ان کا ہرحال میں تحفظ کرنا چاہیے تھا۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ موجودہ سی ای او محمد قاسم سے چھٹکارا حاصل کرے اور اس اہم عہدے پر ایک اہل شخص کا تقرر کیا جائے تاکہ وقف جائیدادوں کا تحفظ کیا جاسکے جو اللہ کی امانت ہوتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر اس قسم کے لوگ عہدوں پر برقرار رہتے ہیں تو پھر تلنگانہ میں تمام وقف جائیدادوں پر قبضے ہو جائیں گے اور ریاست وقف جائیدادوں سے خالی ہو جائے گی۔
تلنگانہ ہائی کورٹ وقف بورڈ کے رویے سے فکر مند ہے۔ اس پھٹکار سے پہلے ماہِ اگست میں عدالت وقف بورڈ کی جانب سے داخل کردہ رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرچکی تھی۔ کیونکہ اس وقت وقف بورڈ نے عدالت کو بتایا تھا کہ عظیم تر حیدرآباد میں 513 قبرستان ہیں جن میں سے 63 قبرستانوں پر قبضہ ہو چکا ہے۔ لیکن وقف بورڈ نے عدالت میں داخل کردہ اپنی اس رپورٹ میں ناجائز قبضہ کرنے والوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائیوں کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا۔ تب عدالت نے وقف بورڈ سے نامکمل رپورٹ داخل کرنے کا جواز طلب کیا تھا جس پر وقف بورڈ کے اسٹینڈنگ کونسلر مرزا صفی اللہ بیگ نے وقت کی کمی اور وقف بورڈ میں اسٹاف کی قلت کا بہانہ بنانے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن چیف جسٹس راگھویندر سنگھ چوہان نے ان وجوہات کو واضح طور پر غیردرست قرار دیا اور کہا تھا کہ اس رپورٹ میں تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کے چیئرمین کی کوتاہی واضح نظر آ رہی ہے۔ اس کے جواب میں وقف اسٹینڈنگ کونسلر نے عدالت کو بتایا کہ ریوینیو ڈیپارٹمنٹ میں قبضوں سے متعلق مقدمات چل رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے صاف طور پر کہا تھا کہ دیوانی قانون اور فوجداری قانون دونوں علیحدہ علیحدہ ہیں، دیوانی مقدمات زیر سماعت ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ فوجداری مقدمات درج نہ کروائے جائیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وقف بورڈ کو تعزیرات ہند کے تحت فوجداری مداخلت (کریمنل ٹریس پاس) کے مقدمات درج کروانا چاہیے تھا لیکن وقف بورڈ نے ایسا نہیں کیا آخر اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اس سوال کا جواب وقف بورڈ کے پاس نہیں تھا۔
تلنگانہ ہائی کورٹ میں حیدرآباد کے تین لوگوں نے مفاد عامہ کی درخواست داخل کی تھی، ان میں صوبائی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین عابد رسول خان، وقف بورڈ کے مدّےپر کام کرنے والے سماجی کارکن محمد الیاس اور خواجہ بلال احمد کے نام شامل ہیں۔ مفاد عامہ کی ان تینوں درخواستوں کو ایک ساتھ ملا کر اس کی سنوائی چیف جسٹس راگھویندر سنگھ چوہان اور جسٹس وجئے سین ریڈی پر مشتمل ڈیویژن بنچ کر رہی ہے۔ اب اس معاملے میں اگلی سنوائی 17 دسمبر کو ہو گی۔
ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے محمد الیاس بتاتے ہیں کہ حیدرآباد کے بیشتر قبرستانوں پر ناجائز قبضے ہیں۔ ناجائز قبضوں کے جو اعداد وشمار وقف بورڈ دے رہا ہے، یہ وہی ہیں جن پر قبضوں کے شواہد وثبوت ہم نے اپنی مفاد عامہ کی درخواست میں دی ہے۔ حیرانی اس بات کی ہے کہ وقف بورڈ نے اپنی طرف سے ناجائز قبضوں کے اعداد وشمار جمع کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
وہ اس بات چیت میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ دراصل جو قابضین ہیں، ان کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہی اصل وجہ ہے کہ ان کے خلاف وقف بورڈ ایف آئی آر درج نہیں کر پا رہی ہے۔
محمد الیاس کی مفاد عامہ کی درخواست کی وکیل ولاد میر خاتون ہیں۔ ان کے ساتھ جڑے ایڈووکیٹ ساجد معراج ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں بتاتے ہیں کہ یہ پی آئی ایل خاص طور پر تلنگانہ میں وقف کے قبرستانوں کی گائڈلائنس طے کرانے کے لئے ہے تاکہ کسی قبرستان کا کوئی متولی اپنی من مانی نہ کر سکے۔ ساتھ ہی اس پی آئی ایل کا ایک اہم مقصد قبرستانوں کو ناجائز قبضوں سے آزاد کرانا ہے۔
اس گفتگو میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ حیدرآباد کے عام قبرستانوں میں 5 تا 10 ہزار روپوں میں کام چل جاتا ہے لیکن اگر کسی کی خواہش کسی خاص درگاہ سے متصل کسی قبرستان میں تدفین کی ہے تو اس کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور وہ رقم 5 لاکھ روپے تک بھی ہو سکتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے عابد رسول خان اور خواجہ بلال احمد سے بھی بات کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ رپورٹ لکھے جانے تک بات چیت نہیں ہوسکی۔
ضلع رنگاریڈی کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے
تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ نے ہائی کورٹ میں بتایا ہے کہ رنگا ریڈی ضلع کے حدود میں 928 قبرستان ہیں۔ ان میں سے 52 پر ناجائز قبضے ہیں، یعنی موجودہ وقت میں صرف 876 قبرستان بچے ہیں۔
یہاں وقف بورڈ نے صرف 3 ناجائز قابضین کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ اس کے علاوہ صرف 8 معاملوں میں وقف بورڈ نے وقف ایکٹ کی دفعہ 54 (1) کے تحت نوٹس دیا ہے اور انہیں نوٹس دینے کے بعد بورڈ ان قبضوں کو بھی بھول گیا۔ کچھ معاملوں میں نوٹس 16 سال پہلے دی گئی ہے اور اس کے بعد کچھ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح بورڈ نے 15 معاملوں میں پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروا کر ان قبرستانوں پر ہوئے قبضوں پر آنکھیں بند کر لیں اور ناجائز قبضہ کرنے والوں پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
دوسری جانب وقف بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد وشمار کے مطابق رنگاریڈی ضلع میں 1120 قبرستان ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ آخر 192 قبرستان کہاں غائب ہو گئے؟
اب اگر ناجائز قبضوں کی بات کریں تو ویب سائٹ پر موجود تفصیلات بتاتی ہیں کہ رنگاریڈی ضلع میں وقف کی کل 14785.17 ایکڑ زمین تھی، جس میں 13480.25 ایکڑ زمین پر ناجائز قبضے ہوچکے ہیں یعنی تقریباً 91 فیصد وقف کی زمینات پر ناجائز قبضے ہیں۔ اب سوال ہے کہ وقف بورڈ نے قبرستانوں سے متعلق جو اعداد و شمار عدالت میں پیش کیے ہیں وہ کس حد تک درست ہیں؟
اب چھپایا جارہا ہے یا پہلے بیوقوف بنایا گیا؟
گزشتہ سال 20 مارچ 2019 کو تلنگانہ وقف بورڈ نے بہادر پورہ کے قریب واقع مسلم قبرستان پر ناجائز قبضوں کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کرائی۔ اس ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ نہرو زولوجیکل پارک، بہادر پورہ کے قریب واقع قبرستان کی 10873 مربع گز اراضی نوٹیفائیڈ وقف جائیداد ہے اور آندھرا پردیش گزٹ میں مورخہ 9 فروری 1989 کے صفحہ 62 پر اس کا ذکر موجود ہے۔ وقف بورڈ کو شکایت موصول ہوئی کہ بعض افراد قبرستان کی کمپاؤنڈ وال منہدم کرتے ہوئے ناجائز قبضے کی تیاری کر چکے ہیں۔ وہاں غیر قانونی طور پر نرسری چلائی جا رہی ہے۔ وقف بورڈ کی جانب سے اس کے متعلق پہلے بھی شکایت کی جا چکی تھی۔ اس قبرستان کے بارے میں تمام دستاویزات وقف بورڈ کے پاس موجود ہیں۔ ضرورت پڑنے پر آرکائیوز ڈیپارٹمنٹ سے ریکارڈ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت یہ خبر حیدرآباد کے تمام اردو اخبارات کی سرخی بنی تھی اور وقف بورڈ کی خوب تعریف ہوئی تھی لیکن گزشتہ دنوں وقف بورڈ نے جن 86 قبرستانوں پر ناجائز قبضوں کی جو فہرست عدالت کو سونپی ہے اس میں اس ایف آئی آر کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا چھپایا جا رہا ہے یا پہلے بیوقوف بنایا گیا تھا؟
اس ’حادثے‘ کے سبب ہو رہی ہے قبرستانوں پر بحث
دراصل حیدرآباد میں قبرستان کی یہ پوری بحث ایک غیر انسانی ’حادثے‘ کے بعد شروع ہوئی ہے۔ یہ ’حادثہ‘ کچھ یوں ہوا ہے کہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ یعنی جمعة الوداع 22 مئی 2020 کے دن حیدرآباد کے حیدر شاہ کوٹ میں ایک شخص محمد خواجہ میاں کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوا۔ جب مرحوم کے فرزند محمد پاشا نے اپنے والد کی تدفین کے لیے اپنے قریب موجود قبرستان میں قبر تیار کرنے کا آغاز کیا تو مقامی ریوینیو افسر نے اُنہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس کے بعد خواجہ میاں نے درگاہ کے احاطے میں موجود پُرانے قبرستان میں ان کے والد کو دفنانے کے لیے کمیٹی سے درخواست کی لیکن انہیں کہا گیا کہ وہ یہاں کے مقامی نہیں ہیں اس لیے انہیں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کمیٹی نے محمد پاشا کے فرزند کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے والد کی تدفین کا اپنے وطن میں انتظام کرلیں۔ یہ جواب سن کر افسردہ محمد پاشا نے اس علاقہ کے اطراف میں موجود قبرستانوں کے انتظامی کمیٹیوں سے اجازت طلب کی لیکن کل چھ قبرستانوں کے ذمہ داروں نے کسی نہ کسی بہانے سے انکار کر دیا۔
محمد پاشا کی ان کوششوں میں شام ہو چکی تھی۔ لاک ڈاؤن کی مشکلات اور رات کا کرفیو بھی نافذ تھا۔ ان کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ایک مقامی نوجوان سندیپ نے انہیں مقامی ہندو قبرستان میں دفنانے کی پیشکش کی۔ دل برداشتہ محمد پاشا کے پاس اس پیشکش کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اس لیے انہوں نے اس تجویز کو قبول کرلیا اور رات 8 بجے خواجہ میاں کو گندم گوڈا کے ہندو قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔اس ’حادثہ‘ کے بعد حیدرآباد سے مزید ایک اور کہانی سامنے آئی۔ 26 مئی کو حیدرآباد کے ملا پور میں سلیم الدین صدیقی نامی شخص کا انتقال ہوا۔ واضح رہے کہ اس شخص کی موت بھی کوویڈ کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ لیکن مقامی قبرستانوں کے ذمہ داروں نے میت کے غیر مقامی ہونے کا بہانے بنا کر تدفین کی اجازت نہیں دی۔ اخباروں میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق اس صورت حال سے مایوس ہو کر سلیم الدین کے رشتہ داروں نے کانگریس کے ترجمان سید نظام الدین اور مائناریٹی ڈیپارٹمنٹ کے صدر سمیر ولی اللہ سے ربط قائم کیا جس کے بعد عثمان پورہ میں واقع بود علی شاہ قبرستان میں میت کی تدفین عمل میں آئی۔
پھٹکار کے بعد وقف بورڈ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ
تلنگانہ ہائی کورٹ کی اس پھٹکار کے بعد ایڈووکیٹ سید نجیب علی نے ایک پریس بیان جاری کر کے مطالبہ کیا ہے کہ وقف بورڈ کو تحلیل کرتے ہوئے آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدیداروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ سے یہ بھی کہا کہ وہ وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لیے ریاستی سطح پر ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لائیں اور اسے جوڈیشیل اختیارات دیتے ہوئے وقف جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ گزشتہ 3 ماہ کے دوران 3 مرتبہ وقف بورڈ عملے کی جانب سے جائیدادوں کی صیانت اور بازیابی کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیے جانے پر شدید برہمی و تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ ساتھ ہی چند روز قبل عدالت کے ذریعے دیے گئے فیصلے میں وقف بورڈ کے سی ای او کو فوری اثر کے ساتھ گھر بھیجنے کی ہدایت کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ حکومت وقف جائیدادوں کے معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ وقف بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں کو یہ علم نہیں ہے کہ کس طرح قابضین اور لینڈ گرابرس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ کریمنل کیس درج کرائے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کو رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اپنے پریس بیان میں ایڈووکیٹ سید نجیب علی نے یہ بھی کہا ہے کہ وقف بورڈ نے عدالتی چارہ جوئی کے لیے ماہرین قانون کی کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا لیکن آج تک یہ کمیٹیاں تشکیل نہیں دی گئیں جس کے نتیجے میں عدالتوں میں زیر سماعت کئی مقدمات میں عدم پیروی اور وکلاء کے گٹھ جوڑ کے باعث کئی کیسس میں وقف بورڈ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور ہزاروں کروڑ کی جائیدادیں قابضین کے تصرف میں دے دی گئیں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وقف بورڈ میں تمام ریکارڈس محفوظ رکھنے کے باوجود عدالتوں میں وکلاء، شواہد اور ثبوت کی بنیاد پر جائیدادوں کی بازیابی میں ناکام ثابت ہوئے۔
قبرستانوں کے لئے وقف بورڈ کا ہیلپ لائن نمبر
قبرستانوں کے لیے وقف بورڈ کا ہیلپ لائن نمبر ان دونوں معاملوں کے بعد تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ میں ایک ہیلپ لائن ڈیسک کا قیام عمل میں لایا گیا۔اس ہیلپ لائن ڈیسک کا مقصد مسلم میتوں کو بغیر کسی مشکل کے ہر قبرستان میں تدفین کو یقینی بنانا ہے۔ ہیلپ لائن ڈیسک کا نمبر 7995560136 ہے۔
حیدرآباد کے مقامی سماجی کارکنوں کی شکایت ہے کہ یہ ہیلپ لائن نمبر محض دکھاوے کے لیے ہے۔ لوگوں کے اس الزام کے بعد ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے اسی نمبر پر کال کیا۔ پہلے تو اس نمبر پر کال ریسیو نہیں کیا گیا لیکن کچھ منٹوں میں اسی نمبر سے واپس کال آیا۔ اس نمبر پر ہم سے وقف بورڈ کے ملازم محمد رحیم الدین بات کر رہے تھے۔
محمد رحیم الدین نے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وقف بورڈ کے اس یہ ہیلپ لائن نمبر پر ہم صبح 6 بجے سے 10 بجے شب تک موجود رہتے ہیں۔ کوئی ہمیں اس ضمن میں کال کرتا ہے تو ہم پہلے انکوائری کرتے ہیں کہ وہ واقعی ضرورت مند ہے یا نہیں؟ اگر وہ واقعی ضرورت مند ہے تو وقف بورڈ ان کی 5 ہزار روپوں کی مالی امداد کرتا ہے۔ اگر کوئی متولی قبرستان میں جگہ نہیں دے رہا ہو تو ہم اس سے بات کر کے جگہ دلواتے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ دن بھر میں مدد کے لیے کتنی کالز آتی ہیں؟ اس پر رحیم الدین نے کہا کہ دن بھر میں دو چار کالز ہی آتی ہیں۔ یہ پوچھنے پر کہ آپ کے پاس قبرستانوں اور ان کے متولیوں کی کوئی فہرست ہے؟ اس پر ان کا جواب تھا کہ ہمارے پاس ایسی کوئی فہرست نہیں ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ پھر یہ لوگ قبرستان کے متولیوں سے کیسے رابطہ قائم کرتے ہوں گے؟
***
’’وقف بورڈ کے سی ای او وقف جائیدادوں کے تحفظ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل میں نا کام رہے ہیں جبکہ وقف جائیدادوں کے تحفظ کی ذمہ داری انہی کے کاندھوں پر تھی۔ انہیں ان کا ہرحال میں تحفظ کرنا چاہیے تھا‘‘(تلنگانہ ہائی کورٹ)
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020