چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر کے انتخاب کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ کا تاریخی فیصلہ

وزیر اعظم، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس آف انڈیا چیف الیکشن کمشنر(سی ای سی) اور الیکشن کمشنر (ای سی )انتخاب کا کریں گے،سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو خود مختار ہونا چاہیے۔ یہ خود مختار ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا تو ناانصافی ہوگی

نئی دہلی ،02مارچ :۔
چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کے انتخاب کے سلسلے میں آج سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا ہے ۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق اب وزیر اعظم، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس آف انڈیا تینوں مل کر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کا انتخاب کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جس میں وزیر اعظم، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس آف انڈیا کو شامل کیا جائے۔ یہ کمیٹی صدر کو ایک نام تجویز کرے اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کیا جائے۔
عدالت نے مزید کہا کہ اگر کمیٹی میں لوک سبھا میں اپوزیشن کا کوئی لیڈر نہیں ہے تو سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کو اس میں شامل کیا جانا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ ان عرضیوں پر سنایا ہے، جن میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے کالجیم جیسا نظام قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے کہ حالیہ کچھ ماہ قبل الیکشن کمیشن کے انتخاب پر تنازعہ پیدا ہو گیا تھا۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے ملک میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کی تقرری کے لیے کالجیم کی طرح ایک آزاد پینل کی تشکیل کے حوالے سے یہ تاریخی فیصلہ دیا ہے۔ پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے یہ فیصلہ دیا ہے۔ بنچ میں جسٹس کے ایم جوزف، جسٹس اجے رستوگی، جسٹس انیرودھ بوس، ہرشیکیش رائے اور سی ٹی روی کمار شامل ہیں۔ دراصل چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کی منصفانہ اور شفاف تقرری کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
جسٹس رستوگی نے کہا کہ میں جسٹس کے ایم جوزف کے فیصلے سے متفق ہوں۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کی تقرری کا موجودہ عمل منسوخ کر دیا جائے گا۔ تقرری کے لیے ایک کمیٹی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے کام کاج کو ایگزیکٹو مداخلت سے الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہ الیکشن کمشنر کو سی ای سی جیسی سیکیورٹی دی جائے۔ انہیں حکومت ہٹا بھی نہیں سکتی۔ آئین بنانے والوں نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کی تقرری کے لیے قانون سازی کا کام پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا تھا، لیکن سیاسی نظام نے ان کے اعتماد میں خیانت کی اور گزشتہ سات دہائیوں سے قانون سازی نہیں کی گئی۔

لنکن نے جمہوریت کو عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے حکومت قرار دیا۔ حکومت کو قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔ جمہوریت اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب تمام اسٹیک ہولڈرز انتخابی عمل کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے اس پر کام کریں۔ قانون کی حکمرانی جمہوری طرز حکمرانی کی بنیادی اساس ہے

سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو خود مختار ہونا چاہیے۔ یہ خود مختار ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا تو ناانصافی ہوگی۔ ریاست کی ذمہ داری کی صورت حال میں کوئی شخص آزاد ذہن نہیں رکھ سکتا۔ ایک آزاد آدمی اقتدار میں رہنے والوں کا غلام نہیں ہوگا۔ ایک ایماندار شخص عام طور پر بڑے اور طاقتور کا مقابلہ بڑی دلیری سے کرتا ہے۔ ایک عام آدمی جمہوریت کی حفاظت کے لیے ان کی طرف دیکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ لنکن نے جمہوریت کو عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے حکومت قرار دیا۔ حکومت کو قانون کے مطابق چلنا چاہیے۔ جمہوریت اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب تمام اسٹیک ہولڈرز انتخابی عمل کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے اس پر کام کریں۔ قانون کی حکمرانی جمہوری طرز حکمرانی کی بنیادی اساس ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ اقربا پروری، خود مختاری وغیرہ کے نقائص سے بچنے کا وعدہ ہے۔ جو الیکشن کمیشن قانون کی حکمرانی کی ضمانت نہیں دیتا وہ جمہوریت کے خلاف ہے۔ اختیارات کے وسیع میدان میں، اگر اسے غیر قانونی یا غیر آئینی طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تو اس کا اثر سیاسی جماعتوں کے نتائج پر پڑتا ہے۔ ہمارے پاس نوٹا کا آپشن ہے، جو امیدواروں کے ساتھ رائے دہندگان کے عدم اطمینان کو ظاہر کرتا ہے۔ مزید کہا کہ سی ای سی اور ای سی کو یکساں تحفظ اور ہٹانے کے لیے مشترکہ طریقہ کار ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ، لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی طرح ای سی آئی کے لیے آزاد سیکرٹریٹ ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ، لوک سبھا اور راجیہ سبھا جیسے ای سی آئی کے لیے آزاد بجٹ ہونا چاہیے۔ اس پریکٹس کو اس وقت تک لاگو کیا جائے گا جب تک پارلیمنٹ اس حوالے سے کوئی قانون نہیں بنا لیتی۔