ہاتھرس اجتماعی عصمت دری اور قتل کیس: الہ آباد ہائی کورٹ نے سی بی آئی سے کہا کہ وہ مقدمے میں ہوئی پیش رفت کی رپورٹ پیش کرے
نئی دہلی، ستمبر 1: الہ آباد ہائی کورٹ نے منگل کو مرکزی تفتیشی بیورو کو ہدایت دی کہ وہ ہاتھرس اجتماعی عصمت دری اور قتل کیس کی سماعت میں پیش رفت کے بارے میں حلف نامہ داخل کرے۔
14 ستمبر 2020 کو ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کو چار اونچی ذات کے مردوں نے اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کر دیا تھا۔ ضلعی حکام نے 30 ستمبر کو صبح 3 بجے کے قریب 19 سالہ لڑکی کی لاش کو اس کے گھر والوں کی رضامندی کے بغیر خفیہ طور پر سپرد خاک کر دیا تھا۔ آخری رسومات کے دوران پولیس نے انھیں ان کے گھر میں بند کر دیا تھا۔
ہائی کورٹ نے اکتوبر 2020 میں اس کیس کا ازخود نوٹس لیا تھا، جب اس نے ملک بھر میں غم و غصے اور احتجاج کو جنم دیا۔
منگل کی سماعت میں اتر پردیش حکومت نے جسٹس راجن رائے اور جسپریت سنگھ پر مشتمل بنچ کو مطلع کیا کہ ریاست لاشوں کے باوقار تدفین کے لیے معیاری آپریٹنگ طریقۂ کار کی تیاری کے آخری مرحلے میں ہے۔
ججوں نے معاملے کی مزید سماعت 20 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
5 اگست کو ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ ایس او پی کو پولس اسٹیشنوں، اسپتالوں، بنیادی صحت مراکز اور ضلع ہیڈکوارٹرز جیسی جگہوں پر وسیع پیمانے پر عام کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ حکام قواعد سے واقف ہیں۔
ججوں نے کہا کہ ’’آئین ہند کی دفعہ 21 کے تحت باوقار زندگی کا حق نہ صرف زندہ انسان کو حاصل ہے بلکہ مردہ کو بھی حاصل ہے۔‘‘
27 جولائی کو ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ دلت خاتون کے خاندان کے ایک فرد کو ملازمت فراہم کرنے پر غور کرے۔
عدالت نے حکام کو اگلے چھ ماہ کے اندر اس خاندان کو ہاتھرس سے باہر منتقل کرنے کا بھی حکم دیا تھا، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ اجتماعی عصمت دری کے بعد خاندان کے لیے گاؤں میں معمول کی زندگی گزارنا مشکل ہو گیا تھا۔
خاتون کے خاندان نے اگست 2021 میں نیوز لانڈری کو بتایا تھا کہ ’’ہم یہاں محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ [اعلی ذات کے] ٹھاکر ہم سے بہت ناراض ہیں۔‘‘