ہریانہ کی کابینہ نے تبدیلیِ مذہب مخالف بل کو منظوری دے دی

نئی دہلی، فروری 9: این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق ہریانہ انسداد غیر قانونی تبدیلی مذہب بل 2022 کے مسودے کو بدھ کے روز ریاستی کابینہ نے منظوری دے دی۔ اس بل کا مقصد دھمکی، زبردستی، دھوکہ دہی، رغبت، غلط بیانی یا شادی کے ذریعے مذہب کی تبدیلی پر پابندی لگانا ہے۔

اب اسے ریاستی قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جس کا آغاز 2 مارچ سے ہوگا۔

ٹویٹر پر پوسٹ کردہ ایک ویڈیو میں وزیر اعلی منوہر لال کھٹر نے کہا کہ یہ بل غیر قانونی اور جبری مذہبی تبدیلی کو روکنے کے لیے لایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس بل میں مذہب تبدیل کرنے والے لوگوں سے متعلق بھی دفعات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جو لوگ مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں انھیں یہ اعلان کرنا ہوگا کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنا مذہب تبدیل کر رہے ہیں اور درخواست دائر کر رہے ہیں۔

کھٹر نے کہا ’’اگر کوئی تبدیلی کے بارے میں مطلع نہیں کرتا ہے اور زبردستی شادی، دھوکہ دہی یا لالچ کے تحت مذہب تبدیل کرتا ہے تو یہ تبدیلی غیر قانونی ہوگی۔ اسے ہی روکنے کے لیے یہ قانون ودھان سبھا کے سامنے لایا جا رہا ہے۔‘‘

معلوم ہو کہ نومبر میں ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج نے کہا تھا کہ ان کی حکومت نے ’’لو جہاد‘‘ پر قانون بنانے کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اسی مہینے میں کھٹر نے بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت ایک ایسے قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے رہی ہے جو ریاست میں ’’لو جہاد‘‘ کو روکے گا۔

’’لو جہاد‘‘ ہندوتوا گروپس کا ایک سازشی نظریہ ہے جس کے تحت مسلمان مردوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ شادی کے ذریعے ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔

ریاستی کابینہ کے ذریعہ منظور کردہ مسودہ بل کے ’’مقاصد اور وجوہات‘‘ میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے ’’بے شمار واقعات‘‘ ہوئے ہیں۔ اس میں دعوی کیا گیا ہے کہ ’’چھپے ہوئے ایجنڈے کے ساتھ فرضی سماجی تنظیمیں‘‘ ریاست میں دوسرے مذاہب کے کمزور طبقات کا مذہب تبدیل کروانے کے لیے موجود ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے ’’ماضی میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کا مذہب تبدیل کروا کر اپنے مذہب کی مضبوطی بڑھانے کے ایجنڈے کے ساتھ لوگ غلط بیانی سے یا اپنے مذہب کو چھپا کر دوسرے مذہب کے لوگوں سے شادی کرتے ہیں اور شادی کرنے کے بعد دوسرے شخص کو مذہب تبدیل کروانے کے لیے زبردستی کرتے ہیں۔‘‘

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق مسودہ بل میں کہا گیا ہے کہ زبردستی تبدیلی مذہب کے یہ واقعات نہ صرف مذہب کی آزادی کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو معاشرے کے سیکولر تانے بانے کے خلاف ’’متحرک‘‘ کرتے ہیں۔

مسودہ بل حکام کو ایسے معاملات کی انکوائری کا اختیار دیتا ہے۔ یہ مذہب کو چھپا کر کی جانے والی شادیوں کو کالعدم قرار دینے کی بھی اجازت دیتا ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق جہاں ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزرا نے بل لانے کے پیچھے ’’لو جہاد‘‘ کا حوالہ دیا ہے، وہیں نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ، جن نائک جنتا پارٹی کے صدر، اس اصطلاح کے حق میں نہیں ہیں۔

این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے چوٹالہ نے کہا تھا کہ وہ ’’لو جہاد‘‘ کی اصطلاح سے متفق نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’’ہم خاص طور پر زبردستی مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لیے ایک قانون بنائیں گے اور ہم اس کی حمایت کریں گے۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرتا ہے یا کسی دوسرے عقیدے کے ساتھی سے شادی کرتا ہے تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘‘

اتر پردیش، کرناٹک، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش جیسی بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستیں پہلے ہی ’’لو جہاد‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے تبدیلی مذہب مخالف قوانین نافذ کر چکی ہیں۔