کانگریس کے واک آؤٹ کے درمیان ہریانہ اسمبلی نے تبدیلی مذہب مخالف بل پاس کیا
نئی دہلی، مارچ 22: ہریانہ اسمبلی نے منگل کو کانگریس کے واک آؤٹ کے درمیان مذہب کی تبدیلی کے خلاف ایک بل منظور کر لیا.
ہریانہ انسداد غیر قانونی تبدیلی مذہب بل 2020، 9 فروری کو ریاستی کابینہ سے منظوری ملنے کے بعد 4 مارچ کو اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔
بل کے مطابق رغبت، طاقت کے استعمال، دھوکہ دہی یا زبردستی کے ذریعے کی گئی تبدیلی کے کسی بھی معاملے میں ایک سے پانچ سال کی قید اور ایک لاکھ روپے سے کم جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی کسی نابالغ، عورت یا درج فہرست ذات یا درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے شخص کا مذہب تبدیل کراتا ہے یا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کرتا ہے، اسے کم از کم چار سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔ اس مدت کو 3 لاکھ روپے سے کم جرمانے کے ساتھ 10 سال تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
انڈین ایکسپریس نے رپورٹ کیا کہ بل کے مطابق ثبوت کی ذمہ داری ملزم پر ہے۔
اتر پردیش، کرناٹک، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں اسی طرح کے بلوں کو پہلے ہی منظور کیا جا چکا ہے۔
ان بلوں کا مقصد ’’لو جہاد‘‘ سے نمٹنا ہے، جو ہندوتوا گروپس کا ایک سازشی نظریہ ہے جس کے تحت وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمان مرد ہندو خواتین کو بعد میں اسلام قبول کروانے کے لیے ان سے شادی کرتے ہیں۔
یہ اصطلاح فروری 2020 میں لوک سبھا میں بی جے پی حکومت کے اس بیان کے باوجود استعمال کی جا رہی ہے کہ ’’کسی بھی مرکزی ایجنسی کے ذریعہ ’لو جہاد‘ کا کوئی معاملہ رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
منگل کو ہریانہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھوپندر سنگھ ہڈا نے کہا تھا کہ موجودہ قوانین میں پہلے سے ہی زبردستی تبدیلی مذہب کے لیے سزا کی دفعات موجود ہیں اور نئے قانون لانے کی ضرورت نہیں ہے۔
کانگریس لیڈر کرن چودھری نے کہا کہ بل کی منظوری ہریانہ کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔
چودھری نے کہا ’’یہ بل فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید گہرا کرے گا۔ یہ بل خوفناک ہے۔ مستقبل میں اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔‘‘
انڈین ایکسپریس کے مطابق 4 مارچ کو کانگریس کے ایم ایل اے ڈاکٹر رگھویر سنگھ کادیان کو ہریانہ اسمبلی سے اس وقت معطل کر دیا گیا تھا جب انھوں نے تبدیلی مذہب مخالف بل کی کاپی پھاڑ دی اور پھر معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔
کادیان نے الزام لگایا تھا کہ یہ بل ریاستی حکومت کے ’’چھپے ہوئے ایجنڈے‘‘ کا حصہ ہے تاکہ مذہب کی بنیاد پر سماج میں تفریق پیدا کی جا سکے۔
تاہم ایوان میں بی جے پی کے قانون سازوں نے کادیان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بل میں کسی خاص مذہب کا نام نہیں لیا گیا ہے اور نہ ہی کسی خاص مذہب کو نشانہ بنایا گیا ہے۔