حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے’ہماری دھروہر‘ اسکیم
اقلیتی طبقے کی تہذیبی و ثقافتی یادگاروں کے تحفظ کے لیے حکومت کی سنجیدگی خوشنما اعلانات تک محدود
افروز عالم ساحل
سال 2014 میں جب مرکزی حکومت نے ’ہماری دھروہر‘ اسکیم کی شروعات کا اعلان کیا تھا تو ایک لمحے کے لیے لگا کہ حکومت حقیقت میں اقلیتوں سے جڑی دھروہروں کو بچانے کے لیے سنجیدہ ہے، لیکن آر ٹی آئی کے ذریعے ملے اہم دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اہم اسکیم اب حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی نہ ہی وہ اس معاملہ میں سنجیدہ ہے۔ جبکہ یہ اسکیم اقلیتی شناخت کی خاطر بنائی گئی تھی۔
ہفت روزہ دعوت کے نمائندے کو حکومت ہند کے وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آرٹی آئی) کے تحت ملے اہم دستاویزات سے معلوم ہوا کہ گزشتہ تین چار برسوں سے مرکزی حکومت نے اس اسکیم کے لیے جتنا بجٹ رکھا یا جاری کیا، اس کا 20 فیصد بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ وہیں دوسری جانب اس اہم اسکیم کا بجٹ سال در سال گھٹتا جارہا ہے۔
آر ٹی آئی کے دستاویز کے مطابق مالی سال 2020-21 میں اقلیتی برادریوں کی مالا مال وراثت کے تحفظ کی اسکیم ’ہماری دھروہر‘ کے لیے بجٹ تو محض 3 کروڑ روپے ہی طے کیا گیا، لیکن جب اس بجٹ کو منظور کرنے کی باری آئی تو اس رقم کو بڑھا کر مرکزی حکومت نے 5.20کروڑ روپے کر دیا۔ لیکن آر ٹی آئی سے حاصل شدہ دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ 31 دسمبر 2020 تک مرکزی حکومت 02.49 کروڑ روپے ہی خرچ کر پائی ہے۔
سال 2019-20میں اس اسکیم کے لیے 8 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن صرف 3 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے اور جب خرچ کی بات آئی تو اس رقم میں صرف 70 لاکھ روپے ہی خرچ کیے گئے۔ 2018-19کی کہانی مختلف ہے۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 6 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا، اور 6کروڑ روپے جاری بھی کیے گئے لیکن جب خرچ کی باری آئی تو صرف 1.64 کروڑ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔
یہی کہانی سال 2017-18میں بھی نظر آئی۔ اس سال اس اسکیم کے لیے 12 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا اور 12 کروڑ روپے جاری بھی کیے گئے لیکن جب خرچ کی باری آئی تو صرف 64 لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ اس بار یعنی سال 2021-22کے لیے اس اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے گھٹا کر محض 2 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔
واضح ہو کہ مرکزی حکومت کے ذریعے مالی سال 2014-15سے عمل درآمد ہونے والے اس ’ہماری دھروہر‘ اسکیم کا مقصد ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کے مجموعی نظریے کے تحت ہندوستان میں اقلیتی برادریوں کی وراثت کا تحفظ کرنا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس اسکیم کے تحت رسمی نمائشوں کا انعقاد، خطاطی، پرانے دستاویزوں کا تحفظ، ریسرچ اور ڈیولپمنٹ وغیرہ میں تعاون کر کے اقلیتوں کے شاندار ورثہ اور ثقافت کا تحفظ کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
اس اسکیم کے تحت پارسی سماج کی تاریخ، عقائد اور ان کے تہذیب و ثقافت کی نمائش کے لیے ایک بین الاقوامی نمائش ’دی ایور لاسٹنگ فلیم‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں پارسی کلچر سے متعلق 3 موبائل نمائشوں کا انعقاد وزارت ثقافت اور پارزور فاؤنڈیشن کے اشتراک سے وزارت اقلیتی امور نے 19 مارچ سے 29 مئی 2016 کے درمیان کیا تھا۔ سال 2018 میں لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے بتایا تھا کہ صرف اسی پروگرام پر 17.2 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
اس کے علاوہ اس اسکیم کے تحت وزارت اقلیتی امور نے طب، ریاضی، ادب وغیرہ کے موضوع پر مغلیہ دور کے 240 قیمتی دستاویزوں، قدیم اور نادر کتابوں کا عربی سے انگریزی زبان میں ترجمہ، دوبارہ اشاعت اور ڈیجیٹلائزیشن کے لیے 1888 میں قائم شدہ ادارہ دائرۃ المعارف، عثمانیہ یونیورسٹی، تلنگانہ کے لیے 34.66 کروڑ روپیوں ایک پروجکٹ مختص کیا گیا ہے۔ سال 2014 میں لوک سبھا میں اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ مرکزی حکومت کے اس پروجکٹ کے لیے 2.77 کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئی تھی۔ لیکن یہ پروجیکٹ ابھی کہاں تک پہنچ پایا اس کی کوئی جانکاری پبلک ڈومین میں موجود نہیں ہے۔
اس سے متعلق ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے دائرۃ المعارف سے بھی رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن رپورٹ لکھنے تک اس سلسلے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔
مارچ 2018 میں پارسی ورثہ کے تحفظ کی خاطر 9.98 کروڑ روپے کا ایک پروجیکٹ ’نوساری‘ کو منظور کیا گیا۔ اسی وقت اس پروجکٹ کے لیے 5 لاکھ روپے کی رقم بھی جاری کر دی گئی، لیکن اس کام ابھی کہاں تک پہنچا اس کی بھی کوئی جانکاری فی الحال پبلک ڈومین میں موجود نہیں ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021