حکيم اجمل خان : جنہوں نے ناموس وطن کی خاطر انگريزوں کے بخشے ہوئے تمام اعزازات کو ٹھکرا ديا

افروز عالم ساحل

نومبر 1917کی بات ہے۔ کلکتہ ميں مسلم ليگ کا سالانہ اجلاس تھا۔ يہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر کانگريس کا اجلاس آراستہ تھا۔ دونوں جگہ دل ايک ہی طرح سے دھڑک رہے تھے، تبھی بہار کے آرہ ميں ہندو مسلم فساد ہوگيا۔ يہ خبر آرہ سے نکل کر کلکتہ پہنچی۔ اس خبر کے مطابق مسلمانوں نے جان و مال کا کافی نقصان اٹھايا۔ مسلم ليگ کے اجلاس ميں کھلبلی مچ گئی، اس اجلاس نے اس فساد کی مذمت کی اور نقصان اٹھانے والے مسلمانوں کی حمايت ميں ايک قرارداد پيش کی۔

اسی اجلاس ميں حکيم اجمل خان اور ڈاکٹر ايم اے انصاری بھی موجود تھے۔ انہوں نے سوچا کہ کانگريس کے اجلاس ميں بھی ايسی ہی قرارداد منظور ہو جائے تو مناسب رہے گا۔ جب کانگريس اور مسلم ليگ تمام قومی معاملات ميں ہمنوا ہيں تو اس معاملہ ميں بھی ہمنوا ہونا چاہيے۔ اس مقصد سے اس کانگريس اجلاس کی صدر مسز اينی بيسنٹ کے مکان پر کانگريسی رہنماؤں کو جمع کرکے ان کے سامنے يہ تجويز رکھی گئی۔ مگر وہاں گاندھی جی اور سی آر داس کے سوا تمام رہنماؤں نے اس تجويز کی مخالفت کی۔ ايسے ميں تجويز نا منظور ہوئی اور کانگريس کے ذريعہ اس بارے ميں قرارداد پيش نہيں جا سکی، ليکن گاندھی جی نے جس فراخ حوصلگی کے ساتھ اس تجويز کی حمايت کی تھی، اس نے حکيم صاحب کو بہت متاثر کيا۔

ڈاکٹر انصاری صاحب کے مطابق گاندھی جی سے يہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ ليکن گاندھی کا بيان مختلف ہے۔ گاندھی کے مطابق 1915 سے ہی ملاقات کا شرف حاصل ہے۔جبکہ گاندھی جی سے اورحکيم اجمل صاحب کی ملاقاتيں 1915سے ہی ہوتی چلی آرہی تھی، مگر يہ ملاقاتيں بس دور دور کی ملاقاتيں تھيں۔ 1917کی يہ ملاقات کی کوئی خاص ملاقات نہيں تھی، اس کے چند مہينے بعد ايک جلسے ميں پھر سے مل گئے۔ يہ اجلاس لارڈ چيمسفورڈ نے جنگ ميں ہندوستانی رہنماؤں کا تعاون حاصل کرنے کی غرض سے بلايا تھا۔ اجلاس دہلی ميں 27 اپريل 1918 کو ہوا تھا۔ اس اجلاس ميں گاندھی جی اور حکيم صاحب دونوں رہنماؤں کو مدعو کيا گيا تھا۔ مگر يہاں بھی يہ دونوں ايک دوسرے کے قريب نہيں آئے۔ اس اجلاس کی يادداشت کو خود گاندھی جی نے کچھ اس طرح سے قلمبند کيا ہے، ’حکيم اجمل خاں سے ابھی زيادہ قريب نہيں ہوا تھا، اگرچہ پرنسپل اور چارلی اينڈريو نے مجھ سے ان کی بہت تعريفیں کی تھيں‘۔

26 دسمبر 1918کو دہلی ميں کانگريس کا اجلاس شروع ہوا۔ حکيم صاحب کانگريس کی مجلس استقباليہ کے صدر تھے۔ کانگريس کی تاريخ ميں يہ پہلا موقع تھا کہ يہاں آيورويدک اور يونانی طب کی قرارداد منظور ہوئی۔ اور يہ ممکن ہو سکا صرف اور صرف حکيم اجمل خان صاحب کی وجہ سے۔ انہيں تاريخوں ميں دہلی ميں ہی مسلم ليگ کا بھی اجلاس ہورہا تھا۔ حکيم صاحب نے مسلم ليگ کے اجلاس ميں پہنچ کر شيخ الہند مولانا محمود حسن اور دوسرے نظربندوں کی رہائی کی قرارداد پيش کی۔ ادھر کانگريس ميں علی برادران کی رہائی کا مطالبہ کيا جا رہا تھا۔ اسی مطالبہ کے ساتھ يہ تجويز بھی منظور ہوئی کہ ايک وفد انگلستان بھيجا جائے۔ حکيم صاحب مجوزہ وفد کے رکن منتخب ہوئے۔

رولٹ ايکٹ کی مخالفت ميں حکيم صاحب

21 فروری 1919کو کراچی ميں ايک طبی کانفرنس منعقد ہوئی۔ حکيم صاحب نے اس کی صدارت کی۔ اس سے فارغ ہوکر جب حکيم صاحب دہلی پہنچے تو زمانے کا رنگ کچھ سے کچھ ہو گيا تھا۔ رولٹ بل ليجیسليٹيو کونسل ميں پيش ہوچکا تھا۔ گاندھی جی نے اعلان کرديا تھا کہ اگر يہ کالا قانون پاس ہوگيا تو ستيہ گرہ شروع ہوگی، ليکن باوجود اس کے 18مارچ 1919کو رولٹ ايکٹ پاس ہوگيا۔ گاندھی جی نے 30مارچ سے ہڑتال کا اعلان کر ديا۔ بعد ميں يہ تاريخ بدل کر 6اپريل کردی گئی، ليکن دلّی 30 مارچ کو ہی پھٹ پڑی۔ ہر طرف جلوس اور نعروں کا بول بالا تھا۔ حکيم صاحب اور سوامی شردھانند مل کر شہر پر راج کر رہے تھے۔ بقول گاندھی جی ’اس شہر ميں حکيم اجمل خان اور سوامی شردھانند کے منہ سے نکلی ہر بات قانون کی حيثيت رکھتی تھی۔ دہلی ميں اب سے پہلے کبھی ايسی ہڑتال نہيں ہوئی تھي‘۔

حکيم صاحب اور سوامی جی ايک جان دو قالب بنے ہوئے تھے۔ ہندو مسلمان باہم شيروشکر تھے۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کے ہاتھ سے پانی پينا شروع کرديا تھا۔ مسلمان سوامی جی سے اتنے خوش ہوئے کہ انہيں جامع مسجد ميں لے گئے۔ سوامی جی نے شاہجہانی مسجد ميں کھڑے ہوکر مسلمانوں کو خطاب کيا۔

حکيم صاحب اور سوامی جی دونوں نےبہت کوشش کی کہ احتجاج پرامن رہے، مگر پيمانہ لبريز تھا، پہلے ہی دن چھلک پڑا۔ 30 مارچ کو ہی گولی چل گئی۔ گاندھی جی دہلی کی طرف کوچ کر چکے تھے، مگر راستے ہی ميں گرفتار کر ليے گيے۔ ادھر امرتسر کے جلياں والہ باغ ميں قيامت گزر گئی۔ پھر کيا تھا، دلّی پوری طرح سے ابل پڑی اور يہ ابال قريب تين ہفتوں تک جاری رہا۔ ايسا لگتا ہے کہ يہ سب ٹھيک ويسا ہی ہوا، جيسا حاليہ دنوں دلّی ميں شہريت ترميمی قانون کی مخالفت کے مظاہروں ميں ہورہا ہے۔

خلافت تحريک اور حکيم صاحب

دلّی ميں اب امن تھا، مگر مسلمان مضطرب تھے۔ يہ اضطراب ترکی کے ليے تھا جس کی سالميت خطرے ميں تھی۔ خلافت کے مسئلہ کو موضوع بناکر ايک کل ہند کانفرنس بلائی گئی۔ داعيوں ميں چار اشخاص پيش پيش تھے، مولانا عبدالباری، حکيم اجمل خاں، ڈاکٹر انصاری اور آصف علی۔ مختلف صوبوں ميں خلافت کميٹياں پہلے ہی قائم ہوچکی تھيں۔ دہلی کی خلافت کميٹی کے صدر حکيم صاحب تھے۔ اسی کميٹی کے زير اہتمام ايک کل ہند خلافت کانفرنس 23 اور 24 نومبر 1919 کو دہلی ميں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس ميں گاندھی جی بھی شريک تھے۔ 23 نومبر کے اجلاس کی صدارت اے کے فضل الحق صاحب نے کی تو وہيں 24 نومبر کی صدارت کی باگ ڈور گاندھی جی کے ہاتھ ميں تھی۔

اب 1920 کا دور شروع ہوچکا تھا اور خلافت کی تحريک ميں گرمی پيدا ہوتی جا رہی تھی۔ 19جنوری 1920کو ايک وفد وائسرائے ہند لارڈ چيمسفورڈ سے ملنے گيا۔ اس وفد ميں مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر انصاری، گاندھی جی، مولانا عبدالباری، حسر ت موہانی، سوامی شردھانند، ڈاکٹر سيف الدين کچلو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ حکيم اجمل خان صاحب بھی تھے۔ وائسرائے نے يہ کہتے ہوئے کہ ترکی کے معاملات ميں ہمارا اختيار نہيں، اس وفد کو لندن کا راستہ دکھايا۔

مولانا محمد علی جوہر کی قيادت ميں ايک وفد مارچ 1920ميں وزير اعظم سے ملنے کے ليے لندن گيا جس نے امن کانفرنس کی سپريم کونسل سے اپنا کيس پيش کرنے کی اجازت مانگی، جسے رد کر ديا گيا۔ وزير اعظم لائيڈ جارج نے اس وفد کو صاف صاف کہہ ديا کہ جو علاقہ ترکی کا نہيں ہے، اسے رکھنے کی اجازت سلطنت عثمانيہ کو نہيں دی جائے گی۔ اس سے ہندوستان کے جذبات مزيد مجروح ہوئے۔

19 ؍مارچ 1920 کو يوم خلافت منايا گيا اور گاندھی جی نے ملک ميں تحريک عدم تعاون کے پروگرام کا اعلان کيا۔ گاندھی جی کے پروگرام کی پہلی شق يہ تھی کہ خطاب اور تمغے واپس کر ديے جائيں۔ حکيم صاحب نے اپنا خطاب اور تمغہ دونوں واپس کر ديے اور برطانوی حکومت کو لکھ بھيجا، ’ بحيثيت ايک حقير مسلمان کے ميں ان عزتوں سے دست کش ہوتا ہوں جو مجھے گورٹمنٹ کی طرف سےعطا کی گئيں تھيں۔ ميں قيصرہند گولڈ ميڈل اور دو انگلستان اور ہندوستان کی تاجپوشی کے درباروں کے تمغوں کے ساتھ ساتھ جنہيں ميں آپ کی خدمت ميں بھيج رہا ہوں آج کی تاريخ سے’حاذق المک’ کے خطاب سے بھی اپنے آپ سبکدوش سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ يہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ ميرا نام درباريوں کی فہرست سے خارج کرديا جائے‘۔

وہ خطاب جس کے ملنے پر اتنی خوشياں منائی گئی تھيں اور جس پر مولانا حالی نے منظوم مبارکباد پيش کی تھی، آج عطا کرنے والوں کو واپس کر ديا گيا تھا۔ اب ’حاذق المک‘ حکيم اجمل خان سيدھے سچے حکيم اجمل خان تھے۔ مگر ايک خطاب گيا دوسرا خطاب آيا۔ دوسرا خطاب اپنوں کی طرف سے ملا تھا۔ جمعيت العلماء نے اپنے کانپور اجلاس ميں ’حاذق المک‘ کا خطاب واپس کرنے پر حکيم صاحب کو خراج تحسين پيش کيا اور قوم کی طرف سے’’ مسيح الملک‘‘ کا خطاب عطا کيا۔ اس خطاب کو قبول عام کی سند حاصل ہوئی۔ حکيم صاحب اب مسيح الملک حکيم اجمل خان بن چکے تھے۔

حکيم اجمل خان کا نام آج بھی ان عظيم رہنماؤں کی فہرست ميں شمار ہوتا ہے جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو پستی اور زبوں حالی سے نکالنے اور انہيں تعليم سے آراستہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ آپ مجاہد آزادی، ايک بہترين سياستداں اور نامور طبيب تھے جن کی پيدائش 11 فروری 1868 کو دہلی ميں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ شروع ميں حکيم صاحب جنگ آزادی کے تئيں بہت زيادہ متحرک نہيں تھے، ليکن جب انھوں نےہفتہ وار ’اکمل الاخبار‘ کے ليے لکھنا شروع کيا تو دھيرے دھيرے وہ سياست ميں دلچسپی لينے لگے اور ہندوستانيوں کو انگريزوں کی غلامی سے نجات دلانے کے ليے پرعزم ہو گئے۔ حکيم اجمل خان کی بڑھتی ہوئی سياسی سرگرميوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگايا جا سکتا ہے کہ وہ واحد ليڈر تھے جنھيں انڈين نيشنل کانگريس، مسلم ليگ اور آل انڈيا خلافت کميٹی تينوں کا صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے 1906 ميں شملہ ميں ہندوستان کے وائسرائے کو عرضداشت پيش کرنے والے مسلم وفد کی قيادت بھی کی۔ انڈين نيشنل کانگريس کے صدر بھی منتخب ہوئے۔1921ميں احمدآباد ميں منعقد کانگريس کے اجلاس کی صدارت کی۔ حکيم صاحب جامعہ مليہ اسلاميہ يونيورسٹی کے بانيوں ميں تھے اور 22 نومبر 1920 ميں انھيں پہلا وائس چانسلر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کے بعد 29 دسمبر 1927 ميں اپنے انتقال تک وہ وائس چانسلر بنے رہے۔