حقیقی کامیابی کا قرآنی تصور

اخروی فلاح کا راستہ دکھانے والی آیات کا ایک مطالعہ

محمد حسن الزمان

وہ صفات اور طرز عمل جسے اختیار کرکے ابدی خسارے سے بچا جاسکتا ہے
دنیا میں پیدا ہونے والا ہر انسان چاہے مرد ہو یا عورت، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، امیر ہو یا غریب ہر کوئی اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ عمل عین فطری ہے جو پیدائش سے لے کر موت تک جاری رہتا ہے ۔انسان پیدا ہوتا ہے تو والدین بچے کو تعلیم دلاتے ہیں تاکہ اولاد پڑھ لکھ کر کامیاب ہو جائے، کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اولاد ناکام ہوگی تو کیا ہوگا، سبھی کو کامیابی کی ہی امید ہوتی ہے۔ کوئی کاروباری یہ نہیں سوچتا کہ نقصان ہوگا تو کیا ہوگا؟ ترقی اور فائدہ کی بنیاد پر ہی کاروبار کیا جاتا ہے۔ ہر کسی کا کامیابی کا اپنا معیار ہے جس تک پہنچ کر انسان اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہے۔کوئی دنیا کا سب سے امیر ترین آدمی بننا چاہتا ہے، کسی کا مقصد عزت اور شہرت کی بلندی حاصل کرنا ہوتا ہے، کوئی عشق و محبت کے حصول کا دیوانہ ہے تو کوئی اعلیٰ عہدہ اور منصب کے حصول کے لیے کوشاں ہے تو کوئی امریکہ، یوروپ وغیرہ ممالک کی نیشنیلٹی حاصل کرنے کی جد وجہد میں مصروف عمل ہے۔
ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور یہاں کا ٹھکانہ عارضی ہے اس کے باوجود اسے یہاں کی کامیابی عزیز تر ہے اور اس کے حصول کے لیے دن، رات کوشاں ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کامیابی کے تعلق سے انسانوں کے سامنے کیا تصور پیش کرتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِ‌ؕ وَاِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ‌ؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ‌ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ‏ (آل عمران:185)
آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔
کامیابی آغاز سے ہی نہیں ملتی بلکہ پہلے امید پھر یقین اور پھر پختہ یقین کے ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے: تفلحون، مفلحون اور افلح۔
تفلحون یعنی امید کہ کامیاب ہو جاؤ گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کامیابی نصیب ہونا مشکوک ہے بلکہ دراصل یہ شاہانہ انداز بیان ہے۔ مثلاً کوئی بادشاہ اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے۔ ’تفلحون‘ قرآن مجید میں 11 مقامات پر آیا ہے۔
1۔ (ترجمہ) لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہو: یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعیین کی اور حج کی علامتیں ہیں نیز ان سے کہو: یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوتے ہو نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔ (سورہ البقرہ:189) اس آیت کے ذریعہ اللہ عز وجل نے جاہلانہ رسوم ورواج اور توہمات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور نیکی کو تقوی سے جوڑا۔
2۔ (ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (آل عمران:130)
اس آیت میں اللہ بزرگ و برتر نے حکم دیا کہ سود خوری سے باز آؤ جس میں آدمی رات دن اپنے فائدے کے بڑھنے اور چڑھنے کا حساب لگاتا رہتا ہے اور جس کی وجہ سے آدمی کے اندر روپے کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے۔
3۔ (ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پا مردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (آل عمران:200)
اس آیت میں رب ذوالجلال نے امت مسلمہ کو تین باتوں کی وصیت کی ہے۔ صبر، مصابرہ اور مرابطہ۔ صبر یہ ہے کہ آدمی معاصی سے اور گناہوں سے بچے۔ مصابرہ یہ ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں ثابت قدم رہے۔ مرابطہ یہ ہے کہ بندھے رہیں۔
4۔ (ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کی جناب میں بار یابی کا ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جد وجہد کرو، شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو جائے۔ (المائدہ:35)
یعنی ہر اس ذریعہ کے طالب اور متلاشی رہو جس سے اللہ کا قرب حاصل ہو۔
5۔ (ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی ۔ (المائدہ:90)
اس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ 1۔ شراب 2۔ جوا کھیلنا 3۔ آستانے یعنی وہ مقامات جہاں خدا کے سوا کسی اور کی عبادت کی جاتی ہو یا خدا کے سوا کسی اور کے نام پر قربانی دی جاتی ہو اور نذر ونیاز چڑھانے کے لیے خاص ہوں 4۔ پانسے یعنی قرعہ کے تیر نکالنا، ان کو گندے شیطانی کام کہا گیا ہے۔ ان سے پرہیز پر کامیابی کی امیددلائی گئی ہے۔
6 ۔ اے پیغمبرؐ! اِن سے کہہ دو کہ پاک اور ناپاک بہر حال یکساں نہیں ہیں خواہ ناپاک کی بہتات تمہیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو، پس اے لوگو جو عقل رکھتے ہو! اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہو گی۔ (المائدہ:100)
یہ آیت قدر وقیمت کا ایک دوسرا ہی معیار پیش کرتی ہے جو ظاہر میں انسان کے معیار کے بالکل مختلف ہے، یہ آیت کہتی ہے سو روپے اگر خدا کی نافرمانی کرکے کمائے گئے ہوں تو وہ ناپاک ہیں اور پانچ روپے اگر خدا کی فرماں برداری کرکے کمائے گئے ہوں تو وہ پاک ہیں اور ناپاک خواہ مقدار میں کتنا زیادہ کیوں نہ ہو بہرحال پاک کے برابر نہیں ہو سکتا۔
7۔ (ترجمہ) کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ وہ تمہیں خبردار کرے؟ بھول نہ جاؤ کہ تمہارے رب نے نوحؑ کی قوم کے بعد تم کو اس کا جانشین بنایا اور تمہیں خوب تنو مند کیا، پس اللہ کی قدرت کے کرشموں کو یاد رکھو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (الاعراف:69)
8 ۔ (ترجمہ) اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گی۔ (الانفال:45)
اس آیت میں ہدایت دی جارہی ہے کہ جب کفار کے کسی گروہ سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو تاکہ فلاح پاؤ۔
9 ۔ (ترجمہ) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔(الحج:77)
اس آیت میں مسلمانوں کے منصب امامت کے تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔ یعنی رکوع و سجود، بندگی اور نیک کام کامیابی کی ضمانت ہیں۔
10 ۔ (ترجمہ) اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں، اور اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے ۔ (النور:31)
اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی نے مومن کو اپنے گھر کی اور اپنے معاشرے کی زندگی کو ان اخلاقی فتنوں سے پاک کرنے کی تاکید کی ہے۔
11 ۔ (ترجمہ) پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔ (الجمعہ:10)
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیل جانا رزق کی تلاش کی دوڑ دھوپ میں لگ جانا ہی ضروری ہے بلکہ یہ ارشاد اجازت کے معنی میں ہے۔ چونکہ جمعہ کی اذان سن کر سب کاروبار چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا تھا اس لیے فرمایا گیا کہ نماز ختم ہوجانے کے بعد تمہیں اجازت ہے کہ منتشر ہو جاؤ اور اپنے جو کاروبار بھی کرنا چاہو کرو۔
مفلحون یعنی کامیابی پانے والوں کا ذکر قرآن مجید میں 12 مقامات پر کیا گیا ہے۔
1۔ (ترجمہ) ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (البقرہ:5)
البقرہ کی آیت 2تا4 میں راہ راست اور فلاح پانے والوں کی چھ صفات بتائی گئی ہیں۔ متقی، غیب پر ایمان لانے والے، نماز قائم کرنے والے، جو رزق اللہ نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے والے، قرآن مجید اور اس سے پہلے والی کتابوں پر ایمان لانے والے اور آخرت پر یقین رکھنے والے۔
2۔ (ترجمہ) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے (آل عمران:104)
امت مسلمہ سے کہا گیا کہ ان کے اندر ایک گروہ ایسا ضرور ہو جو لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے۔
3۔ (ترجمہ) اور وزن اس روز عین حق ہوگا۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے۔ (الاعراف:8)
بروز قیامت اللہ تعالی جو ترازو نصب فرمائے گا وہ ہر ایک کے اعمال تول کر بتادے گی کہ اس میں حق کا حصہ کتنا ہے۔
4۔ (ترجمہ) جو اس پیغمبر نبی امی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (الاعراف:157)
اس سے پہلے والی آیت 156 میں حضرت موسیٰ کی دعا کے جواب میں ارشاد ہوا تھا کہ یوں تو اللہ کی رحمت ہر چیز و ہر شخص کے لیے وسیع ہے اور یہ امت بھی اس سے محروم نہیں لیکن مکمل نعمت و رحمت کے مستحق تو وہ لوگ ہوں گے جو ایمان و تقویٰ اور زکوۃ وغیرہ کے مخصوص شرائط کو پورا کریں گے۔
اس آیت میں ان لوگوں کا پتہ دیا گیا ہے کہ ان شرائط پر پورے اترنے والے کون لوگ ہوں گے اور بتلایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو رسول امی محمد ﷺ کا اتباع کریں گے۔ اس ضمن میں آنحضرت ﷺ کے چند خصوصی فضائل و کمالات اور علامات کا بھی ذکر فرما کر آپ پر صرف ایمان لانے کا نہیں بلکہ آپ کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ فلاح آخرت کے لیے ایمان کے ساتھ ساتھ رسول کی اتباع بھی ضروری ہے۔
5۔ البتہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں انہوں نے اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کیا اور یہی ہیں جن کے لیے رحمتیں اور برکتیں ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (التوبۃ:88)
اب ان سچے اور پکے اہل ایمان کا کردار اور ان کا انجام بخیر بیان ہو رہا ہے اور اس کا مقصد ان مخلصین کی تحسین بھی ہے اور ان منافقین کو غیرت دلانا بھی کہ رسول کے جو سچے ساتھی ہیں وہ جب جہاد کا حکم ہوتا ہے تو ان منافقین کی طرح رخصت کے عرضیاں لے کر نہیں دوڑتے بلکہ اپنے مال اور سر لے کر رسول کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، چنانچہ فرمایا کہ اصل انہی کے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں ۔
6۔ اس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے۔ (المؤمنون:102)
یعنی جن کے اعمال قابل قدر اور وزنی ہوں گے، جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہوگا وہ کامیاب ہوں گے۔
7۔ ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(النور:51)
8۔ پس رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین و مسافر کو اس کا۔ یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (الروم:38)
یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار، مسکین اور مسافر کو خیرات دو۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ یہ ان کا حق ہے جو تمہیں دینا چاہیے اور حق سمجھ کر ہی اسے دینا چاہیے
9۔ (ترجمہ) یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں۔ ہدایت اور رحمت نیکوکار لوگوں کے لیے، جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں ۔ (لقمان 2 تا 5)
10۔ (ترجمہ) تم کبھی یہ نہ پاؤگے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، خواہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہل خاندان۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے۔ وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبردار رہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں ۔(المجادلہ:22)
اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک بات اصولی ہے اور دوسری بات امر واقعی۔ اصولی بات یہ فرمائی گئی ہےکہ دین حق پر ایمان اور دشمنان دین کی محبت، دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ جمع ہونا کسی طرح قابل تصور نہیں ہے۔ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنان خدا و رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک آدمی کے دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتی ۔
یہ تو ہے اصولی بات، مگر اللہ تعالی نے یہاں صرف اصولی بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیان ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا کہ جو لوگ سچے مومن تھے انہوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں رکاوٹ بنے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر و احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ مکہ سے جو صحابہ کرام ہجرت کرکے آئے تھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے لڑگئے تھے۔
حضرت ابو عبیدہؓ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت ابوبکرؓ اپنے بیٹے عبدالرحمان سے لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھایا جا چکا ہے کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہوتا ہے۔
11۔ (ترجمہ) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لاکر دارالہجرت میں مقیم تھے ۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کرکے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دیدیا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے۔ وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (الحشر:9)
یہ تعریف ہے مدینہ طیبہ کے انصار کی۔ مہاجر جب مکہ اور دوسرے مقامات سے ہجرت کرکے ان کے شہر میں آئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیش کش کی ہمارے باغ اور نخلستان حاضر ہیں، آپ انہیں ہمارے اور ان مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں۔
12۔ (ترجمہ) لہذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو اور سنو اور اطاعت کرو اور اپنے مال خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (التغابن:16)
سورہ آل عمران کی آیت 102 میں اللہ فرماتا ہے اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ سورہ البقرہ آیت 286 میں فرمایا اللہ کسی متنفس کو اس کی استطاعت سے زیادہ کا مکلف قرار نہیں دیتا۔ اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ سے ڈرتے رہو۔ان تینوں آیتوں کو ملاکر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پہلی آیت وہ معیار ہمارے سامنے رکھ دیتی ہے جس تک پہنچنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے۔ دوسری آیت یہ اصولی بات ہمیں بتاتی ہے کہ کسی شخص سے بھی اس کی استطاعت سے زیادہ کام کرنے کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اللہ کے دین میں آدمی بس اتنے ہی کا مکلف ہے جس کی وہ مقدرت رکھتا ہو۔ اور یہ آیت ہر مومن کو ہدایت
کرتی ہے کہ وہ اپنی حد تک حصول تقوی کی کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ جہاں تک بھی اس کے لیے ممکن ہو اسے اللہ تعالی کے احکام بجالانے چاہئیں اور اس کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔
افلح یعنی یقینی طور پر کامیاب۔ افلح کا ذکر قرآن مجید میں چار مقامات پر آیا ہے۔
1۔ ( ترجمہ) اپنی ساری تدبیریں آج اکٹھی کرلو اور ایکا کرکے میدان میں آؤ ۔ بس یہ سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہی جیت گیا۔ (طہ:64)
یعنی ان کے مقابلہ میں متحدہ محاذ پیش کرو۔ اگر اس وقت تمہارے درمیان آپس ہی میں پھوٹ پڑگئی اور عین مقابلہ کے وقت مجمع عام کے سامنے یہ ہچکچاہٹ اور سرگوشیاں ہونے لگیں تو ابھی ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ سمجھ لیں گے کہ تم خود اپنے حق پر ہونے کا یقین نہیں رکھتے بلکہ دلوں میں چور لیے ہوئے مقابلے پر آئے ہو۔ یہ وہ مشورہ ہے جو غور و فکر کے بعد فرعون کے جمع کردہ ساحروں کو دیا گیا تھا۔
2۔ (ترجمہ) یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے (المؤمنون:1)
ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد ﷺ کی دعوت کو قبول کیا، آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا اور اس طریق زندگی پر راضی ہوگئے جسے آپ نے پیش کیا ہے۔
فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی کے۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نامرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ افلح الرجل کے معنی ہے کہ فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ حال یا خوشحال ہوگیا، اس کی کوشش بار آور ہوئی یا اس کی حالت اچھی ہوگئی۔
3 ۔ (ترجمہ) فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی (الاعلی:14)
پاکیزگی سے مراد ہے کفر و شرک چھوڑ کر ایمان لانا، برے اخلاق چھوڑکر اچھے اخلاق اختیار کرنا اور برے اعمال چھوڑ کر نیک اعمال کرنا۔ فلاح سے مراد دنیوی خوشحالی نہیں ہے بلکہ حقیقی کامیابی ہے، خواہ دنیا کی خوشحالی اس کے ساتھ آئے یا نہ آئے۔
4 ۔ (ترجمہ) فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (الشمس:9)
تزکیہ کے اصلی معنی باطنی پاکی کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جس نے اللہ کی اطاعت کرکے اپنے ظاہر وباطن کو پاک کرلیا وہ با مراد ہوا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 مئی تا 03 جون 2023