گیانواپی مسجد میں پوجا کرنے سے متعلق کیس: وارانسی کی عدالت نے کہا کہ ہندو فریقین کا مقدمہ قابل سماعت
نئی دہلی، ستمبر 12: وارانسی کی ایک عدالت نے پیر کو کہا کہ گیانواپی مسجد کے احاطے میں پوجا کرنے کا حق مانگنے والے ہندو مدعیان کا دیوانی مقدمہ قابل سماعت ہے اور اس کی مزید سماعت کی جا سکتی ہے۔
پانچ ہندو خواتین نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد میں شرنگر گوری دیوتا کی تصویر موجود ہے اور انھوں نے وہاں روزانہ پوجا کرنے کی اجازت مانگی ہے۔
24 اگست کو ڈسٹرکٹ جج اے کے وشویشا نے انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کی درخواست پر اپنا حکم محفوظ کر لیا تھا، جس میں اس سول سوٹ کی برقراری کو چیلنج کیا گیا تھا۔
کمیٹی نے یہ درخواست کوڈ آف سول پروسیجر کے آرڈر 7 رول 11 کے تحت دائر کی ہے۔
ضلعی عدالت کے سامنے عرضی گزاروں نے استدلال کیا ہے کہ ہندو فریق کی طرف سے دائر عرضی قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ یہ عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کی خلاف ورزی کرتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہ کا مذہبی کردار جیسا کہ یہ 15 اگست، 1947 کو موجود تھا، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم پیر کو عدالت نے کہا کہ قانون مدعی کو متنازعہ جگہ پر عبادت کرنے سے نہیں روک سکتا کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ وہ 15 اگست 1947 کے بعد بھی پوجا کرتے رہے ہیں۔
دریں اثنا ایڈووکیٹ اخلاق احمد نے مسجد حکام کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ میں جائیں گے۔ مسجد کمیٹی کے جنرل سکریٹری ایس ایم یاسین نے کہا کہ مقدمہ عدالت میں جاری رہے گا اور وہ ان کے لیے دستیاب تمام عدالتی ذرائع استعمال کریں گے۔
پیر کو عدالتی فیصلے سے قبل وارانسی میں امتناعی احکامات نافذ کیے گئے اور سیکورٹی سخت کردی گئی۔
وارانسی کے اسسٹنٹ کمشنر سنتوش کمار سنگھ نے کہا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے 2000 سے زیادہ افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔
مئی میں وارانسی کی ایک سول عدالت نے مسلم وکیلوں کے اعتراضات کے باوجود گیانواپی مسجد کے ویڈیو سروے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد مسجد کمیٹی نے سروے کرنے کے ٹرائل کورٹ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔
سروے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسجد کے ٹینک کے اندر سے ایک بیضوی چیز ملی ہے۔ ہندو درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک شیولنگ ہے، جو ہندو دیوتا شیو کی نمائندگی کرتا ہے۔ مسلمان البتہ کہتے ہیں کہ وہ دراصل فاؤنٹین ہے۔
سول عدالت نے 16 مئی کو ضلعی عہدیداروں کو مسجد میں وضو خانہ کو سیل کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے سروے کی رپورٹ آنے سے قبل ہی یہ حکم جاری کر دیا تھا۔
ایک دن بعد سپریم کورٹ نے حکام کو اس جگہ کی حفاظت کرنے کی ہدایت کی جہاں سے بیضوی چیز ملی تھی۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ مسلمانوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے نہیں روکا جانا چاہیے۔
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور پی ایس نرسمہا کی بنچ نے کہا تھا کہ وہ وارانسی ضلع عدالت کے فیصلے کا انتظار کرے گی اور کیس کو اکتوبر کے پہلے ہفتہ تک ملتوی کر دیا ہے۔
دریں اثنا ہندو درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ اگر عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں آیا تو وہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے شیولنگ کی جانچ اور کاربن ڈیٹنگ کا مطالبہ کریں گے۔
ہندو درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ سوہن لال آریہ نے کہا کہ فیصلے کے بعد کاشی کے لوگ گھنٹیاں بجا کر اور تالیاں بجا کر جشن منائیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’کاشی کے لوگ ہندو سماج کو بیدار کرنے کا کام کریں گے۔‘‘