’’عدلیہ کی آزادی کے لیے بڑا خطرہ ہے‘‘: سپریم کورٹ کے سابق جج کی گورنر کے طور پر تقرری پر کانگریس نے کہا
نئی دہلی، فروری 13: کانگریس نے اتوار کو سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ایس عبدالنذیر کی آندھرا پردیش کے گورنر کے طور پر تقرری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’عدلیہ کی آزادی کے لیے ایک بڑا خطرہ‘‘ ہے۔
جسٹس عبدالنذیر کو 4 جنوری کو سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے کے صرف ایک ماہ بعد اس عہدے پر تعینات کیا گیا ہے۔ وہ اس آئینی بنچ کا حصہ تھے جس نے بابری مسجد کیس میں فیصلہ سنایا تھا۔
سابق جج سپریم کورٹ کی اس بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے 2 جنوری کو سنائے گئے فیصلے میں مرکز کے 2016 کے نوٹ بندی کے عمل کو برقرار رکھا تھا۔
عبدالنذیر کے علاوہ سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کو بھی 2020 میں راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ گوگوئی نے پانچ ججوں کے اس بنچ کی سربراہی کی تھی جس نے 2019 میں اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل بابری مسجد کیس میں فیصلہ سنایا تھا۔
اتوار کو کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے سابق مرکزی وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی ارون جیٹلی کا ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’ریٹائرمنٹ سے پہلے کے فیصلے ریٹائرمنٹ کے بعد کی نوکریوں کی خواہش سے متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
رمیش نے ویڈیو کے ساتھ ٹویٹ کیا ’’یقینی طور پر پچھلے 3-4 سالوں میں اس کا کافی ثبوت ملا ہے۔‘‘
کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے بھی ایک پریس کانفرنس میں جیٹلی کے خیالات کو شیئر کیا۔ انھوں نے ان دلائل کو بھی مسترد کر دیا کہ اس طرح کی تقرری پہلے بھی کئی بار ہو چکی ہے اور قابل قبول ہے۔
مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے تاہم عبدالنذیر کی تقرری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ’’انھیں اس بات کو بہتر طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بھارت کو اپنی ذاتی جاگیر نہیں سمجھ سکتے۔ اب ہندوستان کی رہنمائی ہندوستان کے لوگوں کے ذریعہ آئین ہند کی دفعات کے مطابق ہوگی۔‘‘