جی آئی او نے اپنا پہلا قومی صدر اور جنرل سیکرٹری منتخب کیا
نئی دہلی، اگست 1: گرلز اسلامک آرگنائزیشن (GIO) نے، جو کہ ہندوستان کی خواتین کی صف اول کی تنظیموں میں سے ایک ہے، 30 جولائی کو اپنا پہلا قومی صدر اور جنرل سکریٹری منتخب کیا۔
اس سے پہلے جی آئی او، جماعت اسلامی ہند کے خواتین ونگ کے تحت کام کرتی تھی اور اس کے ریاستی کونسل کے صدر اور سکریٹری ہوتے تھے۔
جہاں کرناٹک سے ایڈوکیٹ سمایا روشن نیشنل فیڈریشن آف جی آئی او کی پہلی صدر منتخب ہوئیں، وہیں کیرالہ سے ثمر علی اس کی جنرل سکریٹری بنیں۔
قومی صدر اور جنرل سکریٹری جی آئی او کے امور کی سربراہی کریں گی۔ نو تشکیل شدہ فیڈریشن ایک وفاقی کمیٹی پر مشتمل ہوگی جس میں جی آئی او کی تمام ریاستی اکائیوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ فیڈریشن کمیٹی کی مدت دو سال ہوگی۔
جی آئی او، جماعت اسلامی ہند کی طالبات کی تنظیم ہے۔ جی آئی او ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے اور 1984 سے ملک بھر میں خواتین اور بالخصوص مسلم خواتین سے متعلق مختلف مسائل پر سرگرم عمل ہے۔
تنظیم کی ہندوستان کی تقریباً ہر ریاست میں موجودگی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں ریاستی سطح پر جی آئی او نے مسلم خواتین کی مجموعی ترقی کے لیے کام کیا ہے۔
قومی سطح پر فیڈریشن کے مقاصد اس کی ریاستی اکائیوں کے درمیان بات چیت اور خیالات کا اشتراک اور قومی تشویش کے اہم مسائل کو حل کرنا اور انھیں سامنے لانا ہے۔
جی آئی او کا مقصد خواتین کو معاشرے کو درپیش چیلنجز سے لڑنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس کے کام کا دائرہ ان مقاصد کو بھی پیش نظر رکھے گا، جو صرف مسلمانوں کے مسائل تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ملک کی تمام خواتین کے مسائل اور قومی اہمیت کے مسائل ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا حصہ ہونے کے ناطے ملک کے ہر شہری کو خود کو تیار کرنے اور اپنی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کو حاصل کرنے کے مساوی مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔
بے پناہ کوششوں اور ترقی کے باوجود ہندوستان میں خواتین کو ہر ممکن طریقے سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ منڈل کمیشن کی سفارشات کے چالیس سال گزرنے کے بعد بھی دیگر پسماندہ کمیونٹیز (او بی سی) کے لیے دستیاب مواقع میں مجموعی عدم مساوات برقرار ہے۔
یہ تنظیم تعلیمی ترقی، سماجی و سیاسی حالات میں پیشرفت کے ساتھ ساتھ کاروباری ترقی اور پسماندہ طبقات کی خواتین کے لیے مساوی جگہ پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ تنظیم ایک آزاد اور کھلی فضا تیار کرنے کی شعوری کوشش کرے گی جہاں کوئی بھی اپنی آواز اٹھا سکے اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر سوال اٹھا سکے۔