افروز عالم ساحل
ہر سال عیدالاضحی قریب آتے ہی ملک میں گائے کے نام پر سیاست زور شور سے شروع ہوجاتی ہے۔ حکومتیں اس کو لے کر ملک میں قانون بنانے کی بات شروع کر دیتی ہیں، وہیں موجودہ حکومت کی آئیڈیولوجی سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اور ان سے جڑے لوگ گائے کے تحفظ کے نام پر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں اتر پردیش کی سماجی وسیاسی تنظیم ’رہائی منچ‘ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں مسئلوں کا بھی اپنا ایک موسم ہوتا ہے۔ جیسے ہی کوئی قومی تہوار یا الیکشن قریب آئے گا، ملک میں اچانک سے دہشت گرد حملوں کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے نام پر گرفتاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ملک کو ان سے خطرہ بتایا جانے لگے گا۔ جیسے ہی دسہرہ یا دیوالی قریب آئے گی آپ کو فسادات کے معاملے سننے کو ملنے لگیں گے۔ بقر عید قریب آتے ہی ہر کسی کے دل میں جانوروں کے تئیں پیار امڈنے لگتا ہے۔ ہولی کے موقع پر سیر ہو کر گوشت کھانے والے لوگ بھی کیک کی قربانی کی بات کرنے لگیں گے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ہماری ’حب الوطنی‘ ایک حادثاتی رنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ تہوار خوشی کے لیے ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں خوشی سے زیادہ یہ ڈر ستاتا ہے کہ بس خاموشی سے یہ تہوار گزر جائے۔ مجھے یاد ہے کہ پہلے ہم لوگ پورے سال بقر عید کا انتظار کرتے تھے کیونکہ بقر عید کے گوشت میں جو تین حصے ہوتے ہیں ان میں ایک حصہ ہمارا بھی ہوتا تھا لیکن اب لوگ گوشت بھیجنے سے ڈرنے لگے ہیں۔
ایک طویل گفتگو میں راجیو یادو کہتے ہیں کہ ہمارا آئین یہ کہہ رہا ہے کہ ہمیں اپنی پسند کی ہر چیز کھانے پینے کی آزادی ہے، اپنے پسند کا مذہب چننے کی آزادی ہے، اپنی پسند کی شادی کرنے کی آزادی ہے مگر اب سب غیر قانونی بنتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس چیز کی اجازت ہمیں ہمارا آئین دیتا ہے اس کے خلاف حکومتیں قانون کیسے بنا سکتی ہیں؟ آج آپ کہہ رہے ہیں صرف دو بچے پیدا کرو، کل کو آپ کہیں گے کہ آپ کو صرف لڑکا ہی پیدا کرنا ہے۔ آج گائے ذبح کرنا غیر قانونی ہے، کل کو آپ کہیں گے کہ بکرا اور مرغی کھانا بھی غیر قانونی ہے۔ کوئی اسٹیٹ اپنے مائنڈ سیٹ کو اپنے شہریوں پر کیسے تھوپ سکتی ہے؟
راجیو یادو کہتے ہیں کہ یہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے لوگ تو کسی بھی گوشت کو گائے کو گوشت بتا کر آپ کو مار سکتے ہیں۔ اخلاق کی ماب لنچنگ اس کی سب سے بدتر مثال ہے۔ ان کے گھر کے فریج میں موجود گوشت کو گائے کا گوشت بتاکر انہیں مار ڈالا گیا جبکہ وہ گائے کا گوشت تھا ہی نہیں۔
وہ مزید کہتے ہی کہ فرقہ پرستوں نے ہمیشہ فساد بھڑکانے کے لیے گائے کا استعمال کیا ہے۔ ضرورت پڑنے پر خود ہی ذبح کر کے پھینک دیا۔ ۲۰۱۸ میں بلند شہر میں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح کچھ ہندتوادی غنڈوں نے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں خود ہی گائے مار کر پھینک دی اور فساد بھڑکانے کی کوشش کی۔ ایک انسپکٹر نے اس سازش کو سمجھا اور اسے روکنے کی کوشش کی تو انہیں ہی پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔ ہردوئی میں جب مسلمان اپنے گھروں کی گائے حکومت کو دینے کے لیے نکلے تو انہیں وشو ہندو پریشد کے لوگوں کے ذریعے پیٹنے کی کہانی بھی ہمارے سامنے ہے۔ گئو شالے کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ کل ملا کر کہا جائے تو حکومت کو گائے سے کوئی محبت نہیں ہے، انہیں صرف اور صرف اس سیدھے سادھے جانور کے نام پر سیاست کرنی ہے اور لوگوں کو آپس میں لڑانا ہے۔
اتر پردیش کے کیرانہ شہر میں مقیم ایک صحافی نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ ملک میں موجودہ حالات میں شاید ہی کوئی مسلمان کسی دوسری ریاست یا شہر سے گائے خرید کر لانے کا سوچ سکتا ہے، لیکن پریشانی یہ ہے کہ گائے کی بات تو دور آپ اگر بکرا یا بھینس بھی خرید کر لا رہے ہیں تو یہ بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ گئو رکشکوں کو اپنی شرارتیں انجام دینے کا یہی زمانہ ہے۔ ان کے اس دھندے میں پولیس کے ساتھ جانور بیچنے والے بھی شامل ہوتے ہیں۔
یہ پوچھنے پر کہ دھندے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ ’گئو رکشا ہی ایک دھندہ ہے۔‘ پھر وہ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ ہریانہ بارڈر پر رہنے والے اتر پردیش کے لوگ ہریانہ سے قربانی کے لیے بھینس یا بکرے لے کر آتے ہیں، کیونکہ وہاں اتر پردیش کی بہ نسبت جانور سستا ملتا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ جانور خرید کر وہاں سے نکلتے ہیں، جانور بیچنے والا ہی اپنی ٹیم کے گئو رکشکوں کو فون کر کے ان کی تمام تفصیلات دے دیتا ہے۔ یہ نام نہاد گئو رکشک ایک سنسان راستے میں ان کا انتظار کرتے ہیں، جیسے ہی وہ قریب آتے ہیں، انہیں مارپیٹ کر جانور چھین لیے جاتے ہے۔ پھر تین چاردنوں کے بعد ان جانوروں کو انہی کے پاس پہنچا دیا جاتا ہے جن سے وہ جانور خرید کر لے جا رہے تھے۔ واضح رہے کہ یہ صحافی گزشتہ تین چار سالوں سے اس دھندے کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پھر اس میں پولیس کس طرح ملوث ہے؟ اس سوال پر وہ ہنس کر بتاتے ہیں کہ کسی کسی کو پولیس پر زیادہ بھروسہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ پولیس یا تھانے کو کال کرتا ہے۔ گئو رکشک بھاگتے نہیں ہیں، بلکہ اس کے جانور میں اس کی آنکھوں کے سامنے ایک گائے بھی شامل کر دیتے ہیں۔ اب پولیس الٹا کال کرنے والے شخص پر ہی مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دیتی ہے، انہیں ہی پکڑ کر تھانہ لے جاتی ہے اور کچھ پیسہ لے کر چھوڑ دیتی ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بقر عید قریب آتے ہی پولیس بھی سنسان سڑک پر ہر طرف چیک پوسٹ لگوا رکھی ہے اور قربانی کے جانوروں کو روک رہی ہے۔ اس میں ان کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے۔
خیال رہے کہ ہفت روزہ دعوت کو ایسی ہی کہانی بہار کے بھی ایک صحافی نے بھی بتائی۔ بہار کے مغربی چمپارن کے ایک صحافی بتاتے ہیں کہ یہاں عیدالاضحیٰ میں گائے کی قربانی شاید ہی ہوتی ہے، لیکن عام دنوں میں گائے کا گوشت ضرور بکتا ہے اور یہ بغیر پولیس کی مدد کے ممکن نہیں ہے۔ عیدالاضحیٰ کے ایام میں ان کی خبیث روح جاگ جاتی ہے جو زیادہ پیسے ملنے پر ہی سوتی ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر آپ پیسے والے ہیں اور پولیس میں کوئی جان پہچان کا ہے تو بہتر ہو گا کہ آپ انہی سے اپنے لیے گائے خرید کر منگوا لیں۔
بتا دیں کہ گزشتہ سال ہفت روزہ دعوت نے اتر پردیش کی کہانی شائع کی تھی جب ایک نوجوان کو بکرا لے جانے کے ’جرم‘ میں پولیس کی فرقہ پرستی کا شکار ہونا پڑا تھا۔ پولیس اہلکاروں نے نہ صرف اس نوجوان کے ساتھ بدتمیزی کی تھی بلکہ مذہبی بنیاد پر اسے برا بھلا بھی کہا گیا اور حیران کر دینے والی بات یہ تھی کہ پولیس کی فرقہ پرستی کا شکار بننے والا جوان کوئی عام انسان نہیں تھا بلکہ دہلی پولیس کا ہی ہیڈ کانسٹیبل تھا۔ ضلع غازی آباد کے مراد نگر کے فیروز احمد گزشتہ سال تیئیس جولائی کی رات ایک گاؤں سے اپنی کار میں دو بکرے خرید کر یمنا ایکسپریس وے کے راستے اپنے گھر واپس ہو رہے تھے کہ راستے میں ایک کار ان کار کے آگے رکی اور انہیں رکنے کا اشارہ کیا۔ اس کار سے دو افراد اترے جو پولیس کی وردی میں تھے۔ ایک کی وردی پر انسپکٹر رام کیشور نام کی نیم پلیٹ تھی جبکہ دوسرے سپاہی کی نیم پلیٹ غائب تھی۔
فیروز کے مطابق ان دونوں پولیس اہلکاروں نے بکرے کے بارے میں پوچھا۔ جب انہوں نے بتایا کہ وہ عیدالاضحیٰ میں قربانی کے لیے خرید کر لے جا رہے ہیں تو ان دونوں نے انہیں گالیاں دینی شروع کر دیں۔ فیروز نے انہیں بتایا کہ وہ خود دہلی پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل ہیں اور پھر جیسے ہی اپنی آئی ڈی دکھانے کے لیے پرس نکالا، سپاہی نے پرس چھین لیا اور اس کے ساتھ مارپیٹ شروع کر دی اور کہنے لگے کہ تجھے جو کرنا ہے تھانے آ جا وہیں دیکھ لیں گے۔ پھر وہ ان کے اس پرس میں سے شناختی کارڈ پندرہ ہزار روپے، اے ٹی ایم کارڈ اور بہت سے اہم دستاویزات لے کر وہ چلتے بنے۔ تب فیروز اس معاملے کو لے کر عدالت پہنچے۔ اس بارے میں پوری کہانی ہفت روزہ دعوت نے پچھلے سال ہی شائع کی تھی۔ ہم نے یہ رپورٹ لکھنے سے قبل فیروز احمد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ ان کے معاملے میں آگے کیا ہوا، لیکن رپورٹ لکھے جانے تک ہماری ان سے بات نہیں ہو سکی۔
اب گھروں میں بھی کرنے لگے ہیں چھاپہ ماری!
کیرانہ کے صحافی یہ بھی بتاتے ہیں کہ اب تو گئو رکشک ہریانہ کے کچھ علاقوں میں مسلمانوں کے گھروں میں چھاپہ ماری بھی کر رہے ہیں اور اگر آپ نے گائے پالنے کے لیے بھی رکھی ہے تو وہ اسے اپنے لے جاتے ہیں، الگ سے پٹائی بھی کرتے ہیں اور کچھ معاملوں میں ان سے پیسے بھی مانگتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہریانہ کے نوح علاقے میں گؤ رکشکوں کے ایک گروہ نے مبین احمد کے گھر پر چھاپہ ماری کی اور ان کے گھر سے ایک بیل، گائے اور بچھڑا برآمد کر کے ان کے خلاف ہریانہ کاؤ پروٹیکشن ایکٹ 2015 کی مختلف شقوں کے تحت تھانہ بیچھوڑ ضلع نوح میں ایف آئی آر درج کرائی۔
اس معاملے میں اب پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ نے ایک اہم حکم دیتے ہوئے ہریانہ حکومت سے لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارنے کے گئو رکشکوں کے حق پر جواب دینے کو کہا ہے۔ ہائی کورٹ نے پوچھا کہ غیر سرکاری افراد کا قانون ہاتھوں میں لے کر لوگوں کے گھروں میں داخل ہو کر چھاپہ مارنا کہاں تک درست ہے؟
اس معاملے میں عدالت کے بحث کے دوران درخواست گزار مبین کے وکیل نے کہا کہ ہریانہ کاؤ پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۱۵ کی دفعہ تین گائے کے ذبیحہ سے منع کرتی ہے، لیکن اس معاملے میں کسی گائے کا ذبح نہیں ہوا ہے۔ وہیں اس ایکٹ کے سیکشن آٹھ کے تحت گائے کے گوشت کی فروختگی ممنوع ہے۔ اب جب گائے ذبح ہی نہیں ہوئی ہے تو گائے کے گوشت کے فروخت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ الزام بے بنیاد ہے۔ وکیل نے سوال کیا کہ مقامی گئو رکشا دل اور اس کے ضلعی صدر کو درخواست دہندگان کے گھر پر چھاپہ مارنے کا کس نے اختیار دیا تھا۔ مقامی گئو رکشا دل خود بھی ایسی کارروائی کر کے قانون کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اس پر ہائی کورٹ نے مقامی گئو رکشا دلوں کے ذریعہ شہریوں کے گھروں پر چھاپہ ماری کرنے پر سوال کھڑا کرتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ وہ یہ بتائے کہ مقامی گئو رکشا دلوں کو کس حق کے تحت چھاپہ ماری کا اختیار دیا گیا ہے، اگر نہیں دیا گیا ہے تو پھر یہ غیر قانونی چھاپہ ماری کیوں ہو رہی ہے؟
جب مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے کی ’تحفظ مویشیان بل‘ کی مخالفت
جب ۱۹۳۰ میں بہار میں ’تحفظ مویشیان کا بل‘ پیش کیا گیا تو مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد نے اس کی جم کر مخالفت کی۔ انہوں نے ایک جلسہ منعقد کر کے یہ تجویز پاس کی کہ تحفظ مویشیان کا جو بل بہار اسمبلی اور کونسل میں پیش ہوا ہے یہ جلسہ اسے نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کو ملک اور وطن کے لیے ایک خطرہ عظیم خیال کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کے حق میں سمِّ قاتل تصور کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس بل کا حقیقی منشا ذبیحہ وقربانی کو قانوناً بند کرواکے مسلمانوں کے مذہبی وذاتی حقوق کو پامال کرنا ہے جسے کوئی بھی مسلمان ایک لمحہ کے لیے گوارا نہیں کر سکتا ہے۔
انہوں نے اس جلسہ میں یہ بھی کہا کہ اب صوبہ بہار کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ہر قصبہ، ہر شہر بلکہ گاؤں میں اس بل کے خلاف جلسے منعقد کریں اور تجویز پاس کرکے ان کی نقلیں سکریٹری اسمبلی دہلی وسکریٹری کونسل بہار کے نام بذریعہ ڈاک روانہ کریں اور اخبارات کے نام بھی اشاعت کے لیے بھیج دیں اور ایک نقل دفتر امارت میں روانہ کریں۔
زیادہ تر مجاہدین آزادی نے گائے کی قربانی نہ کرنے کی اپیلیں کی ہیں
تاریخ کے صفحات پلٹنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جب ملک میں خلافت تحریک کا دور تھا تب زیادہ تر علمائے دین اور مجاہدین آزادی نے بقر عید کے موقع سے گائے کی قربانی کرنے سے پرہیز کرنے کی اپیل کی تھی۔ گائے کے تحفظ سے متعلق ایک اپیل 1920 میں حکیم اجمل خان نے جاری کی تھی۔ ان کی یہ اپیل راقم الحروف کو ایک ریسرچ کے دوران ملی جو تیئیس اگست 1920 کو کانپور سے شائع ہونے والے ’پرتاپ‘ کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ بتا دیں کہ پرتاپ (ہندی) اس دور میں ملک کا سب سے معروف ومشہور اخبار تھا جس کے مدیر گنیش شنکر ودیارتی تھے۔
اس اپیل میں حکیم اجمل خان نے کہا تھا کہ ’بقر عید نزدیک آرہی ہے۔ مسلمان بھائیوں کو یاد ہو گا کہ مسلم لیگ کے گزشتہ امرتسر والے اجلاس میں یہ قرارداد متفقہ طور پر پاس ہو چکی ہے کہ بقر عید کے دن گائے ذبح نہ کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان بھائی اس پر عمل کریں گے۔ اس بات کے لیے مولانا عبدالباری اور افغانستان کے 110 علما نے بھی فتویٰ دیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ہندو کس طرح ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ خلافت ایک مسلم مسئلہ ہے پھر بھی ہندو ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ امیر افغانستان اور نظام حیدرآباد نے اپنی ریاست میں گائے کے ذبیحہ کو روک دیا تھا اور مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ آنے والی بقر عید پر جہاں تک ممکن ہو گائے کے بجائے دوسرے جانوروں کی قربانی کریں اور ہندو مسلم اتحاد کا مظاہرہ کریں۔
غور طلب ہے کہ ایسی ہی ایک اپیل بیرسٹر آصف علی نے بھی خلافت کمیٹی کی طرف سے جاری کی تھی۔ ان کی یہ اپیل بھی تیئیس اگست 1920 کو ’پرتاپ‘ میں شائع ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ بیرسٹر آصف علی امریکہ میں ہندوستان کے پہلے سفیر تھے۔ وہ سوئٹزرلینڈ، آسٹریا اور ویٹیکن میں بھی ہندوستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
***
ہمارے ملک میں مسئلوں کا بھی اپنا ایک موسم ہوتا ہے۔ جیسے ہی کوئی قومی تہوار یا الیکشن قریب آئے گا، ملک میں اچانک سے دہشت گرد حملوں کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے نام پر گرفتاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ملک کو ان سے خطرہ بتایا جانے لگے گا۔ جیسے ہی دسہرہ یا دیوالی قریب آئے گی آپ کو فسادات کے معاملے سننے کو ملنے لگیں گے۔ بقر عید قریب آتے ہی ہر کسی کے دل میں جانوروں کے تئیں پیار امڈنے لگتا ہے۔ ہولی کے موقع پر سیر ہو کر گوشت کھانے والے لوگ بھی کیک کی قربانی کی بات کرنے لگیں گے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021