غالب ہے اب تعلیم پر معبودِ حاضر کا اثر

بھارت کا تعلیمی نظام اور توجہ طلب پہلو

مجاہد السلام مخدومی حسام الدین

انسانی سماج میں علم کی بہت اہمیت ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کا محرک ہمیشہ علم رہا ہے۔ علم کی ترویج کے لیے جو تعلیم دی جاتی ہے، جو نظام کھڑا کیا جاتا ہے وہ ایک مشین کی مانند ہے جو خام مال کو پائیدار اور کارآمد مال میں تبدیل کرتی ہے۔ جس طرح کا نظام ہوگا اس نوعیت کے افراد تیار ہوں گے۔ جس ملک عزیز میں ہم رہتے ہیں اس کا بھی ایک اپنا تعلیمی نظام ہے جو کچھ خوبیوں کے ساتھ کئی خامیاں بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ دراصل اس تحریر کا مقصد انہیں قابل توجہ پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔
تاریخی پہلو :
بھارتی تعلیمی نظام کو مکمل سمجھنے کے لیے اس کی بنیاد اور قیام کو سمجھنا ضروری ہے۔ بھارت کو باقاعدہ منظم تعلیمی نظام انگریزوں کے ذریعے ملا۔ اس سے قبل بھارت میں گروکل کا نظام رائج تھا، جہاں استاد ایک درخت کے سائے تلے طلباء کو مذہبی اور اخلاقی تعلیم دیا کرتے تھے۔ جب انگریزوں نے ملک پر قبضہ کیا تب انکے لیے بھارت میں دو بڑے چیلنجز تھے۔ پہلا، بھارتیوں کے ساتھ ترسیل و تبادلہ خیال (communication)کا مسلئہ تھا۔ دوسرا چونکہ انگریز حکومت معاشی استحصال کی غرض سے آئی تھی لہذا انہیں بڑے پیمانے پر تعلیم یافتہ مزدوروں (educated workers) کی ضرورت تھی۔ انگریز حکومت ان اغراض کو پورا کرنے والا تعلیمی نظام کھڑا کرنا چاہتی تھی۔ لہذا اس نظام کے قیام کے لیے سرمایہ جمع کیا گیا۔ ماہر تعلیم اور مفکرین کو اس کام کے لیے مختص کیا گیا۔ اس طرح بھارت کو باضابطہ طور پر ابتدائی تعلیمی نظام 1835 میں Indian Education Act 1835 کے ذریعے ملا۔ جس میں گزرتے وقت کے ساتھ کافی ترمیم کی گئی اور وسیع پیمانے پر یہ ایکٹ 1854 میں بنام Indian Education Act 1854 نافذ ہوا۔ Thomas Babington Macaulay کو بھارتی تعلیمی نظام کا بانی مانا جاتا ہے۔ جس نے مغربی اور انگلش تعلیم نافذ کرنے کا نظریہ پیش کیا اور اسے باضابطہ نافذ کرنے کی جدوجہد بھی کی۔ Hunter Commission اور Saddler Commission نے اس نظام کو مزید وسیع کرنے اور گہرائی تک پہنچانے کا کام کیا۔ Thomas Babington Macaulay, Sir Charles Wood, Sir Michael E. Saddler یہ وہ کلیدی افراد تھے جنہوں نے گروکل سسٹم سے تعلیمی نظام کو نکال کر ایک باضابطہ دستوری تعلیمی نظام دیا۔ Lord William Bentinck جو اس وقت بھارت کا گورنر جزل تھا اس نے مجوزہ نظام کی عملی بجاآوری کے لیے مضبوط کام کیا۔
یہ نظام جن مقاصد کے لیے کھڑا کیا گیا وہ ان ہی حکمرانوں کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے۔ میکاولے نے کہا تھا ’’ مغربی تعلیم ایک ایسی نئی نسل کی تخلیق کرے گی جو رنگ و نسل کو اعتبار سے بھارتی ہوگی، لیکن ذوق، آراء، اخلاق، عقل اور ذہنیت کے اعتبار سے فرنگی ہوگے۔‘‘ Lord William Bentinck کے الفاظ تھے ’’ہم کوشش کریں کہ ایک ایسی نسل تشکیل دیں جو ہمارے اور ہمارے زیر حکومت کروڑوں لوگوں کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کرے۔ ایسی نسل جو رنگ و نسل میں بھارتی ہو لیکن ذہنیت اسکی فرنگی ہو۔‘‘
ان لفظوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بھارتی تعلیمی نظام کس مقصد کے تحت نافذ کیا گیا ہے۔
بھارتی تعلیمی نظام میں بہت سی بنیادی اور اصولی خرابیاں ہیں جن کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی۔ جنہیں یہاں موضوع بنایا گیا ہے۔
بھارتی تعلیمی نظام کے کمزور پہلو:
1) بنیاد – الحاد :
چونکہ بھارت کا تعلیم نظام مغرب ہی کا عطا کردہ ہے اس لیے اس میں ہر وه خامی پائی جاتی ہے جو مغرب کے تعلیمی نظام میں موجود ہے۔ فرانس کے انقلاب کے بعد یورپ میں مذہب بیزارگی کا ایک بڑا سیلاب اٹھا۔ زندگی کے ہر گوشوں سے مذہب کو نکال دیا جانے لگا۔ تعلیم سے بھی مذہب کی بنیادوں کو کو نکال دیا گیا اور محض طبعی تعلیمی باقی رہ گئی۔ Rousseau کو جدید تعلیم کا امام مانا جاتا ہے۔ Frederic Herbert, Rousseau, Whitehead جیسے کچھ مفکرین تھے جنہوں نے تعلیم سے مذہبی بنیادیں نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم کی بنیاد اب الحاد بن گئی۔ حصول علم کی پہلی سیڑھی سے لے کر آخری سیڑھی تک طالب علم کائنات کی سچائی سے، انسان کے بنائے جانے کے مقصد سے پوری طرح نہ بلد رہتا ہے۔ اسکے ذہن میں یہی سوچ رہتی ہے اور یہ جدید تعلیم یہی سوچ پروان چڑھاتی ہے کہ چند اتفاقات ہیں جو یکہ بعد دیگرے وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ اور اسی طرح یہ نظام چل رہا ہے۔ اس کا کوئی چلانے والا خالق و مالک نہیں۔ انسان خود قادر ہے کہ اپنی عقل کے اعتبار سے نظام چلائیں۔ انسان ہی میں سے کوئی ایک سب کا حاکم ہو اور وہی اپنی حاکمیت نافذ کرے۔ چونکہ اس تعلیمی نظام کا ایک حصہ مسلم طلباء بھی تھے۔ لہذا دانشور و دینی حلقوں میں یہ مدعا زیر بحث آیا۔ اور خود مسلم معاشرے کے اندر دو الگ الگ نظریات رائج ہوگئے۔ پہلا یہ کر مسلم طلباء کو جدید تعلیم دی جائے اور ساتھ ہی اسلامیات کے کچھ اسباق بھی پڑھا دیے جائے۔ تاکہ اسلام سے ربط بنا رہے۔ اسی نظریہ کے طور پر سرسید احمد خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ دوسرا نظریہ جو ابھرا وہ مدارس کا تھا۔ جہاں پر محسوس کیا گیا کے طلباء کو جدید تعلیم سے مکمل طور پر قطع تعلق رکھا جائے اور تعلیم خالص دینی علوم اور فقہ کی دی جائے۔
پہلا جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ وقتی طور پر بہتر ضرور تھا۔ لیکن دوررس نتائج اس سے حاصل نہیں کیے جاسکے۔ طالب علم علم کا وہ بیشتر حصہ حاصل کرتا جسکی بنیاد ہی الحاد ہے۔ معاشی اصول، معاشرتی اور قانونی ضوابط سب وہی پڑھائے جاتے جو انسانوں ہی کے ایجاد کردا ہیں۔ اور برائے نام اسلامیات کی کچھ کتابیں اضافی طور پر پڑھا دی جاتی جس سے یہ گمان کیا جانے لگا کہ طلباء اسلام ہی کے پیروکار رہیں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جدید تعلیم کا اثر طلباء پر زیادہ ہوا اور اسلام محض ایک ضمیمہ بن کر رہ گیا۔ چونکہ اسلام کے اصول پوری دلیل کے ساتھ پڑھائے نہیں گئے اور دونوں علوم میں جدید علوم کا پلڑا بھاری تھا لھذا اسلام کو لے کر شکوک و شبہات جنم لینے لگے۔ اسلام کو محض اعتقادات اور رسومات کا مجموعہ سمجھا گیا۔ بجزیہ کہ اس تعلیم سے طلباء اسلام سے مزید قریب ہوتے، اسکے برخلاف اسلام ہی پر سوالیہ نشان ابھر نے لگے۔ نتیجتاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کمیونزم اور جدید نظریات ہی کے پیروکار نکلے۔
دوسرا طریقہ مدارس کا رہا۔ جہاں خالص دینی علوم پر توجہ دی گئی۔ طلباء کو محض قرآنیات اور فقہ کی تعلیم تک محدود رکھا گیا‌۔ جدید تعلیم اور جدید نظریات سے طلباء نابلد رہتے۔ اسلام کے معاشی، معاشرتی اور قوانین کے اصولوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اسلام کو بحثیت آفاقی نظام پیش کرنے میں کمی رہی۔ جدید نظریات کا تنقیدی جائزہ کرکے اسلام کی بنیاد پر مدلل رد تیار کرنا، اسلامی فکر کو بحثیت نظام پر زور اور مدلل انداز میں پیش کرنے سے مدارس قاصر رہے۔ جدید نظریات کا تنقیدی اور تقابلی جائزہ کرکے انکی اصولی خرابیاں اجاگر نہیں کی گئی۔ لہذا نتیجتا مدارس کی تعلیم فقہی مسائل اور فرقی مباحث ہی میں الجھ کر رہ گئی۔ توقع یہ تھی کہ مدارس نہ صرف امت بلکہ ملک کی رہبری کرتے اسے عدل و انصاف کے اصولوں پر چلاتے برخلاف نتیجہ یہ نکلا کہ فارغین مدارس امامت اور مکتب کے استاد کے ہی پیشے پر منجمد ہوگئے۔ دینی اور دنیوی علوم جیسی دو اصطلاحات نے جنم لیا۔ دینی علوم کو علیحدہ اور دنیوی علوم کو علیحدہ تصور کیا جانے لگا۔ دین ایک آزاد عنصر بن گیا دنیا ایک آزاد عنصر بن گئی۔ دونوں میں کوئی ربط واضح نہیں ہوسکا۔ اس تصور سے پھر وہی نتیجہ نکالا کہ اسلام محض ایک اعتقادات اور رسومات کا مجموعہ ہے۔ اسے بدلتی دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ معاشرے میں تحت شعور میں یہ بات رہی کہ گر ترقی مقصود ہوتو جدید علوم حاصل کرنا ضروری ہے۔
یہ نظریہ اپنے آپ میں اسلام کی روح کے منافی ہے۔ اسلام میں دینی اور دنیوی علوم جیسی کوئی اصطلاح نہیں۔ ہر وہ علم جو اللہ کی رضا اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے حاصل کیا جائے و دینی علم ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں کے خلاف نہ ہو۔
بھارتی تعلیمی نظام کی الحادی بنیاد یہ وہ بڑا اصولی مسئلہ ہے جس کا شکار دوسری قومیں ہو نہ ہو لیکن امت مسلمہ اسکی کاری ضرب کا شکار ہوئی۔
2) مقصد تعلیم :
بھارتی تعلیمی نظام کا دوسرا بڑا نقص مقصد سے متعلق ہے۔ تعلیم کا اصل معیار یہ ہے کہ طالب علم اخلاق و کردار میں برتری حاصل کرے۔ معاشرے کی کمان وہ لوگ سنبھالیں جو اخلاق و کردار میں اعلیٰ ہوں۔ تعلیم کے ذریعے صالح افراد تیار ہوں اور ایسے نظام کی سربراہی کریں جہاں غیر اخلاقی عوامل پنپنے نہ پائیں۔ ہمارے ملک کی صورتحال سے سبھی بخوبی واقف ہے۔ بڑے بڑے تعلیم یافتہ آفیسر ہیں جو کرپشن کے عادی ہیں، بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم میں بھیجنے والوں میں بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے جو تعلیم یافتہ ہیں۔ دھوکہ دہی، فریب اور مکاری کو معیوب سمجھا ہی نہیں جاتا ہے۔ این سی آر بی کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں گرفتار ہونے والے مجرموں کی تعداد %17 تھی، جو یا تو گریجویٹ تھے یا پوسٹ گریجویٹ تھے۔ 2010 کے بعد یہ شماریات %10 بڑھے ہیں۔ سنٹر فار سوشل جسٹس کی رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2019 کے درمیان کرپشن میں ملوث %45 تعلیم یافتہ افراد تھے۔ ای ڈی کی رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ کے معاملات میں 2015 سے 2020 کے درمیان %30 تعلیم یافتہ تھے۔
بھارتی تعلیمی نظام میں اخلاق کبھی مقصد رہا ہی نہیں۔ اگر کچھ درجہ رہا بھی تو وہ بس کتابی حد تک موجود ہے۔ چند اسباق اخلاقیات کو لے کر پڑھا دیے جاتے ہیں جو محض اپنا تحریری اثر رکھتے ہیں۔ طالب علم کی زندگی میں وہ رسوخ نہیں کر پاتے۔ اخلاقی قدروں کی کمی دراصل ہمارے پہلے ہی نقص کا صریح رد عمل ہے۔ اخلاقی تعلیم مذہب ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اخلاق اور مذہب دونوں ایک دوسرے میں باہم مربوط ہے۔ کسی بھی نظام سے مذہب کو نکال دیا جائے تو اس کا واضح رد عمل یہی رہتا ہے کہ اس نظام سے اخلاقی قدریں بھی چلی جاتی ہیں۔ جب تعلیمی نظام سے مذہب ہی کو نکال دیا گیا تو وہ کون سے اصول باقی رہیں گے جس کی بنیاد پر اخلاقی تعلیم دی جا سکے گی؟ اسی نکتہ کو اس وقت کے بڑے مغربی مفکرین نے بھی سمجھا اور وہ اسکے اعتراف کے لیے مجبور ہوئے۔ Bertrand Russell جیسے انتہا پسند دہریے کو بھی یہ قبول کرنا پڑا اور اس کے یہ الفاظ تھے کہ ’’اگر سائنسی تہذیب کو برتر تہذیب بنانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ حکمت میں بھی اضافہ ہو۔ حکمت سے میری مراد زندگی کی غایات کا صحیح تصور ہے مگر یہ وہ شے ہے جس کو سائنس مہیا نہیں کرسکتی۔‘‘ Chateaubriand نے کہا تھا ’’تعلیم مذہبی بنیادوں کے بغیر ایسی ہے گویا انسان کو ذہین شیطان بنایا جاتا ہو۔‘‘
اس نظام کا مقصد جب اخلاق نہیں رہا تب حکومت کی جانب سے تعلیمی نظام کا مقصد یہی قرار پایا کہeducated worker تیار کیے جائے جو تعلیم حاصل کرے اور ایک نوکری پر اکتفا کرلے‌۔ جو روایتی چیزیں چلی آرہی ہیں اسے ویسے ہی انجام دیا جائے تخلیقی صلاحیت کی زیادہ ضرورت نہیں۔
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے، فکر معاش
3) دیگر :
یہ کچھ اصولی مسائل ہیں جس کا شکار یہ تعلیمی نظام ہے۔ ایسی کئی ضمنی خامیاں ہیں جن کی جڑیں کہیں نہ کہیں الحادی بنیاد اور مقصد کی کمی جڑی ہوئی ہیں۔ ماہر تعلیم بتاتے ہیں کسی بھی تعلیم نظام دو مقاصد کے تحت چلائےجاسکتے ہیں اول یہ کہ طلباء کے اندر صلاحیتوں کو پروان چڑھانا مقصود ہو۔ دوم یہ کہ طلباء کو چھانٹنا مقصود ہو۔ ہمارا نظام دوسرے مقصد کے تحت کام کرتا ہے۔ طلباء کو مستقل الگ الگ مسابقتی امتحانات کے ذریعے چھانٹا جاتا ہے۔ تعلیم اس لیے نہیں دی جاتی کہ صلاحیتیں پروان چڑھے بلکہ اس لیے دی جاتی ہے کہ امتحانات کامیاب کیے جا سکے۔ جو امتحان کے لیے جتنا رٹ لیں اسے اتنے مارکس آتے ہیں۔ امتحان سے ایک دن قبل سارا مواد اکٹھا کیا جائے اور اگلے روز پیپر میں اگل دیا جائے بس اسی پر مارکس ملتے ہیں۔ جسے جتنے زیادہ مارکس ملے اسے اتنا کامیاب مانا جاتا ہے۔ کامیابی کا پیمانہ صلاحیتیں نہیں بلکہ مارکس ہیں۔ تعلیم کا مکمل دارومدار اچھے مارکس اور اچھی جاب پر ہے جس نے یہ حاصل نہیں کیا گویا اس نے کچھ حاصل نہیں کیا۔ 12 سال ایک طالب علم language پڑھتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس زبان کو روانی سے سیکھ نہیں پاتا۔ نصاب ایسا جو ہے جو اصل زندگی سے مطابقت ہی نہیں رکھتا۔ بچپن سے پڑھتے آئے ہیں (a+b)² = a² + 2ab + b² ہوتا ہے۔ لیکن اصل عملی زندگی میں اسے استعمال کہاں کرنا ہے کوئی نہیں جانتا۔ نصاب بھی وہی ہے جو مختصر رد و بدل کے ساتھ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ بدلتے دور کے ساتھ اس میں تبدیلیاں دیکھنے نہیں ملتی۔ ہر طالب علم کواس کی استعداد اور دلچسپی کا خیال کیے بغیر یکساں نصاب پڑھایا جاتا ہے‌۔ یہی وجہ ہے کہ طلباء آج passive consumer بنتے جا رہے ہیں۔ تعلیم نہ تو سیاسی مدعا ہے نہ ہی جی ڈی پی میں اسے معنی خیز حصہ ملا ہے۔ یوں تو بھارت میں سرکاری طور پر تعلیم کو nonprofit شعبہ مانا جاتا ہے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج بھی زیادہ منافع تعلیمی شعبے میں ہے۔ مختلف مسابقتی امتحانات کا tuition culture عام ہے۔ تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس پر کوئی اقدامات نہیں لیے جاتے۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020 میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہے بہت سے مثبت پہلو بھی ہے۔ GDP میں تعلیم کا فیصد %3 سے بڑھا کر %6 کیا گیا ہے۔ اس روایتی تعلیم کو بدلنے کے لیے بہت محنت اور وقت درکار ہے۔ NEP 2020 میں مقصد پر کچھ درجہ توجہ ضرور دی گئی لیکن الحادی بنیاد ہنوز قائم ہے۔ درحقیقت NEP 2020 کی اصل اثاث یہ ہے کہ تعلیم کو ہندوتوا تہذیب کی جانب موڑا جائے۔ ویسی تعلیم دی جائے جسے حاصل کرکے خاص نظریے کے افراد ہی تیار کیے جا سکے۔ ضمنی تبدیلیوں سے کچھ مسائل حل ضرور ہو جائیں گے، لیکن جڑ جب تک قائم رہے گی نئے مسائل کے سوتے پھوٹتے رہیں گے۔
حل :
اس تحریر کا مقصد مایوس کرنا نہیں ہے بلکہ ان اصولی مسائل کی طرف توجہ دلانا ہے جو عام طور پر زیر بحث نہیں آتے۔ اس نظام کا ہم حصہ ہیں تو ظاہر ہے ہمارے ہی ذریعے نظام بدلا بھی جا سکتا ہے۔ میری نظر میں کچھ حل ہیں جس سے بروئے کار لا کر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
اول یہ کہ ہم جان چکے کہ یہ نظام الحادی بنیاد پر کھڑا ہے۔ عمارت کی بنیاد ہی اگر کمزور ہو تو اوپری عمارت میں رد و بدل کرنا لاحاصل ہے۔ لہذا ہمیں ایسے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہوگی جس کی بنیاد خالص دین پر ہو۔ طالب علم جب علم حاصل کرکے نکلے تب وہ خدا کے وحدانیت اور تقوے کے لحاظ سے پختگی اختیار کر چکا ہو۔ تعلیم اول سے لے کر آخر تک قرآنی اور اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔ معاشی، سماجی اور قوانین کے اصول وہی پڑھائے جائے جو شریعت محمدی سے ثابت ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ عدل و انصاف قائم کرنے کی طاقت اگر کہیں ہے تو وہ محض دین اسلام میں ہے۔ دنیوی علوم اور دینی علوم جیسی کوئی تفریق نہ ہو جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی اور ریسرچ کی تعلیم بھی حاصل کی جائے مگر وہ خالص اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔ ایسا نظام جس کا مقصد نیک و صالح افراد تیار کرنا ہو جو دنیا کی سربراہی کریں۔ جسکا مقصد محض ذریعۂ معاش کا حصول نہ ہو بلکہ سماج کی فلاح و بہبود اور ملک کے عروج و ترقی مقصود ہو۔ نظام وہ ہو جو محض educated workers تیار نہ کرے بلکہ نوجوان قائدین اور رہنماء تیار کرے‌۔ طلباء اخلاق کردار میں اعلی ہو اور اسلام کا آفاقی تصور پیش کرتے ہو۔
یہ نظام صرف ایک تصوراتی نظام نہیں ہے۔ ماضی میں اسطرح کے نظام نافذ ہوئےہیں۔ دور نبوی ﷺ کے بعد جو علم کا سلسلہ عروج چلا، تاریخ گواہ ہے کہ روم، قیصر و کسریٰ جیسی بڑی بڑی طاقتیں اس نظام کے آگے سربسجود ہوگئی۔ قیادت اور تعلیمی کمان اس دور کے سپرپاور سے منتقل ہوکر بغداد، مصر اور دمشق کے ہاتھ آئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ علم کے متلاشی دور دراز سے تشریف لاتے اور اسلام کی کرن انکے قلب و ذہن میں پیوست ہوجاتی۔ ابن خلدون، ابن الحیشیم، الفرابی، ابن سینا جیسے سیکڑوں نام ہے جنھوں دنیا کا رخ بدل دیا۔ آج دنیا میں جو ترقی ہے، بنیاد انہیں سائنسدانوں کی عطا کردہ ہے۔ تعلیم کے ذریعے باکردار لوگ تیار ہونا جب ہی ممکن ہے جب اسکی بنیاد دین پر ہو، اسکے بغیر اخلاقی قدریں روح سے خالی ہی رہے گی۔ ایک شخص کی شخصیت میں وہ رسوخ نہیں کرپائےگی۔ یہ نظام ہر بندہ مومن اور ہر صاف گو شخص کے ذہن میں ہونا چاہئے۔ اسے اسی مقصد کے تحت ہمہ وقت انفرادی و اجتماعی طور پر کوشاں رہنا چاہئے۔ یہ نظام طویل مدتی ضرور ہے۔ اس ملک میں اسکا نفاذ خیالی ضرور لگتا ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے۔ یہی ایک صریح راستہ ہے جو تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتا ہے۔ یہ بات قابل قبول ہے کہ اس نظام کے قیام تک موجودہ رائج تعلیمی نظام سے قطع تعلق اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ کوششیں ہیں جنہیں دوران جدوجہد اختیار کیا جاسکتا ہیں :
اول یہ کہ جدید علوم حاصل ضرور کیے جائیں مگر انہیں قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔جدید نظریات اور اسلامی نظریے کے تقابلی جائزہ لیا جائے تاکہ ایک طالب علم واضح طور سے سچائی سے واقف ہو جائے۔ اسلام خود ایک نظریہ ہے۔ قران میں الله نے مسلسل غور و فکر کی ترغیب دلائی ہے۔ ایک طالب علم کے اسلام کے اصولوں پر جتنا غور کرے گا حق و انصاف کے ستون اس کے اوپر واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ وہ یہ واضح طور پر جان لیتا ہے کہ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ کہ "الله کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔” (سورہ آل عمران 19) پھر وہ زمانے کے پر فریب نعروں سے مستثنی ہو جاتا ہے۔ علم حکمت کے خزانے دین اسلام میں بھر پور موجود ہیں، شرط یہ ہے کہ اسے تلاش کیا جائے۔
دوم یہ کہ موجودہ نظام طالب علم کو اچھے مارکس دلا سکتا ہے مگر صلاحیتیں پیدا نہیں کر سکتا۔ طالب علم کو ‘اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی’ کے مصداق ہونا ہوگا۔ اسے اپنی شخصیت کی کھوج کرنی ہوں گی۔ وہ پوشیدہ صلاحیت ڈھونڈ نکالنی ہوں گی جس سے وہ اپنے آپ کو اس روایتی نظام میں علیحدہ کھڑا کر پائے۔ غلامانہ زہنیت سے نکلنے کے لیے خودی کی تلاش ضروری ہے۔ جو تخلیقی صلاحیتیں موجود ہیں انہیں مزید ابھارنا ہوگا۔ passive consumer نہ رہتے ہوئے تنقیدی سوچ پیدا کرنے ہوگی۔ انفرادی وہ اجتماعی طور پر کوشش رہے کہ معاشرے کا ایک اہم مدعا تعلیم بنے، اسکی جانب بھی توجہ دی جائے۔ جو تنظیمیں تعلیمی تبدیلیوں کے لیے کام کر رہی ہے ان سے جڑا جا سکتا ہے۔ ہر ممکن کوشش یہ رہے کہ تعلیم بھی ایک سیاسی مدعا‌ بنے۔ تبھی جاکر کوئی ٹھوس تبدیلی ممکن ہے۔
حکومت سے یہ توقع رہے گی کہ، طلباء کو انکی استعداد انکی دلچسپی اور انکے learning level کے مطابق پڑھایا جائے۔ تعلیم کا مقصد چھٹائی نہ ہو بلکہ صلاحیتیں کا ارتقاء مقصود ہو۔ امتحانات میں تبدیلی لائی جائے امتحانات marks based نہ ہو بلکہ مختلف زاویوں سے طلباء کی نشوونما کو پرکھا جائے۔ کتابی تعلیم کے مقابلے عملی تعلیم پر توجہ ہو۔ ہر stream میں تعلیم کے مواقع مساوی تقسیم کیے جائے۔ طلباء کی ذہنی کیفیت کا بھی لحاظ رکھا جائے۔ بدلتے دور کے مطابق نصاب بھی بدلا جائے تاکہ ہر نئی آنے والی ٹکنالوجی سے طلباء کو روبرو کرایا جاتا رہے۔ تخلیقی صلاحیتیوں کی بھرپور پزیرائی ہو۔ ratification کو ہر ممکن روکا جائے۔ طلباء کے کسی ایک شعبہ میں جمود کو روکا جائے، unhealthy competition کم کیا جائے۔ یہ ساری تبدیلیاں ایوانوں اور حکمرانوں کے ہی ذریعے ممکن ہے۔ سیاست اور ایوانوں میں اس پر بات تب ہی ممکن ہوگی جب یہ سماج کی ضرورت ہوگی۔ سیاست سماج کی ضروریات پر ہی چلتی ہے۔ سماج ایک فرد سے بنتا، انفرادی طور پر بھی اور سماجی طور پر بھی تعلیم کو مدعا بنانا ہوگا۔ تب ہی جاکر یہ بات اوپری سطح تک جاسکے گی۔ ورنہ گزرتے وقت کے ساتھ وہی مسائل دہرائےجاتے رہیں گے۔
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقّی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

 

***

 ہمارا ایمان ہے کہ عدل و انصاف قائم کرنے کی طاقت اگر کہیں ہے تو وہ محض دین اسلام میں ہے۔ دنیوی علوم اور دینی علوم جیسی کوئی تفریق نہ ہو جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی اور ریسرچ کی تعلیم بھی حاصل کی جائے مگر وہ خالص اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔ ایسا نظام جس کا مقصد نیک و صالح افراد تیار کرنا ہو جو دنیا کی سربراہی کریں۔ جسکا مقصد محض ذریعۂ معاش کا حصول نہ ہو بلکہ سماج کی فلاح و بہبود اور ملک کے عروج و ترقی مقصود ہو۔ نظام وہ ہو جو محض educated workers تیار نہ کرے بلکہ نوجوان قائدین اور رہنماء تیار کرے‌۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 نومبر تا 11 نومبر 2023