زعیم الدین احمد، حیدرآباد
آزاد صحافت پر قدغن لگانے والی حکومت کی ایک اور کوشش ناکامی کے دہانے پر
مرکزی حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ضوابط میں ترمیم کرتے ہوئے پریس انفارمیشن بیورو کے فیکٹ چیک آرم کے نام پر ایک فیکٹ چیکنگ یونٹ قائم کی ہے۔ حقائق کی جانچ کے نام پر اس یونٹ کو اتنا اختیار دے دیا گیا ہے کہ یہ جسے غلط، جعلی یا گم راہ کن خبر یا بات سمجھتی ہے، انٹرنیٹ پر اسے نشر ہونے سے روک سکتی ہے۔ متعدد تجزیہ نگاروں نے اس روک کو آزادی صحافت کے قتل سے تعبیر کیا ہے۔ لہٰذا اس ادارے کو صحافت کے قاتل ادارہ سے تعبیر کیا جانے لگا ہے۔ نوٹیفکیشن کے لانے کے وقت پر بھی کئی سوالیہ نشان کھڑے کئے جا رہے ہیں۔ ملک میں عام انتخابات کو محض ایک ماہ باقی رہ گیا ہے، انتخابات سر پر ہیں، ایسے میں اس یونٹ کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کرنا یقیناً حکومت کی بد نیتی کو ظاہر کر رہا ہے۔ واضح طور پر اس کی نیت میں کھوٹ نظر آرہا ہے۔ یہ بات ہم اس کے سابقہ تجربات کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں۔ مرکزی حکومت کا یہ اقدام یقیناً انٹرنیٹ پر اظہار خیال کی آزادی کو بڑے پیمانے پر متاثر کر سکتا ہے کیوں کہ اس کی نوعیت کسی فلم سنسر شپ سے کم نظر نہیں ہے اور اس یونٹ کے غلط استعمال ہونے کے بھی امکانات زیادہ ہیں۔ مودی حکومت کا وطیرہ یہی رہا ہے کہ وہ سارے حکومتی اداروں کو اپنی خواہشات کے مطابق چلا رہی ہے، کیا عجب کہ وہ اس یونٹ کو بھی اپنے اشاروں پر نچائے۔ مرکزی حکومت کے ان اقدامات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف کوئی بات سننا نہیں چاہتی ہے۔ جہاں سے اس کے خلاف آواز اٹھتی ہے اسے دبا دیا جاتا ہے۔ جو کوئی حق بات پیش کرتا ہے اور حکومت کو آئینہ دکھاتا ہے، فوراً اس کے خلاف کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت اختلاف رائے کو بالکل ختم کر دینا چاہتی ہے کہ نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔
اخبار دی ہندو کی اطلاعات کے مطابق پچھلے ہفتے، پی آئی بی جو حقائق کی جانچ کرنے والی یونٹ ہے، اس نے الجزیرہ کے ایک مضمون کو، جو شہریت ترمیمی بل سے متعلق تھا، جس کے بارے میں الجزیرہ نے رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ ترمیمی بل مسلم مخالف ہے، اسے جعلی قرار دے دیا۔ اس نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے یہ ‘ثبوت’ پیش کیا کہ الجزیرہ کے اس مضمون کو پہلا مقام نہیں ملا۔
مرکزی الیکٹرانکس اور آئی ٹی وزارت نے پریس انفارمیشن بیورو کے فیکٹ چیک یونٹ کو قانونی ادارہ قرار دینا اور وہ بھی اتنے اختیار کے ساتھ کہ وہ کسی ایسی بات پر قدغن لگا دے جو اس کے خیال میں سوشل میڈیا سائٹس پر مرکزی حکومت اور اس کی ایجنسیوں سے متعلق غلط معلومات فراہم کر رہے ہوں، چہ جائیکہ وہ حق ہی کیوں نہ ہوں، اگر وہ ادارہ اسے غلط، جعلی یا گم راہ کن سمجھتا ہے تو اسے نشر نہیں کیا جاسکتا، اسے انٹرنیٹ سے نکال دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں مرکزی حکومت کے پریس انفارمیشن بیورو کے فیکٹ چیک آرم 2023 کے ترمیم شدہ انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز کے تحت بنائی گئی فیکٹ چیکنگ یونٹ (FCU) کے نوٹیفکیشن پر روک لگانے کا حکم جاری دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ موجودہ قانون کے مطابق، مرکزی حکومت کے بیانیہ کو صرفِ نظر بھی کر دیا جائے تو حکومت کے بنائے گئے اس ضابطے پر کئی سنگین آئینی سوالات کھڑے ہوتے ہیں کہ بھارت میں موجود اظہار آزادی رائے اور اظہار خیال کی آزادی جیسے بنیادی حقوق پر اس کے کیا اثرات پڑتے ہیں؟ اس کا تجزیہ تو عدالت کے ذریعے ہی کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کی اس بنچ میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پردی والا اور منوج مشرا شامل تھے۔ بنچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم واضح طور پر اس خیال کے حق میں ہیں کہ 20 مارچ 2024 کو مرکزی حکومت کی طرف سے عبوری ریلیف کی درخواست کو مسترد کرنے کے بعد جاری کردہ نوٹیفکیشن پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔ یہ روک اس وقت تک رہے گی جب تک کہ بامبے ہائی کورٹ میں جاری مقدمے سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں آجاتا، یعنی اس یونٹ کے جواز کو چیلنج کرنے والی کارروائی کا کوئی فیصلہ نہیں آجاتا اس وقت تک یہ عبوری روک برقرار رہے گی۔ اس ماہ کے شروع میں سپریم کورٹ کے عبوری روک لگانے سے قبل بامبے۔ہائی کورٹ نے اس یونٹ پر روک لگانے سے انکار کردیا تھا، چیلنج کرنے کے ایک ماہ بعد دو ججوں کی بنچ نے مذکورہ یونٹ سے متعلق الگ الگ فیصلہ سنایا تھا۔ اس درخواست کو مزاح نگار کنال کامرا، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور ایسوسی ایشن آف انڈین میگزینز نے دائر کی تھی، اس درخواست میں بامبے ہائی کورٹ کے آئی ٹی رولز 2023 کے نفاذ پر روک لگانے سے انکار کو چیلنج کیا گیا تھا۔ قانونی رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والی بنچ نے یہ دیکھا کہ 20؍ مارچ کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کو روکنے کے لیے بنیادیں موجود ہیں یا نہیں، جو عبوری روک لگانے کے لیے درکار ہیں؟ بہت سےآن لائن جرائد نے ماضی میں رپورٹ کیا تھا کہ PIB کے ایک خود مختار ادارے کی حیثیت سے کام کرنے کی صلاحیت کے بارے میں بہت سے خدشات پائے جاتے ہیں اور کہا کہ یہ ادارہ حقائق کی منصفانہ جانچ کرنے سے قاصر ہے، اس کی کارکردگی یکطرفہ نظر آتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا جائے، ہر اس آواز کو کچل دیا جائے جو حکومت کی غلط پالیسیوں کو اجاگر کرتی ہو، اس کے کالے کارناموں کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہو۔ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے محققین نے پایا کہ پی آئی بی کو پچھلے تین سالوں میں یعنی اپریل 2020 سے انٹرنیٹ پر حقائق کی جانچ پڑتال کی معلومات کے لیے تقریباً 1.2 لاکھ درخواستیں موصول ہوئی تھیں، لیکن اس نے ان درخواستوں میں سے صرف 1,223 پر ہی عمل درآمد کیا ہے، یعنی محض ایک فیصد کارروائی کی شرح ہو پائی ہے، تعجب ہے پھر ایسے ادارے کے ہونے کا کیا فائدہ جو اپنی کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ان اعداد و شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اداراہ منصفانہ طور پر اپنے کام انجام نہیں دے رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے مودی حکومت کو یہ دوسرا بڑا جھٹکا دیا ہے، ایک جھٹکا تو انتخابی بانڈز کو منظر عام پر لانے کا تھا اب یہ دوسرا جھٹکا لگا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مودی اور شاہ کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ویسے حالات سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مودی اور شاہ نے ملک میں ’اگھوشت ایمرجنسی‘ یعنی غیر اعلان شدہ ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے۔
***
سپریم کورٹ نے پچھلے دنوں مرکزی حکومت کے پریس انفارمیشن بیورو کے فیکٹ چیک آرم 2023 کے ترمیم شدہ انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز کے تحت بنائی گئی فیکٹ چیکنگ یونٹ (FCU) کے نوٹیفکیشن پر روک لگانے کا حکم جاری دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ موجودہ قانون کے مطابق، مرکزی حکومت کے بیانیہ کو صرفِ نظر بھی کر دیا جائے تو حکومت کے بنائے گئے اس ضابطے پر کئی سنگین آئینی سوالات کھڑے ہوتے ہیں کہ بھارت میں موجود اظہار آزادی رائے اور اظہار خیال کی آزادی جیسے بنیادی حقوق پر اس کے کیا اثرات پڑتے ہیں؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024