سرمایہ دارانہ اجارہ داری سے معاشی عدم توازن

حکومت کے تعاون سےبڑے تجارتی گھرانوں کی بازار پر مضبوط گرفت۔چھوٹی اور متوسط کمپنیوں کو نقصان

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

پچیس مارچ 2020 کو ملک میں تالا بندی لگائی گئی تھی، اس تالا بندی سے سارے ملک میں کام کاج بند ہوگئے تھے۔ اس ساری روداد سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ مزدوروں کا پیدل سفر، چھوٹے کاروباروں کا بند ہو جانا، کھانے پینے کے اشیاء کا نہ ملنا وغیرہ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے گھڑی رک گئی ہو۔ اب بھی ہمارے ذہنوں میں وہ سارے واقعات تازہ ہیں۔ وہ یادیں ہمارے ذہنی سکون کو اضطراب میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ کئی لوگ روزگار سے محروم ہو گئے۔ کئی تجار اپنے کاروبار سے محروم ہو گئے۔ کئی صنعتی ادارے بند ہو گئے۔ ملک کی جی ڈی پی منفی ہو گئی۔ لیکن بہت ہی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ملک کی پچاس بڑی کمپنیاں فائدے میں رہیں، ان کے منافع میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا۔ مثال کے طور پر لاک ڈاؤن کے زمانے میں مکیش امبانی نے دس بلین ڈالر کی کمائی کی جب کہ چھوٹے اور متوسط کاروباری ادارے بند ہو گئے۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے، کیا وجہ ہے کہ ایک تجارتی ادارہ کی کمائی میں تو بے تحاشہ اضافہ ہوتا ہے اور دوسرے چھوٹے کاروبار بند ہو جاتے ہیں؟ اسے موٹے طور پر اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی معیشت ’’ٹرکل ڈاؤن تھیری‘‘ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ زیادہ کمائی کرتے ہیں اور ساری چیزوں کا فائدہ اٹھالیتے ہیں، ان کی کمائی کا فائدہ باقی لوگوں کو بھی ملتا ہے لیکن بہت ہی حقیر، بہت ہی کم، ان کا فائدہ نیچے پہنچتے پہنچتے نہیں کے برابر ہو جاتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ سب سے اوپر والا ایک کروڑ روپے کماتا ہے تو سب سے نچلی سطح پر رہنے والے کو صرف ایک روپیہ ملتا ہے۔
اس طرح کا نظام پہلے ہی بنا دیا گیا اور آج تک یہی نظام چل رہا ہے۔ اس نظام کو بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ اس وقت وسائل بہت محدود تھے، بہت کم لوگوں کے پاس وسائل ہوا کرتے تھے، اس وقت کی حکومت یہ چاہتی تھی کہ جن کے پاس وسائل ہیں وہ اس کا استعمال کریں اور دولت پیدا کریں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کے پاس کپڑا بنانے کی صلاحیت ہو اور وہ کپڑے کی صنعت لگانا چاہتا ہے تو حکومت اس کو وہ صنعت لگانے میں مدد کرتی تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کو روزگار فراہم ہو اور وہ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکیں، اپنی ضروریات زندگی کو پورا کر سکیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے صنعت کے ذریعہ مالک کو ہی زیادہ فائدہ پہنچتا ہے اس میں کام کرنے والے کارندوں کو بہت ہی کم اجرت ملتی ہے۔ کمائی کا تقریباً پچانوے فیصد حصہ مالک کے پاس چلا جاتا ہے بقیہ پانچ فیصد سب میں تقسیم ہوتا ہے۔ پھر دوسری طرف یہ کمانے والی کمپنیاں حکومتوں کو ٹیکس کی شکل میں بھاری رقومات ادا کرتی ہیں، اسی طرح ان ناجائز کاموں کو جاری رکھنے کے لیے یہ صنعتی ادارے حکومتوں کو رشوت کے طور پر بھی بھاری رقمیں فراہم کرتی ہیں۔ ان کے انتخابی اخراجات، ان کی آسائشوں کا خیال، غرض ان کے سارے ناز ونعم اٹھاتے ہیں۔ اسی لیے حکومتیں بھی یہ چاہتی ہیں یہ صنعتیں چلتی رہیں۔
نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ملٹن فریڈمین کا کہنا ہے کہ ’’تجارت کرنے والوں کی ایک ہی غرض ہوتی ہے کہ وہ کیسے منافع کمائیں‘‘ لیکن یہاں حکومت کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان میں توازن پیدا کرے، اس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ سارے صنعتی اداروں کو برابر کا موقع فراہم کرے، کسی کے ساتھ جانبدارانہ رویہ اختیار نہ کرے، کسی ایک کمپنی کی اجارہ داری قائم ہونے نہ دے، یہی اس کی ذمہ داری ہے۔ اگر ایک کمپنی کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ حکومت پر اس کا تسلط قائم ہو جائے گا، وہ جو چاہے گی اور جیسا چاہے گی اپنا کام کروائے گی۔ اس کا راست نقصان عوام کو پہنچتا ہے۔ وہ کمپنی اپنی من مانیاں کرے گی جس سے سماج میں توازن بگڑ جائے گا۔ مثال کے طور پر Jio (جیو) کمپنی نے ابتدا میں کم قیمت پر اپنی خدمات دینی شروع کیں اور آہستہ آہستہ اس نے سارے بازار کو اپنی گرفت میں لے لیا، جیسے ہی اس نے ابتدا میں کم قیمت پر اپنی خدمات پیش کیں لازمی طور پر دوسری کمپنیوں کو بھی اپنے دام کم کرنے پڑے۔ یہ کوئی صحت مند علامت نہیں تھی۔ شروعات میں تو ان میں مسابقت کی وجہ سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن بعد میں جیسے ہی دوسری کمپنی مسابقت کو برداشت کرنے سے نقصان میں آجائے گی اور وہ کمپنی جس نے محض دوسری کمپنیوں کو ختم کرنے کی غرض سے قیمتیں کم کر دی تھیں اس کو ان کمپنیوں کے ختم ہونے کا فائدہ پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔ دوسری کمپنیاں بند ہوتے ہی وہ اپنی اجارہ داری شروع کردیتی ہے اور پھر من مانی قیمتیں وصول کرنا شروع کر دیتی ہے، اس طرح اس کا عوام کو راست نقصان پہنچتا ہے، کیوں کہ عوام کے پاس دوسرا کوئی متبادل نہیں ہوتا، عوام مجبور ہوتے ہیں کہ اسی ایک کمپنی کی خدمات حاصل کریں۔ اس موقع پر حکومت کا کام یہ ہونا چاہیے کہ اس کو اجارہ داری سے روکے اور توازن برقرار رکھے ورنہ یہ ہوگا کہ یہ کمپنی حکومتی کاموں میں بھی مداخلت کرنا شروع کر دے گی اور حکومت مجبور ہو جائے کہ وہ اس کے بتائے ہوئے طریقے پر کام کرے۔
یہی کچھ ہوا ہے اس حکومت کے ساتھ اس نے ایک دو صنعتی اداروں کو اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا موقع فراہم کیا اور سارے بازار کو اپنی گرفت میں لینے میں بھر پور تعاون کیا۔ اسی لیے ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹی اور متوسط کمپنیاں بند ہو رہی ہیں اور یہ دو تین ادارے روز افزوں ترقی کرتے جارہے ہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں فیصلے کرواتے ہیں، پھر چاہے وہ کسانوں سے متعلق قوانین ہوں یا پھر برقی قوانین، یا مزدوروں سے متعلق قوانین ہوں۔ حکومت ان ہی کے اشاروں پر کام کرتی نظر آتی ہے۔ اس طرح کے نظام سے عوام کو فائدہ نہیں ہو گا بلکہ ان کو شدید نقصان ہی پہنچے گا۔ کیوں کہ ہماری معیشت ’’ ٹرکل ڈاؤن تھیری‘‘ پر کام کرتی ہے۔ نتیجہ میں دولت ایک ہی جگہ مرکوز ہوتی جائے گی اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جائیں گے۔ وہ صنعتی ادارے ہزاروں کروڑ کمائیں گے اور عوام کو بمشکل تمام ایک وقت کی روٹی نصیب ہو گی، جیسا کہ اوپر آ چکا ہے کہ لاک ڈاؤن میں مکیش امبانی نے دس بلین ڈالر کمائے پھر بھی اس نے اسی دوران اپنے ملازمین کی تنخواہیں یہ کہہ کر کاٹ لیں کہ اسے لاک ڈاؤن میں نقصان ہوا ہے۔
واضح ہو کہ ہمارے ملک کے بیشتر افراد ان بڑے صنعتی اداروں میں کام نہیں کرتے بلکہ نوے فیصد لوگ چھوٹے اور متوسط صنعتوں میں یا خود روزگار کے تحت کام کرتے ہیں، اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ چھوٹے اور متوسط کاروبار والے لوگ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے کام کرتے ہیں نہ کہ کوئی عالی شان محل تعمیر کرنے کے لیے؟ اگر ایک دو دن بھی ان کا کاروبار نہیں چلتا ہے تو انہیں بھوکوں رہنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک کسان سبزیاں اگاتا اور بازار میں فروخت کرتا ہے تو وہ یہ محنت اپنے گھر کو پالنے کے لیے کرتا ہے، اگر اس کا کاروبار ایک دو دن کے لیے بند ہو جائے تو سوچیے کہ اس کی کیا حالت ہوتی ہو گی۔ جبکہ ریلائنس فریش جو اپنی دولت میں اضافے کے لیے سبزیوں کی تجارت کرتا ہے اگر اسے ایک ماہ کے لیے بھی اپنا کاروبار بند کرنا پڑے تو اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ جہاں سبزیاں بیچنے والوں کو لاک ڈاؤن میں اپنے کاروبار بند کرنے سے نقصان پہنچا وہیں اسی لاک ڈاؤن سے ریلائنس جیسی کمپنیوں کو فائدہ پہنچا۔
اس موقع پر حکومت کو اس جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ اسے چاہیے کہ چھوٹی اور متوسط صنعتوں کی مدد کرے انہیں پروان چڑھانے میں مکمل تعاون کرے تاکہ اس کے ذریعہ سے بہت سوں کی زندگی بہتر ہو سکیں۔ اسی طرح سے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ضروریات زندگی کے سامان کو اور سبزی ترکاری کو اسی جگہ سے خریدیں جہاں بیٹھ کر یہ چھوٹے اور متوسط تاجر بیچتے ہیں تاکہ ہماری اس کوشش سے سماج میں توازن برقرار رہے۔ ہمارے ملک میں بے روزگار نوجوان کی بہت بڑی تعداد رہتی ہے جن کی اکثریت کسی بھی ہنر سے نابلد ہے۔ یونیسف کے مطابق سال 2030 تک ہمارے ملک میں 31 کروڑ گریجویٹ طلبا کی ایک فوج تیار ہو گی لیکن ان میں سے آدھے نوجوان ایسے ہوں گے جن کے پاس کسی بھی قسم کا ہنر نہیں ہو گا، یعنی یہ ’’اَن اسکِلڈ لیبر‘‘ ہوں گے۔ یہ ایک بہت ہی حیران کن صورتحال ہو گی۔ اس جانب حکومت کو فوری توجہ دینا ہو گا۔ وہیں ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم کوشش کریں کہ نوجوانوں کو ہنر سکھائیں، انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے کی ضرورت پر زور دیں۔
***

 

***

 ہمارے ملک میں بے روزگار نوجوان کی بہت بڑی تعداد رہتی ہے جن کی اکثریت کسی بھی ہنر سے نابلد ہے۔ یونیسف کے مطابق سال 2030 تک ہمارے ملک میں 31 کروڑ گریجویٹ طلبا کی ایک فوج تیار ہو گی لیکن ان میں سے آدھے نوجوان ایسے ہوں گے جن کے پاس کسی بھی قسم کا ہنر نہیں ہو گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 تا 30 اپریل  2022