بجرنگ دل کے کارکنوں کے ذریعے زبردستی مذہبی تبدیلی کی کوشش کا الزام لگانے کے بعد یوپی میں چار راہباؤں کو ٹرین سے حراست میں لیا گیا، کئی گھنٹوں کی تفتیش کے بعد کیا گیا رہا
اترپردیش، مارچ 24: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق اتر پردیش میں پولیس نے زبردستی مذہبی تبادلوں کے الزامات پر ریاست کے جھانسی ضلع میں ایک ٹرین سے چار کیرالہ کی چار راہباؤں کو مختصر مدت کے لیے حراست میں لیا۔ حزب اختلاف کے ذریعے ہندوتوا گروپ بجرنگ دل پر راہباؤں کو جھوٹے بہانے سے ہراساں کرنے کا الزام لگانے کے بعد اس واقعے نے ایک سیاسی تنازعہ کو جنم دیا ہے۔
یہ واقعہ 19 مارچ کو اس وقت پیش آیا جب کیرالہ میں واقع سائرو-مالابار چرچ کے تحت سیکرڈ ہارٹ کنونٹ سے تعلق رکھنے والی دو راہبہ اور دو پوسٹلینٹس دہلی سے اوڈیشہ کے رورکیلا جانے والی اتکل ایکسپریس پر سفر کر رہی تھیں۔ پوسٹلینٹس سادے کپڑوں میں ملبوس تھیں جبکہ راہبائیں اپنے مذہبی لباس میں تھیں۔
پوسٹلینٹس حال ہی میں صوبہ دہلی میں سیکرڈ ہارٹ کی ایک تقریب میں شامل ہوئی تھیں۔ دی نیوز منٹ کے مطابق چوں کہ وہ پہلی بار اوڈیشہ میں اپنے گھر جارہی تھیں، اس لیے دونوں راہبائیں ان کے ہمراہ سفر پر تھیں۔
تاہم بجرنگ دل کے کچھ ارکان اتراکھنڈ کے رِشی کیش سے ٹرین میں سوار ہوئے اور ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ وہ راہبائیں ان نوجوان لڑکیوں کو زبردستی عیسائیت میں تبدیل کرنے کے لیے انھیں لے جارہی ہیں۔
اس واقعے کی ایک مطلوبہ ویڈیو، جو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر پھیلائی گئی تھی، میں دکھایا گیا ہے کہ کچھ افراد پوسٹلینٹس سے پوچھ گچھ کرتے ہیں اور انھیں اپنے آدھار کارڈ اور شناختی ثبوت ظاہر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مردوں کو ایک ویڈیو میں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’’ہم ہندو سماج کے لیے تھے، ہم ہندو سنستھا سے ہیں۔‘‘
@SabarimalaJ pic.twitter.com/KtE48YUe3t
— PATHMARAGAM (@PATHMARAGAM19) March 23, 2021
جب ان لڑکیوں میں سے ایک نے بتایا کہ وہ عیسائی پیدا ہوئی ہے اور اسے زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا، تو ان افراد نے لڑکی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا۔
جھانسی ریلوے اسٹیشن پر ان خواتین کو ٹرین سے اترنے پر مجبور کیا گیا اور انھیں تحویل میں لے لیا گیا۔ ان چاروں سے ہندوتوا گروپ کے دعووں کی بنیاد پر پانچ گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی گئی۔
لیکن کئی گھنٹوں کی چھان بین کے بعد پولیس نے انھیں یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ انھیں یہ ثابت کرنے کے لیے کچھ نہیں ملا کہ راہبائیں دونوں نوجوان لڑکیوں کو زبردستی مذہبی تبدیلی پر مجبور کر رہی ہیں۔
جھانسی سرکل آفیسر نعیم انصاری نے پی ٹی آئی کو بتایا ’’پوچھ گچھ کے دوران اس طرح کا کچھ بھی سامنے نہیں آیا اور ان چار مسافروں کو اگلی ٹرین کے ذریعے روانہ ہونے دیا گیا۔ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
سائرو-مالابار چرچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس گروہ کو پولیس کے ساتھ ایک اور ٹرین میں 21 مارچ کو اپنا سفر جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی کیوں کہ انھیں ہندوتوا کارکنوں سے انتقامی کارروائی کا خدشہ تھا۔ راہباؤں کو بھی توجہ سے بچنے کے لیے اپنے مذہبی لباس سے الگ ہوکر سادے کپڑے پہننے پڑے۔
چرچ کیے بیان کے مطابق بجرنگ دل کے لگ بھگ 150 کارکن ایک مختصر اطلاع پر ریلوے اسٹیشن پر جمع ہوگئے تھے۔
دریں اثنا مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے آج ان چار راہباؤں کو ہراساں کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ کیا ہے۔
بی جے پی رہنما نے کیرالہ کے کنجیراپلی ضلع میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’میں کیرالہ کے عوام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کو جلد سے جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘‘ معلوم ہو کہ ریاست میں 6 اپریل کو انتخابات ہونے والے ہیں۔