اگر مرکز نے مدعو کیا تو کسان بات چیت کے لیے تیار ہیں، تاہم ہمارے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں: راکیش ٹکیت
نئی دہلی، اپریل 12: بھارتیہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت نے اتوار کے روز کہا کہ اگر حکومت مدعو کرے تو مرکز کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسان بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم ہمارے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
ٹکیت نے کہا کہ اگر حکومت سمیکت کسان مورچہ یعنی احتجاج کرنے والے کسانوں کی نمائندگی کرنے والی یونین کو مدعو کرتی ہے تو بات چیت دوبارہ شروع ہوسکتی ہے۔
معلوم ہو کہ اب تک دونوں فریقین کے مابین 11 دور کی بات چیت ناکام رہی ہے، جس میں آخری ملاقات 22 جنوری کو ہوئی تھی۔
بی کے یو کے میڈیا انچارج دھرمیندر ملک نے جاری کردہ ایک بیان میں ٹکیت کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’مطالبات وہی ہیں، تینوں ’’کالے‘‘ زرعی قوانین کو منسوخ کیا جانا چاہیے، فصلوں کے لیے ایم ایس پی کو یقینی بنانے کے لیے ایک نیا قانون بنایا جائے۔‘‘
تکیٹ کا یہ بیان ہریانہ کے وزیر داخلہ انل وج کی مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر سے دوبارہ مظاہرین کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی اپیل کے جواب کے طور پر سامنے آیا ہے۔ وج نے کہا تھا کہ وہ سنگین کورونا وائرس صورت حال کے درمیان دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کرنے والے کسانوں کو لے کر فکرمند ہیں۔
ہفتے کے روز تومر نے احتجاج کرنے والے کسانوں پر زور دیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے درمیان اپنے احتجاج کو موخر کردیں۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ مرکز ان کے مطالبات پر بات کرنے کے لیے تیار ہے۔
تومر نے اے این آئی کو بتایا ’’میں نے کئی مرتبہ کسان یونین کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ کوویڈ 19 کے پیش نظر بچوں اور بوڑھے لوگوں کو گھر واپس بھیج دیں۔ اب دوسری لہر بھی شروع ہوگئی ہے، کسانوں اور ان کی یونینوں کو کوویڈ پروٹوکول پر عمل کرنا چاہیے۔ انھیں احتجاج ملتوی کرنا چاہیے اور ہم سے بات چیت کرنی چاہیے۔‘‘
اس سے قبل سمیکت کسان مورچہ نے 31 مارچ کو کہا تھا کہ دہلی کے قریب مرکز کے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسان مئی میں پارلیمنٹ تک مارچ کریں گے۔
مظاہرین نے اس سے قبل یکم فروری کو بجٹ ڈے کے موقع پر پارلیمنٹ تک مارچ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن 26 جنوری کو ہونے والی کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران ہوئے تشدد کے پیش نظر اسے ملتوی کردیا گیا تھا۔