آندولن کی بدولت سیاست میں جگہ بنا نے میں کامیاب ہوا کسان

سچ کا ساتھ دینے پرعتاب کے شکار صحافیوں سے ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت

افروز عالم ساحل

ایک سال سے جاری کسانوں کی تحریک کو معطل کرنے کے اعلان کے بعد اب دارالحکومت دلی کے سنگھو بارڈر اور غازی پور بارڈر سمیت تمام سرحدوں پر نصب کسانوں کے خیمے اب ہٹا لیے گئے ہیں۔ مختلف سرحدوں پر جمے ہوئے کسان ’کسان وجئے دیوس جشن‘ اور ’فتح مارچ‘ کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ پنجاب کے دیہاتوں میں تو ابھی بھی جشن کا ماحول ہے۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملک کا نام نہاد ’مین اسٹریم میڈیا‘ جشن کے اس ماحول میں کہیں کہیں ہی نظر آرہا ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے اس کسان آندولن پر مسلسل کیچڑ اچھالے، سیکڑوں طرح کے الزام لگائے، کسانوں کو ملک کا ویلین بتایا، انہیں طرح طرح کے القاب سے نوازا، خالصتانی کہا، آتنگ وادی کہا، ملک کا غدار قرار دیا، اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا۔

لیکن انہی سب باتوں و الزامات کے درمیان کئی ایسے صحافی بھی موجود رہے ہیں جنہوں نے کسانوں کی اس تحریک کا شروع دنوں سے ہی احاطہ کیا، اور کسانوں کے مسائل کی حقیقتوں اور ان کے مطالبوں سے ملک و دنیا کو روبرو کراتے رہے۔ اس دوران کئی صحافیوں پر ملک سے غداری کے قانون کے تحت مقدمے بھی درج ہوئے اور جیل بھی جانا پڑا۔ پھر بھی ایسے کئی صحافی ڈٹے رہے اور کسانوں کی اس تحریک سے دنیا کو روشناس کراتے رہے۔ انہی میں سے کچھ صحافیوں سے ہفت روزہ دعوت نے بات چیت کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ کسان میڈیا کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ یا یہ صحافی کسانوں کے متعلق کیا سوچ رکھتے ہیں؟ اور اب جب کہ کسان تحریک کی جیت ہوئی ہے اور ملک کے وزیر اعظم نے کسانوں کے سامنے جھکتے ہوئے نہ صرف تینوں زرعی قوانین واپس لیے، بلکہ ان کسانوں سے معافی مانگتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش بھی کی کہ حکومت کسانوں کو سمجھانے یا ان کے مدعوں کو سمجھنے میں ناکام رہی تو اس پر یہ صحافی کیا سوچتے ہیں؟

کسان پھر سے بنا ایک ’پالیٹیکل کلاس‘

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں ہریانہ کے آزاد صحافی مندیپ پونیا کہتے ہیں ’کسان اس ملک میں ایک ’پالیٹیکل کلاس‘ ہوا کرتا تھا۔ لیکن سن 1990 کے بعد جب سے ’ہندوتوا‘ کی سیاست اس ملک میں حاوی ہوئی، اصل دھارے کی سیاست کا مدعا ہی بدل گیا۔ سیاست میں اب مذہب کی سیاست حاوی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسانوں نے خود اپنی پہچان کھو دی۔ وہ کسی اور طرح سے بات کرنے لگا تھا۔ لیکن اس کسان آندولن کے بعد کسان پھر سے ایک ’پالیٹیکل کلاس‘ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اب تک جہاں الیکشن کے دوران کسانوں کی آمدنی اور ان کی فصلوں کے دام اور کسانوں کے مستقبل پر بات نہیں ہو رہی تھی، لیکن اب مجھے پوری امید ہے کہ اس آندولن کے بعد اب جتنے بھی الیکشن ہوں گے، ان میں کسانوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔ آندولن کی اس جیت نے کسانوں کو پھر سے مین اسٹریم سیاست میں پہونچا دیا ہے۔‘

واضح رہے کہ ہریانہ کے جھجھر میں رہنے والے مندیپ پونیا کی کسان تحریک کے کووریج کے دوران گرفتاری ہوئی تھی۔ انہیں دلی کے تہاڑ جیل میں رکھا گیا تھا۔ دلی پولیس نے مندیپ کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 186 (سرکاری ملازم کے کام میں رکاوٹ ڈالنا)، دفعہ 353 (سرکاری ملازم پر حملہ کرنا)، دفعہ 332 (جان بوجھ کر خلل پیدا کرنا) اور دفعہ 341 (غیر قانونی مداخلت) کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔ مندیپ کا معاملہ ابھی بھی برقرار ہے، اور فی الحال ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پڑھنے کے بعد دہلی کے انڈین انسی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکشن سے سال 2017 میں صحافت کی ڈگری حاصل کی۔ کسان آندولن کے شروع ہونے تک مندیپ ملک کی مختلف ویب سائٹوں کے لیے لکھتے رہے، لیکن اس آندولن کے درمیان انہوں نے خود کی ایک نیوز ویب سائٹ ’گاؤں سویرا‘ کی شروعات کی ہے۔

مندیپ پونیا کسان تحریک پر بات کرتے ہوئے آگے بتاتے ہیں کہ ’پبلک ڈسکشن سے بھی کسان غائب تھا۔ میڈیا نے بھی کسانوں کی بات کرنی بند کر دی تھی۔ اخباروں سے ’اگریکلچربائٹ‘ غائب ہوگئی تھی۔ زرعی معاملات کی رپورٹنگ صرف اتنی بچ گئی تھی کہ وزارت زراعت کی پریس ریلیز کو شائع کرکے کام چلا لیا جاتا تھا۔ لیکن اس کسان آندولن کے بعد واپس پھر سے میڈیا میں کسانوں کو جگہ ملی ہے، بلکہ یوں کہیئے کہ میڈیا کو مجبوری میں جگہ دینی پڑی ہے۔ اس طرح عوامی یادداشت میں بھی کسانوں کی واپسی ہوئی ہے۔ ملک کے عام لوگوں کو بھی یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کسانوں کی بھی ایک شناخت ہے، کسان بھی کوئی چیز ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسانوں کو بھی یہ سمجھ میں آگیا کہ سماج میں میڈیا کا کیا رول ہے، جس میڈیا پر وہ اب تک بھروسہ کرتے رہے ہیں، اس کی حقیقت کیا ہے۔ کسان اب ’ایجنڈہ باز‘ صحافیوں کو پہچاننے لگا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’اس کسان آندولن کا کینوس بہت بڑا تھا۔ سچ کہیے تو کسان آندولن کی جیت پورے سماج کی جیت ہے۔ میں نے اس آندولن کے درمیان دیکھا کہ جب کسانوں کی گرفتاری ہوئی تو وکیل مفت میں ان کی مدد کے لئے آگے آئے۔ بہت سے ڈاکٹر ان کسانوں کی خدمت کررہے تھے۔ دوسرے ممالک میں کام کرنے والےنوجوانوں نے واپس آکر ان کی خدمت کی اور ملک کے حالات کو سمجھا۔ ہوٹل والے، ڈھابے والے، مزدور، آٹو رکشہ والے، جو جتنا کر سکتے تھے،انہوں نے وہ کیا۔ غرض ایک پورا سماج کسانوں کے اس آندولن کے ارد گرد کھڑا رہا۔ میں نے بہت سارے لوگوں کو اس آندولن میں دیکھا جو پوری محنت، لگن اور جذبہ سے کام کر رہے تھے۔ ایک خاتون جو خود کا پیٹ پالنے کے لئے ای۔رکشہ چلاتی ہیں، وہ دن بھر کام کرنے کے بعد شام میں کسانوں کی اپنے ای۔ رکشہ کے ذریعے مدد کر رہی تھیں۔ اس طرح کے کئی مثالیں میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔‘

ایک طویل گفتگو میں مندیپ یہ بھی بتاتے ہیں، ’ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے درمیان جو دوریاں سیاسی وجوہات کی بنا پر بڑھ گئی تھیں، وہ خلیج بھی کسان آندولن نے پاٹنے کی کوشش کی ہے۔ اس کسان تحریک میں سارے مذاہب کے تہوار کسانوں نے مل کر منائے۔ ایک خاص طبقے کی جو نفرت انگیز سیاست تھی، اس کو بھی اس کسان آندولن سے دھکا لگا ہے۔‘

بکاؤ میڈیا نے مخالفت کی ساری حدیں کردی تھیں پار

نیوز لانڈری سے وابستہ صحافی اودھیش کمار کا کہنا ہے کہ مین اسٹریم میڈیا ن کسان تحریک کے دوران کافی منفی رول ادا کیا ہے۔ حکومت کی جانبداری تو وہ کرہی رہے تھے لیکن کسانوں کے جائز مطالبات تک کو ملک کے عام لوگوں کے سامنے رکھنا نہیں چاہ رہے تھے۔ حالانکہ کسانوں نے شروعاتی دور میں ان کو عزت بخشی تھی، لیکن جب انہوں نے کسانوں کے اس آندولن کی مخالفت میں ساری حدیں پار کردیں تو پھر کسان کیا کریں گے؟ جب آپ ان کے اس آندولن میں صرف منفی پہلو کی رپورٹنگ کرنے جاؤگے تو وہ آپ کا استقبال کیوں کریں گے؟

اودھیش اس آندولن کو شروع سے کوور کرتے رہے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں وہ بتاتے ہیں کہ میں خاص طور پر سنگھو بارڈر پر مسلسل جاتا رہا۔ جب میں انہیں بتاتا تھا کہ میں نیوز لانڈری سے ہوں تو کسان ایک الگ طرح کی توجہ دیتے تھے جبکہ کئی صحافیوں کو وہاں سے جان بچاکر بھاگنا پڑا تھا۔ کئی صحافیوں کی تو یہاں تصویریں بھی لگی تھیں، جن کے گلے میں پٹے ڈال کر یا ان کی شکل کتے جیسی بناکر کسان ان کی مخالفت کررہے تھے، لیکن وہیں میں نے ایسے پوسٹر بھی دیکھے جہاں نیوز لانڈری، دی وائر، کوینٹ اور بی بی سی جیسے میڈیا گھرانوں کے صحافیوں کا استقبال ہورہا تھا۔

میڈیا نے نبھایا کافی اہم کردار

لیکن پی ٹی سی نیوز سے منسلک صحافی ڈیبی رائے کا ماننا ہے کہ میڈیا نے اس تحریک میں بہت بڑا کردار نبھایا ہے۔ میں ایسے کئی صحافیوں کو جانتی ہوں جو رپورٹنگ سے الگ کہیں نہ کہیں اس آندولن کا حصہ بن چکے تھے۔ وہ کسان لیڈروں کو ہر طرح سے سمجھاتے تھے تاکہ یہ آندولن ٹوٹ کا شکار نہ ہو۔ یہ سب کچھ ایسے تھا، جیسے گھر کے بچے اپنے بزرگوں کو سمجھاتے ہیں۔ کئی ایسے صحافی بھی تھے جو وہاں لوگوں کی خدمت بھی کرتے تھے، روٹیاں بھی سینکتے تھے۔ میں نے یہاں کئی صحافیوں کو دیکھا ہے جو خدمت کے نام پر جوتے بھی پالش کررہے تھے۔ کئی صحافیوں نے پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں، آنسو گیس کا بھی سامنا کیا۔ اب جب اس آندولن کی جیت ہوئی ہے تو لوگ مجھے بھی مبارکباد کے پیغام بھیج رہے ہیں۔

ڈیبی رائے مزید بتاتی ہیں کہ جب آندولن میں کسانوں کی تعداد گھٹنے لگی تب بھی ہم نے وہاں جانا نہیں چھوڑا۔ ہماری پریشانی یہ بھی تھی ہم ’گودی میڈیا‘ کے صحافیوں سے بھی لڑ رہے تھے، ان سے بھی ہماری جنگ تھی، جبکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیئے تھا کہ مین اسٹریم میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔ ان کا ’باس‘ جو کہے گا، وہی انہیں کرنا پڑتا ہے ، چاہے وہ کتنا ہی بڑا جرنلسٹ کیوں نہ ہو لیکن آپکو جان کر حیرانی ہوگی کہ آفس ختم ہونے کے بعد یا چھٹی کے دن وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔

وہ مزید کہتی ہیں، ’سردی، گرمی، برسات اور سب سے اہم کوویڈ وبا، کسانوں نے سب کچھ سڑک پر ہی جھیلا۔ آندولن کا یہ ایک سال دور سے دیکھنا آسان سا لگتا ہے، لیکن وہاں گھر سے دور رہے کسانوںکی تکلیفوں کے بارے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔‘

ایک طویل گفتگو میں ڈیبی کہتی ہیں، ’اس آندولن کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ اس نے بھارت کو جوڑ دیا ہے، پورے ملک کو ایک کیا ہے۔ یہاں ہندو، مسلم، سکھ عیسائی سبھی مذہبوں کے لوگ موجود تھے۔ میں نے چاروں مذہب کے سینکڑوں لوگوں کا انٹرویو کئے ہیں۔ اور یہ تمام لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑے تھے۔ سنگھو بارڈر پر جہاں گرو وانی کی آواز سنائی دیتی تھی، وہیں میں نے اذان کی صدا بھی سنی ہے۔ اسی جگہ نماز بھی پڑھی جاتی تھی، اور ان کے تحفظ کے لئے ان کے سکھ بھائی کھڑے ہوتے تھے۔ ایسی کئی تصویریں میں نے خود اہنے کیمرے میں قید کی ہیں۔ جو بھائی چارہ میں نے یہاں دیکھا، وہ میں نے آج تک کہیں نہیں دیکھا ہے۔ یہ جیت بھائی چارے کی بھی جیت ہے۔‘

جو کچھ بھی ہوا، وہ ایک جادو ہی تھا

مشہور ڈاکیومنٹری فلم میکر اور ’چل چیتر ابھیان‘ کے بانی و صحافی نکول سنگھ ساہنی کہتے ہیں کہ جو بھی ہوا ہے وہ کہیں نہ کہیں ایک جادو ہی تھا۔ جب یہ لوگ پنجاب سے نکلے تھے تو کسان لیڈروں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ آندولن اتنا بڑا ہوگا اور ایک سال تک چلتا رہے گا۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ آندولن شروع تو ہوا تھا تین زرعی قوانین کی مخالفت میں، لیکن بہت سارے مدعے اس میں جڑتے چلے گئے، لیکن یہ آندولن بھٹکا نہیں، بلکہ اس آندولن نے بہت ساری چیزیں حاصل کر لیں۔ جیسے ہریانہ میں گاؤں کی جاٹ عورتوں کا اپنے گھروں سے نکلنا مشکل ہوتا تھا، وہ ہمیشہ گھنگھٹ میں رہتی تھیں، لیکن اس آندولن میں یہ عورتیں بھی سڑک پر آئیں، ٹریکٹر بھی چلایا، اسٹیج پر بھی موجود رہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح سے سی اے اے مخالف تحریک میں خواتین نے شاہین باغ میں مورچہ سنبھالا تھا، ویسے تو مورچہ نہیں سنبھال پائیں، لیکن ان خواتین کا اس آندولن میں کافی اہم کردار رہا۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں نکول یہ مانتے ہیں کہ سی اے اے مخالف احتجاج، جو اس ملک کا سب سے الگ احتجاج تھا، اس کے ایک سال بعد ہی یہ آندولن شروع ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ شاہین باغ کے آندولن کو کسان آندولن نے بڑے ہی خوبصورت طریقے سے خراج تحسین پیش کیا ہے۔ شاہین باغ آندولن کا ہی اثر ہے کہ ہریانہ جیسے پدرسری نظام اور جاگیردارانہ اسٹیٹ میں عورتیں سڑکوں پر ہیں۔ مردوں کے ساتھ آکر اسٹیج پر گا رہی ہیں، نعرے لگا رہی ہیں۔

نکول سنگھ ساہنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب و ہریانہ کے جو جھگڑے تھے، ان جھگڑوں کو کہیں نہ کہیں کسانوں نے یہاں آکر ختم کیا ہے۔ آخر کس نے سوچا تھا جس پنجاب اور ہریانہ کے درمیان ستلج جمنا لنک کنال کا تنازعہ تھا، ایک دوسرے سے نفرت تھی، وہ ایک ساتھ ہوں گے۔ مظفر نگر میں جہاں محض آٹھ سال پہلے فساد ہوا، اور لوگوں میں نفرت تھی، وہاں کس نے سوچا تھا کہ ہندو۔ مسلم ایک ساتھ کھڑے نظر آئیں گے، لیکن اس آندولن کی بدولت یہ بھی ہوا، ہندو مسلم کسان ہر جگہ ایک ساتھ کھڑے نظر آئے۔ یہ سب کچھ اپنے آپ میں بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ پنجاب کا نوجوان جو اکثر ہم باہر جاکر رہیں گے، یہاں رہنے کا کیا فائدہ؟ کہا کرتا تھا لیکن اب وہی نوجوان کہہ رہا ہے کہ ہمیں یہاں رہنے کا مقصد ملا ہے۔ اس طرح سے یہ آندولن کہیں نہ کہیں جمہوریت کو مضبوط کرنے والا آندولن تھا۔

میڈیا کے رول کے بارے میں بات کرتے ہوئے نکول کہتے ہیں کہ اب میڈیا کو لوگ پہچان چکے ہیں۔ اسی لئے میڈیا کی منفی رپورٹنگ کا ان کسانوں پر یا اس آندولن پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ سچ پوچھے تو سی اے اے مخالف تحریک اور اب اس کسان تحریک کے بعد میڈیا کی پہچان اچھے سے اجاگر ہوئی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا پر اب عام لوگوں کا بھروسہ نہیں رہا۔ وہیں اس کے برعکس ’متبادل میڈیا‘ کو لوگوں نے سنجیدگی سے لیا ہے۔ اور ویسے بھی مین اسٹریم میڈیا کا اپنا وجود ہی کیا ہے۔ حکومت جو کہتی ہے، وہ وہی کرتے ہیں، ان کے رول کو لے کر حیران ہونے جیسی کوئی بات نہیں ہے۔

واضح رہے کہ نکول سنگھ ساہنی نے کئی دستاویزی فلمیں بنائی ہیں، ان میں ’مظفر نگر باقی ہے‘ اور ’عزت نگر کی اسبھیہ بیٹیاں‘ کافی مشہور اور معنی خیز دستاویزی فلم ہیں۔ انہوں نےاس کسان تحریک کو بھی کوور کیا ہے اور دنیا کے مختلف اخباروں و ویب سائٹس پر اس بارے میں لکھا ہے۔ نکول اس کسان تحریک پر بھی ایک ڈاکیومنٹری فلم بنا رہے ہیں، ان کے مطابق اس کا پہلا حصہ نئے سال کے شروعاتی مہینوں میں ریلیز کیا جائے گا۔

کسان آندولن میں صحافیوں پر مقدمے؟

کسان آندولن کے ایک سال کے دوران متعدد صحافیوں پر مقدمے درج ہوئے ہیں۔ دو صحافیوں کو جیل جانا پڑا تو وہیں کچھ صحافیوں کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کا نوٹس بھی ملا۔

خیال رہے کہ این آئی اے کی جانب سے نوٹس پانے والوں میں پنجاب کے ایک ٹی وی چینل کے صحافی جسویر سنگھ کے علاوہ بلتیج پنو اور تیجندر سنگھ کے نام شامل تھے۔ وہیں برطانیہ میں مقیم پنجاب ٹائمز کے ایک صحافی بلوندر پال سنگھ کو بھی 17 جنوری کو این آئی اے ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہونے کے لیے اسی طرح کا نوٹس دیا گیا تھا۔ اس نوٹس میں این آئی اے نے انہیں خالصتانی تنظیم سے جوڑا تھا اور کہا تھا کہ ’دیگر خالصتانی تنظیمیں بشمول سکھ فار جسٹس، ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان ٹائیگر فورس اور خالصتان زندہ باد فورس نے لوگوں میں بے اطمینانی پیدا کرنے کے لیے خوف اور انتشار کا ماحول پیدا کیا ہے۔ اور انہیں حکومت ہند کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔‘

جیل جانے والے صحافیوں میں مندیپ پونیا اور دھرمیندر سنگھ کا نام شامل ہے۔ لیکن دھرمیندر سنگھ کو دہلی پولیس نے اگلے ہی دن چھوڑ دیا۔ دھرمیندر سنگھ کے مطابق ان سے تحریری انڈرٹیکنگ لیتے ہوئے انہیں اس شرط پر چھوڑا گیا تھا کہ وہ آئندہ پولیس کارروائی کا کوئی ویڈیو نہیں بنائیں گے اور نہ ہی میڈیا سے بات کریں گے۔ لیکن مندیپ پونیا کو تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔ مندیپ فی الحال عدالت سے 25000 کے شخصی مچلکے پر باہر ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ ہنوز جاری ہے۔ حالانکہ مندیپ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتاتے ہیں کہ ان کے معاملے میں پولیس نے ابھی تک کوئی چارج شیٹ داخل نہیں کی ہے۔

مندیپ اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتاتے ہیں ’مجھ سے کہا گیا کہ اچھا! رپورٹنگ کرنے آیا ہے، اب تہاڑ سے جاکر رپورٹنگ کرنا۔۔۔‘ وہ مزید بتاتے ہیں ’میرے ساتھ جو فزیکل ٹارچر ہوا، اس سے زیادہ دکھ مجھے مینٹل ٹارچر (ذہنی ہراسانی)سے ہوا۔ جس طرح کی زبان استعمال کی گئی، وہ میرے لئے نہایت تکلیف دہ رہی۔۔۔‘

مندیپ پونیا جب جیل سے باہر آئے تو دنیا کو پتہ چلا کہ تہاڑ جیل میں اور کئی کسان قید ہیں اور ان کے جسموں پر لاٹھی کی ضربوں کے نشانات ہیں۔ پونیا نے قید کے دوران ان تمام کسانوں سے بات کی تھی اور ان کی کہانیوں کو اپنی ٹانگوں پر نوٹ کیا تھا۔ واضح رہے کہ مندیپ پونیا کو جیل کے اندر مطالبے کے بعد بھی کاغذ اور قلم نہیں دیا گیا تھا، کسی طرح سے ایک قیدی نے ہی قلم کا انتظام کیا تھا۔

اتنا ہی نہیں، اس تحریک کے درمیان ملک کے کئی مشہور صحافیوں پر ایف آئی آر درج کئے گئے۔ اتر پردیش کے نوئیڈا اور مدھیہ پردیش کے بھوپال اور بیتول ضلع کے ملتائی پولیس اسٹیشن میں یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشدد بھڑکانے کا الزام لگاتے ہوئے آٹھ صحافیوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ الزام لگایا گیا کہ ان صحافیوں نے سوشل میڈیا پر غلط معلومات ڈالیں اور فساد بھڑکانے کی سازش کی۔ ان صحافیوں میں سدھارتھ وردراجن، راجدیپ سردیسائی، مرنال پانڈے، پریش ناتھ، اننت ناتھ، ونود کے جوسیف اور ظفر آغا کے نام شامل ہیں۔

درحقیقت، 26 جنوری 2021 کی ریلی کے دوران اپنی جان گنوانے والے ایک احتجاجی کی موت کو لے کر تنازعہ ہوا تھا۔ ایک طرف پولیس کا کہنا تھا کہ ٹریکٹر پلٹنے سے اس کی موت ہوئی، جبکہ اہل خانہ کا الزام ہے کہ اسے گولی ماری گئی۔ کئی اخبارات و رسائل نے مہلوک کے خاندان کا بیان شائع کیا جو صحافیوں کے خلاف مقدمات کی بنیاد بنا۔ کچھ صحافیوں نے اسے رپورٹ کیا یا کہانی شائع کی اور کچھ نے محض اسے صرف سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا۔

اس کے علاوہ ہریانہ کے حصار ضلع کے صحافی راجیش کنڈو کے خلاف سائبر دہشت گردی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ حصار پولیس کے ترجمان کی شکایت پر درج کی گئی تھی۔ پولیس ترجمان نے اپنی شکایت میں بتایا تھا کہ واٹس ایپ گروپ پر صحافی کے موبائل نمبر سے اشتعال انگیز پیغام بھیجا گیا، جو عام لوگوں کو بھڑکا سکتا ہے اور جس کا امن و امان پر اثر پڑ سکتا ہے۔

ایک صحافی نے چھوڑی تھی اپنی نوکری

کسان تحریک کے دوران 27 فروری2021 کو کسانوں کی حمایت میں ایک صحافی کی نوکری چھوڑنے کی کہانی بھی سامنے آئی تھی۔ اس صحافی کا نام رکشیت سنگھ ہے اور وہ اے بی پی نیوز چینل کے رپورٹر تھے۔ وہ میرٹھ کی کسان مہاپنچایت کے کوریج کے لیے آئے تھے اور اس اسٹیج سے اعلان کیا کہ ’میرے والدین نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے مجھے پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا کہ میں اس پیشے کو چن پایا۔ میں نے اس پیشے کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ میں سچ دکھانا چاہتا تھا۔ لیکن ہمیں نیوز چینل کے ذریعے سچ نہیں دکھانے دیا جا رہا ہے۔ آج میں اس نوکری کو لات مارتا ہوں۔‘

وہیں اس کسان تحریک کے دوران ایک صحافی کی جان بھی گئی۔ بتادیں کہ اتر پردیش کے لکھیم پور کھیری میں کسانوں کے احتجاج کے دوران پھوٹ پڑے تشدد میں مارے گئے آٹھ لوگوں میں 35 سالہ صحافی رمن کشیپ بھی شامل تھے۔ الزام ہے کہ ان پر فائرنگ کی گئی تھی، کیونکہ وہ ’وی آئی پی‘ قافلے کی گاڑیوں سے کسانوں کے کچلے جانے کا ویڈیو بنا رہے تھے۔

کسان آندولن سے کیا سیکھا؟

اس سوال پر مندیپ پونیا کہتے ہیں کہ ’میرا ماننا ہے کہ اگر آپ سچ کے لئے ہمیشہ ڈٹے رہے تو ایک نہ ایک دن جیت آپ کی ہی ہونی ہے۔

وہیں بی بی سی کے صحافی دلنواز پاشا کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ صبر اور سکون رکھتے ہیں اور اپنے اقدار پر قائم رہتے ہیں اور مقصد کی طرف بڑھتے ہیں، تو دیر سے صحیح جیت آپ کی ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ بھلے ہی ایک سال سے جاری کسان تحریک فی الحال معطل ہوگئی ہے، لیکن کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ مرکزی حکومت نے کسانوں کو ان کے پانچ مطالبات کے حوالے سے جو تحریری یقین دہانی کرائی ہے، اگر انہیں پورا نہیں کیا گیا تو وہ ایک بار پھر سڑکوں پر اتریں گے۔ کسان لیڈروں کا کہنا ہے کہ ’متحدہ کسان مورچہ 15 جنوری کو ایک جائزہ میٹنگ منعقد کرے گا، اگر مرکزی حکومت ان کے مطالبوں سے اتفاق نہ کرے تو کسان پھر سے تحریک شروع کریں گے۔

تاریخ میں پہلی بار جیل جانے والے کسانوں کے صحافی

تاریخ میں پہلی بار جیل جانے والے کسانوں کے صحافی کے طور پر اگر کسی صحافی کا نام لیا جا سکتا ہے تو وہ نام یقیناً ’مونس‘ کا نام ہوگا۔ ان کا پورا نام پیر محمد انصاری تھا اور ’مونس‘ ان کا تخلص تھا۔ ان کی پیدائش 1892 میں بہار کے مغربی چپمارن ضلع کے بیتا شہر کے ایک مڈل کلاس خاندان میں ہوا تھا۔ آپ کے والد کا نام پھتنگن میاں تھا۔ وہ ان پڑھ تھے اور تاڑی بیچنے کا کام کرتے تھے۔ چمپارن ستیہ گرہ کے پس منظر کو تیار کرنے اور گاندھی کو چمپارن لانے میں پیر محمد مونس کا کردار ناقابل فراموش رہا ہے۔ اس طرح ملک کی آزادی کے لئے مونس نے اپنی مکمل زندگی غربت میں گذاری اور غربت میں ہی 23 ستمبر، 1949 کو اس دنیا کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلے گئے۔

پیر محمد مونس ہمیشہ چمپارن کے کسانوں کی حمایت میں کھڑے رہے اور رپورٹنگ کرتے رہے۔ جو درد، جو بے چینی ملک کے کسانوں کے لیے پیر محمد مونس کے دل میں تھا، وہ شاید ہی آج کسی صحافی کے دل میں دیکھنے کو ملے۔ وہ کسانوں کے لیے نہیں لکھ رہے تھے، لیکن وہ کسانوں کی لکھ رہے تھے۔ اپنے اس رپورٹنگ کی وجہ سے انہیں کئی بار جیل جانا پڑا، لیکن مونس اپنا سب کچھ قربان کر غریب کسانوں کے مسائل کو اٹھاتے رہے جس کی وجہ ان کی صحافت اس زمانے میں سماجی تحریک کی ایک مثال بنی۔

مشہور صحافی گنیش شنکر ودیارتھی 15 فروری 1921 کو اپنے اخبار ’پرتاپ‘ میں لکھتے ہیں، ’مجھے کچھ ایسی ذی روح کے درشن کرنے کا موقع ملا ہے جو ایک کونے میں چپ چاپ پڑی رہتی ہے دنیا ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ان گدڑی کے لعلوں کا جتنا کم نام ہوتا ہے ان کا کام اتنا ہی عظیم اور عوام کے لیے مفید ہوتا ہے۔ وہ خود چھپے رہیں گے اور شہرت کے وقت دوسروں کو آگے کر دیں گے مگر کام کرنے اور مشکلات کا سامنا کرنے میں سب سے آگے رہیں گے۔ پیر محمد مونس بھی اسی قبیل کی ذی روحوں میں سے ایک تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو صرف کام کرنا جانتے تھے۔ چمپارن میں گوروں کے تشدد سے وہاں کے شہری بہت پریشان تھے، ان کا جینا دوبھر ہوگیا تھا۔ ملک کے کسی بھی لیڈر کی توجہ اس طرف نہیں گئی مگر میرے دوست پیر محمد مونس بتیا اور چمپارن واسیوں کی حالت پر آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ انہوں نے ہی مہاتما گاندھی کو چمپارن کی دکھ بھری کہانی سنائی تھی جس کے بعد ہی مہاتما گاندھی یہاں آئے اور چمپارن کی زمین انگریزوں سے پاک ہوئی تھی۔‘ دراصل یہ پیر محمد مونس کے انقلابی لفظ ہی تھے جو گاندھی کو چمپارن کھینچ لائے اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ گاندھی کے ستیہ گرہ کی وجہ سے تحریک آزادی کو پَر لگ گئے اور چمپارن کی ایک الگ پہچان بنی۔

***

 سن 1990 کے بعد جب سے ’ہندوتوا‘ کی سیاست اس ملک میں حاوی ہوئی، اصل دھارے کی سیاست کا مدعا ہی بدل گیا۔ سیاست میں اب مذہب کی سیاست حاوی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسانوں نے خود اپنی پہچان کھو دی۔ وہ کسی اور طرح سے بات کرنے لگا تھا۔ لیکن اس کسان آندولن کے بعد کسان پھر سے ایک ’پالیٹیکل کلاس‘ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اب تک جہاں الیکشن کے دوران کسانوں کی آمدنی اور ان کی فصلوں کے دام اور کسانوں کے مستقبل پر بات نہیں ہو رہی تھی، لیکن اب مجھے پوری امید ہے کہ اس آندولن کے بعد اب جتنے بھی الیکشن ہوں گے، ان میں کسانوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  26  دسمبر تا 1 جنوری 2021