سابق بیوروکریٹس اور ماہرین تعلیم نے سرکاری ملازمین کو ’’رتھ پربھاری‘‘ کے طور پر تعینات کرنے کے مرکز کے منصوبے کی مخالفت کی

نئی دہلی، اکتوبر 25: انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے 70 ریٹائرڈ افسران، ماہرین تعلیم اور کارکنوں کے ایک گروپ نے سرکاری ملازمین کو ’’رتھ پربھاری‘‘ کے طور پر تعینات کرنے کے مرکزی حکومت کے منصوبے کی مخالفت کی ہے۔

17 اکتوبر کو جاری کردہ ایک سرکلر میں مرکزی حکومت نے تمام وزارتوں سے کہا کہ وہ ملک کے تمام 765 اضلاع میں گرام پنچایت سطح تک جوائنٹ سکریٹری، ڈائریکٹر اور ڈپٹی سکریٹری کے عہدے کے افسران کو 20 نومبر اور 25 جنوری کے درمیان ’’ضلع رتھ پربھاری‘‘ کے طور پر تعینات کرنے کے لیے نامزد کریں، جس کا مقصد ’’وکست بھارت سنکلپ یاترا‘‘ کے ذریعے ’’حکومت کی گذشتہ نو سالوں کی کامیابیوں کو ظاہر کرنا/منانا‘‘ ہے۔

وزارت دفاع نے اپنے تمام محکموں کو 822 سیلفی پوائنٹس تیار کرنے کے لیے تفصیلی رہنما خطوط بھی جاری کیے ہیں، جن میں حکومت کے کام کی نمائش کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر بھی ہوسکتی ہے۔

رہنما خطوط میں کہا گیا ہے کہ ’’مصنوعی ذہانت کی تکنیکوں کی نمائش کرنے والے ڈیجیٹل سیلفی پوائنٹس بھی نصب کیے جا سکتے ہیں، تاکہ نوجوانوں کو راغب کیا جا سکے۔ سیلفی پوائنٹس نمایاں جگہوں پر قائم کیے جائیں، جہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آمدورفت اور لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کی صلاحیت ہو۔‘‘

صدر دروپدی مرمو، وزرائے اعلیٰ اور اراکین پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ای اے ایس سرما، ارونا رائے، وینکٹیش اتھریا اور جوہر سرکار اور دیگر نے کہا کہ این ڈی اے حکومت کی کامیابیوں کو ظاہر کرنے کے لیے مرکزی حکومت کی مشینری کو تعینات کرنا ’’بدعنوانی‘‘ کے مترادف ہے۔

سول سوسائٹی گروپ نے اسے انتہائی رجعتی قدم قرار دیا اور کہا ’’یہ پہلا موقع ہے جب مرکز میں اقتدار میں موجود سیاسی قیادت نے انتخابات کے موقع پر اپنی شبیہہ کو بہتر بنانے کے لیے اپنی پوری مشینری اور عوامی وسائل کو کام میں لگا دیا ہے، جس سے حزب اختلاف کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘

ان کے بقول یہ ’’ماڈل ضابطہ اخلاق کی بھی ڈھٹائی کے ساتھ خلاف ورزی‘‘ ہے، کیوں کہ مدھیہ پردیش، راجستھان، تلنگانہ، چھتیس گڑھ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات نومبر میں ہونے والے ہیں۔

گروپ نے حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ انتخابی عمل کی سالمیت کی برقراری اور الیکشن کمیشن کی آزادی کی ’’سخت توہین‘‘ کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

ہفتہ کے روز مرکزی حکومت کے سابق سکریٹری ای اے ایس سرما نے پولنگ باڈی کو خط لکھا، جس میں اس سے اس معاملے میں مداخلت اور ’’رتھ پربھاریوں‘‘ کی تعیناتی کے حکومتی حکم کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ سرما نے دلیل دی کہ ہدایات ماڈل ضابطہ اخلاق کے خلاف ہیں۔ سابق آئی اے ایس افسر ایم جی دیواسہام نے بھی سرما کے خط کی تائید کی ہے۔

پیر کو ایک اور خط میں سرما نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ الیکشن کمیشن نے ان کی شکایت کا نوٹس لیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ عوامی ملازمین ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو ووٹروں اور انتخابی نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں، اور یہ سینٹرل سول سروسز کنڈکٹ رولز کی خلاف ورزی ہے۔

کانگریس نے بھی اس حکم کی مخالفت کی ہے۔ کانگریس کے ترجمان نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں پوچھا کہ ’’سرکاری ملازمین کو الیکشن کے مرحلے سے گزرنے والی حکومت کے لیے سیاسی پروپیگنڈا کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟‘‘

کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے بھی اتوار کو وزیر اعظم کو خط لکھا اور اس اقدام کو ’’سرکاری مشینری کا انتہائی غلط استعمال‘‘ قرار دیا۔