پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
بیشتر آبادی کی آمدنی اور خرچ میں نابرابری ہنوز ایک حقیقت
نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او)نے سال 2022-23 کے لیے گھریلو صارف خرچ سروے کا مختصر خلاصہ شائع کیا ہے جس کا سارے ملک میں استقبال کیا جارہا ہے۔ یہ سروے 11سالوں کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ اس پہلو سے اس کے مطالعہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ڈیٹا جاری نہ کیے جانے پر حکومت پر مسلسل نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔ امید ہے کہ ان اعداد وشمار سے مختلف سماجی اور معاشی ریسرچ اداروں کو غور و فکر اور تحقیق میں سہولت ہوگی۔ ملک 2011-12 تا 2022-23 کے دوران کنبوں کے ماہانہ اخراجات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اس مدت میں دیہی اور شہری علاقوں میں کنبوں کے ماہانہ اخراجات (MPCE) میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ لیکن کیا کنبوں کی آمدنی میں بھی واقعی اضافہ ہوا ہے؟ این ایس ایس او کے ڈیٹا کے مطابق کرنٹ پرائس پر ایم پی سی ای دیہی علاقوں میں فی کس خرچ ایک دہائی میں 1430سے بڑھ کر 3773 روپے ہوگیا ہے۔ وہیں شہری علاقوں میں 2630 روپے سے بڑھ کر 6459 روپے ہو گیا ہے۔ گاوں یا شہر میں خوراک پر ہونے والا خرچ دوگنا سے زیادہ ہوگیا ہے مگر بقیہ کل اخراجات میں اس قدر اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ویسے ہمارے ملک میں لوگوں کی آمدنی اور خرچ میں نابرابری کی خلیج کافی بڑی ہے۔ ملک میں معاشی طور سے اونچی دیہی اور شہری آبادی ایک ماہ میں اوسطاً 10501 روپے 20824 روپے خرچ کرنے لگی ہے۔ پہلے یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ بھارتیوں کی اوسط اخراجات میں کمی آرہی ہے جب این ایس ایس او کے ذریعہ تیار کردہ 2017-18 کا ڈیٹا لیک ہوا تو اس بنیاد پر حکومت کی خوب کھنچائی ہوئی تھی۔ بعد میں حکومت نے مذکورہ رپورٹ کو رد کردیا۔ اس کے بعد سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ملک میں آمدنی میں کمی اس کی وجہ ہے۔ انتظامیہ اعداد و شمار کو جاری کرنے سے بچنا چاہتی ہے۔ بہرحال رپورٹ کا محض خلاصہ ہی شائع کیا گیا ہے۔ اس لیے مکمل رپورٹ کے لیے کچھ دنوں تک مزید انتظار کرنا پڑسکتا ہے۔ یہ روایت رہی ہے کہ حکومت کو ڈیٹا شائع کرنے کا دباو رہتا ہے اور صحیح اعداد و شمار اس لیے ضروری ہوتے ہیں کہ اس کی بنیاد پر بہتر ترقی کے منصوبوں کا بہتر خاکہ بنایا جاسکے۔ یاد رہے کہ کورونا وبا اور لاک ڈاون کی سختی کی وجہ سے معیشت گرکر منفی سطح پر آگئی ہے۔ تب ایسے وقت میں ملک میں ڈیٹا شائع نہ کرکے آبادی کو نا امیدی سے بچایا گیا جبکہ اس دلیل کی ماہرین معاشیات کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ معیشت کے مختلف پہلووں کو زیادہ دنوں تک پوشیدہ بھی نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ شائع شدہ اعداد و شمار واضح کررہے ہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور خرچ کے طور طریقوں میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ ایک وہ بھی وقت تھا جب بیشتر کنبے اپنی پوری آمدنی خوراک کی فراہمی میں خرچ کر دیتے تھے۔ مگر اب خوراک پر ہونے والے خرچ کا تناسب دن بدن کم ہورہا ہے۔ ساتھ ہی لوگ بہتر زندگی کی دیگر اشیا کی فراہمی پر خرچ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق لوگ گیہوں، چاول اور دال جیسے اناجوں پر کم خرچ کرکے اب ریفریشمنٹ، پروسیسڈ فوڈ، انڈا، دودھ ، مچھلی، دہی، پھل، ناشتہ اور پروسیس کی ہوئی غذا کو زیادہ استعمال کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ خرچ کا بڑا حصہ تعلیم، صحت، حمل و نقل اور دیگر خدمات پر صرف ہو رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں بھارتی کنبے کا خوراک پر ماہانہ خرچ 2011-12 کے مقابلے میں 53 فیصد سے کم ہوکر 46.4 فیصد ہوگیا ہے۔ شہری علاقوں کے کنبوں کے ماہانہ خرچ میں خوراک کی حصہ داری 42.6 فیصد سے کم ہو کر 2022-23 میں 39.2 فیصد رہ گئی ہے جبکہ کھانے کے علاوہ دیگر اشیا کی حصہ داری 57.4 فیصد سے بڑھ کر 60.8 فیصد ہوگئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کی وجہ فاسٹ موونگ کنزیومر اشیا (FMCG) پر زیادہ دباو پڑا ہے۔ کل ملا کر ملک کے باشندوں نے صابن، بسکٹ، جیم جیسی تیزی سے فروخت ہونے والی اشیا پر 5.4 ٹریلین روپے خرچ کیے۔ اسی کے مد نظر وزیر اعظم مودی نے کہا کہ بھارت میں غربت اپنی نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے اپنی پیٹھ تھپھاتے ہوئے کہا کہ گاوں اور قصبوں میں حکومت نے دیہی بھارت کو سامنے رکھ کر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی ہے ابھی یہ سب دعوے زمینی حقیقت سے کافی دور ہیں۔
حالیہ سروے کا بیک نظر جائزہ لینے سے کنبوں کے اوسط ماہانہ اخراجات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک کی 9ریاستوں کے دیہی اور شہری علاقوں کے اخراجات قومی سطح کے دیہی اور شہری اوسط ایم پی سی ای سے کافی کم ہیں جس میں مغربی بنگال ، یو پی ، اڑیسہ، میگھالیہ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ ، بہار، آسام اور چھتیس گڑھ ہیں۔ 9 ریاستوں کی کل آبادی ملک کی آبادی کا 57 فیصد ہے۔ سروے کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کا طرز زندگی بھارتی ریاستوں میں زندگی گزارنے کے اسٹینڈرڈ سے کافی کم ہے۔ ساتھ ہی یونین ٹیریٹریز لداخ، جموں و کشمیر، لکشدیپ ، دادر نگر حویلی، منی پور کے ایم پی سی ای کا شہری تناسب قومی شہری ایم پی سی ای یعنی 6459روپے سے نچلی سطح پر ہے۔ اس کے باوجود اتنا تو طے ہے کہ میں غذائی بازار کا مستقبل بہتر ہے۔ بہرحال سرکاری ایجنسیوں کو بھی مفصل اعداد و شمار کا انتظار رہے گا تاکہ گزشتہ ادوار سے مقابلہ بآسانی ممکن ہوسکے۔
ماہرین معاشیات کی بڑی تعداد اس سروے میں ہونے والی دھاندلیوں کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ ان کے مطابق جب خط افلاس کا کوئی اتہ پتہ ہی نہیں ہے تو کیسے غریبی پانچ فیصد کم ہوگئی؟ جیسا کہ مودی کا دعویٰ ہے کہ ویلفیر اسکیم کے ذریعہ غریبوں کو اناج، بچیوں کو سائیکل، بے گھر لوگوں کو گھر کی اسکیم تو ہوتی ہے مگر فائدہ سبھوں کو نہیں ملتا ہے اس میں سائیکل، موبائل، لیپ ٹاپ جیسے اشیا مفت دیے گئے سب کو جوڑا گیا ہے۔ پہلے 2011-12کے مقابلے میں غربا کو اسکیموں کے ذریعے جو دیا گیا تھا وہ بھی قابل قدر تھا۔ مگر اب جو دیا گیا ہے اس کے بڑے حصے کو افراط زر نے ہڑپ لیا ہے۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ آبادی کی سب سے نچلی سطح جس کی ایم پی سی ای محض 1441 روپے ہے اسے حکومت کے فری ویلفیر اسکیم سے سب سے کم فائدہ ہوا ہے اور اس گروپ کے لوگوں کو فی کس ماہانہ 68 روپے ہی فائدہ ملا ہے جن کا اوسطاً ایم پی سی ای 4551 روپے ہے جو پانچ فیصد کمزور ترین آبادی سے تین گنا زیادہ ہے ۔ اس طرح بلاشبہ پانچ فیصد لوگوں کا کھپت خرچ (consumption expenditure) 4.45فیصد زیادہ ہوگا جب اس میں مفت دیے گئے اشیا بھی شامل کیے جائیں گے جبکہ 70تا 80فیصد آبادی کا اضافی خرچ مفت کے اشیا کے ساتھ 93 روپے ہوتا ہے۔ ان کا فیصد اضافہ 2.08 فیصد ہی رہتا ہے۔ ملک کے غریب ترین پانچ فیصد لوگ گزشتہ سہ ماہی میں 46 روپے یومیہ آمدنی پر تھے ۔
واضح رہے کہ سرمایہ کاری کے لیے خرچ میں 13فیصد کا اضافہ ہوا ہے مگر صارفین خرچ میں محض 8 فیصد ہی اضافہ ہوا ہے۔ اس کو افراط زر اور مہنگائی کے ذریعہ ایڈجسٹ نہیں کیا گیا ہے۔ اب حساب لگا کر دیکھا جائے گا تو صارف اخراجات محض 3 فیصد ہی رہ جاتے ہیں جبکہ جی ڈی پی میں اس کی حصہ داری 60 فیصد ہے۔ اگر ہماری جی ڈی پی 7 فیصد کے حساب سے بڑھتی ہے تو صارف خرچ میں بھی اسی اعتبار اور تناسب سے اضافہ ہونا چاہیے۔ صارف خرچ میں مسلسل اضافہ کے لیے روزگار اجرت اور خردہ قرض میں مسلسل اضافہ ضروری ہے۔ خردہ قرض میں رہائشی قرض بھی شامل ہے جو ترقی میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ بہت زیادہ افراط زر صارفین کے احساس پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے کیونکہ لوگ حسب خواہش اشیا کی خریداری میں کمی کردیتے ہیں۔ آج ملک میں بے روزگاری اور مہنگاائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جن سے لوگ بے دریغ خرچ کرنے سے ڈرتے ہیں۔ لوگ مہنگائی ،معاشی عدم مساوات اور غربت سے نبرد آزما اور بدحال ہیں۔
***
***
حالیہ سروے کا بیک نظر جائزہ لینے سے کنبوں کے اوسط ماہانہ اخراجات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک کی 9ریاستوں کے دیہی اور شہری علاقوں کے اخراجات قومی سطح کے دیہی اور شہری اوسط ایم پی سی ای سے کافی کم ہیں جس میں مغربی بنگال ، یو پی ، اڑیسہ، میگھالیہ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ ، بہار، آسام اور چھتیس گڑھ ہیں۔ 9 ریاستوں کی کل آبادی ملک کی آبادی کا 57 فیصد ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 مارچ تا 23 مارچ 2024